پوری دنیا میں ایک قسم کے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور وہ ہیں کھیلوں کے تماش بین۔ دنیا کے ہر علاقے میں کھیلی اور پسند کی جانے والی سپورٹس مختلف ہیں۔ ان کا نقشہ پہلی تصویر میں۔ اور کھیلوں سے یہ دلچسپی کا تعلق آج سے نہیں قدیم تاریخ سے چلا آ رہا ہے۔
ایسا کیا ہے کہ ہم کھیل دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ اپنی پسندیدہ ٹیم اور اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں سے جذباتی لگاؤ کیوں بن جاتا ہے؟ اتنا وقت اور توجہ اسے کیوں دیتے ہیں؟ کھیل کے تناؤ والے لمحات میں بے ترتیب ہوتی دھڑکنیں، سرخ ہوتا چہرہ آخر کیا ایسا نشہ دیتے ہیں کہ ہم یہ بار بار کرتے ہیں اور پھر ایسا کیوں کہ ہم یہ اکیلے نہیں دیکھنا چاہتے۔ بڑے مجمع میں یا پھر دوستوں کے ساتھ دیکھنا ہی پسند ہے۔ اس میں ہم ہیرو اور وِلن ڈھونڈتے ہیں۔ ایک اہم کیچ چھوڑ دینے والے یا میچ کی آخری گیند پر چھکا لگا کر جیت جانے کی یادیں برسوں ساتھ رہتی ہی حالانکہ ہمارا اس میں ذاتی فائدہ نقصان تو کچھ بھی نہیں۔ کسی بھی کھیل کے شائق سے یہ پوچھا جائے تو اس نے تو شاید اسے گہرائی میں نہ سوچا ہو لیکن اس پر نظر سائنس کے حوالے سے۔
اس کے پیچھے جو بڑے عوامل کارفرما ہیں۔
1۔ جسمانی صلاحیتوں کی داد۔ جتنی بھی مقبول کھیلیں ہیں، وہ سب جسمانی ہیں۔ شطرنج جیسے کھیل میں کبھی بھی بڑی تعداد میں شائقین نہیں ہوں گے حالانکہ اس میں دماغی مہارت کم نہیں۔ کسی کی پھرتی، چستی، تیزرفتاری، سٹیمنا، اونچی چھلانگ، آنکھ اور ہاتھ کا ربط وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کو ہم جمالیاتی طور پر سراہتے ہیں۔ کھیل کے اصولوں سے واقف نہ ہونے والا بھی کسی کی جسمانی مہارت پہچان سکتا ہے۔ جسمانی مہارت اور فِٹنس ہمیں آخر کیوں بھاتی ہے، یہ آپ خود سوچ لیں۔
2۔ شناخت۔ سب مشہور کھیلوں میں ایک اور چیز مشترک ہے۔ دو لوگوں یا دو ٹیموں کا براہِ راست آمنا سامنا۔ یہ دو ملکوں کی نمائندگی کرنے والی ٹیمز ہو سکتی ہیں یا پھر دو کلب ہو سکتے ہیں، دونوں کے اپنے سپورٹر۔ اپنی پسند کے ایتھیلیٹ یا اپنی ٹیم کے ساتھ شناخت بنانا اور اسے سپورٹ کرنا ٹرائبل تھیوری کی وجہ سے ہے اور یہ ہماری فطرت ہے اور ایک طرح سے ہمارے لئے ضروری بھی۔ اس کے بارے میں نیچے دئے گئے لنک سے
3۔ ہارمونز۔ جیتنے، ہارنے اور ان سے بنتی یادداشتوں کا سب سے زیادہ تعلق ہمارے ہارمونز سے ہے جن میں ٹسٹوسٹیرون سب سے اہم ہے۔ اگر ہماری پسندیدہ ٹیم جیت جائے تو اس کا لیول بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب بہت کانٹے دار مقابلہ ہو۔ جیت کے بعد ہونے والے ردِ عمل کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ ہے۔ ساتھ لگا گراف پرتگال کی فٹ بال لیگ کے میچ سے، جس میں جیتنے اور ہارنے والی ٹیم کے شائقین کے اس لیول کا فرق بالکل واضح ہے۔ جس روز میچ ہونا تھا اس روز ہر ایک کے لئے یہ لیول عام دنوں سے زیادہ بڑھ گیا تھا (اسی طرح کا ایک تجربہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کیا گیا، اپنے پسندیدہ امیدوار کی جیت پر ان کے سپورٹرز کا یہ لیول ہارنے والے امیدوار کے سپورٹرز سے بہت زیادہ تھا)۔
4۔ تجسس۔ ہم کسی بھی چیز سے زیادہ کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ ووڈی ایلن کا کہنا تھا کہ کبھی بھی کسی ڈرامہ یا اوپرا میں اتنے شائقین نہیں آ سکیں گے جتنے کسی میچ میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈرامے یا فلم یا کہانی کا نتیجہ غیرمتوقع نہیں۔ کھیلوں میں کچھ بھی ممکن ہو سکنا بڑی ایٹریکشن ہے۔ کھیل شروع ہونے سے بھی پہلے کھلاڑیوں کی اور ٹیموں کی کہانیاں، کھیل کے موڑ اور نتیجہ ہمارے دماغ کے ان حصوں کو اپیل کرتا ہے جو کہانی سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ کھیل جس میں نتیجہ غیرمتوقع ہونے کا امکان زیادہ ہو، وہ زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔ وہ میچ اور ٹورنامنٹ جو یکطرفہ نہ ہوں، وہ زیادہ دیر یاد رہتے ہیں۔ (ایک ریکارڈ ہوئے میچ اور ایک لائیو میچ میں فرق تو کچھ بھی نہیں، سوائے تجسس کے)۔
اس میں مرر نیورونز کا ذکر چھوڑ دیا، وہ نیچے دئے گئے لنک سے۔
مرر نیورونز اور کھیلوں پر
https://www.medicaldaily.com/mind-and-body-sports-fan-sport…
قبائلی تھیوری پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Tribalism
جیتنے اور ہارنے پر ٹسٹوسٹیرون کے لیول پر
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/19278791
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔