یہ نومبر 2010 کی سولہ تھی۔ منگل کا دن تھا۔ دن کے سوا دو بجے کا وقت تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر ایک جہاز اترنے والا تھا۔ اس جہاز کے مسافروں کا استقبال کرنے کیلئے ہوائی اڈے پر ایک ہجوم انتظار کر رہا تھا۔ انتظار کرنے والے یہ لوگ صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے تھے۔ دیر اور سوات سے‘ مالاکنڈ اور مردان سے‘ کوہاٹ اور وانا سے‘ بنوں اور میران شاہ سے‘ کرک سے‘ باجوڑ سے‘ وزیرستان سے‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے‘ کوئی ٹیکسی کرکے آیا تھا‘ کوئی تین بسیں بدل کر‘ کوئی پوری سوزوکی کرائے پر لیکر‘ کوئی اپنی کار پر‘ اور یہ لوگ جو پشاور کے ہوائی اڈے پر تھے انکی تعداد تو کچھ بھی نہیں تھی۔ ہر استقبال کرنیوالا اپنے پیچھے دس سے پندرہ فراد گھر میں چھوڑ کر آیا تھا۔ گھروں میں پوپلے منہ لئے بوڑھی مائیں منتظر تھیں‘ بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ہوئیں‘ چلم پیتے باپ حجروں میں ایک ایک لمحہ کن رہے تھے‘ سہاگنیں دلوں میں دھڑکنیں بسائے زندگی کے ساتھیوں کی راہ تک رہی تھیں۔ پھول سے چہروں والے بچے اپنے اپنے ابو کیلئے بے قرار تھے‘ کھلونوں کی جھنکار ان کے دلوں میں گدگدی مچا رہی تھی۔ وہ نئے کپڑوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دن کے بعد عید تھی۔ ایک ایک لمحہ قیامت کی طرح لگ رہا تھا۔
دو بج کر تیس منٹ پر ابوظہبی سے چلا ہوا جہاز پشاور ائرپورٹ پر اترا‘ جہاز مشرق وسطیٰ کی ایک ائرلائن کا تھا‘ مسافر پاکستانی تھے‘ کروڑوں روپے کا کرایہ ائرلائن کو پاکستانیوں نے دیا تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر جہاز کو مہیا کی گئی۔ سہولتیں پاکستان کی تھیں لیکن افسوس! کروڑوں روپے کے کرائے کا لحاظ تھانہ جہاز کو دی گئی سہولتوں کا‘ مسافر جہاز سے اترے‘ پاسپورٹ دکھانے اور امیگریشن کے مرحلوں سے گزرے اور کشاں کشاں ائرپورٹ کے اس حصے کی طرف بڑھے جہاں انہوں نے اپنا اپنا سامان لینا تھا۔صندوق‘ اٹیچی کیس‘ بکس‘ بیگ‘ جن میں انکے پیاروں کیلئے تحفے تھے۔ ایک دن بعد عید تھی اور گھروں میں مائیں باپ سہاگنیں‘ بہنیں‘ بھائی کھلکھلاتے ہنستے مسکراتے پھول سے بچے انتظار کر رہے تھے۔
سامان کا انتظار کرتے پندرہ منٹ گزر گئے‘ پھر آدھ گھنٹہ‘ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر دو گھنٹے‘ پھر تین گھنٹے‘ تین گھنٹوں کے بعد مسافروں کو بتایا گیا کہ ابوظہبی سے آنیوالا جہاز چھوٹا تھا۔ مسافر تو اس میں لائے گئے لیکن سامان اس میں سما نہیں سکتا تھا‘ اس لئے ائرلائن دو سو مسافروں کا سامان ابوظہبی ہی چھوڑ آئی۔ ایک دن بعد عید ہے۔ عید کی پانچ چھٹیاں ہیں اب سامان عید کی چھٹیوں کے بعد‘ پیر کے دن یعنی بائیس نومبر کو لاہور پہنچے گا‘ وہاں سے سڑک کے ذریعے پشاور لایا جائیگا‘ اسکے بعد مسافر اپنا اپنا سامان بخوشی گھر لے جا سکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی اس ائرلائن کا ایک دفتر بھی پشاور کے ہوائی اڈے پر موجود ہے۔ یہ کالم نگار وہاں موجود تھا اور اس کالم نگار نے اپنے کانوں سے ائرلائن کے مقامی انچارج کو یہ بتاتے سنا کہ سامان جان بوجھ کر ابوظہبی چھوڑ گیا ہے کیوں کہ پشاور آنیوالا جہاز چھوٹا تھا۔ اور اب سامان عید کی تعطیلات کے بعد ملے گا۔
ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ میں نے دو ہزار ڈالر کرایہ ادا کیا ہے۔ مجھے ابوظہبی ائرپورٹ پر کیوں نہ بتا دیا گیا کہ میرا سامان نہیں لے جایا جا رہا۔ اس کا جواب بہت معصومیت سے دیا گیا کہ ’’ابوظہبی کیسے بتاتے‘ آپ تو ٹرانزٹ میں تھے‘‘!
پشاور ائرپورٹ پر کام کرنیوالے ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا کہ یہ سفاک کھیل ایک ماہ سے کھیلا جا رہا ہے۔ کروڑوں روپے کرائے کی مد میں لینے والی مشرقی وسطیٰ کی یہ ائرلائن سامان بعد میں لاتی ہے اور مسافر اذیت اور بے چارگی کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی اور ملک ہوتا جہاں شہریوں کی عزت کے محافظ جاگ رہے ہوتے تو اس قسم کی ائرلائن کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟اس ائرلائن کے جہازوں کو ملک میں آنے کی اجازت نہ دی جاتی ۔ ائرلائن پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جاتا۔ اس ملک کا سفیر مشرق وسطیٰ کی متعلقہ حکومت سے پرزور اور پرشور احتجاج کرتا۔ میڈیا پر کہرام مچ جاتا۔ ائرلائن کا بائی کاٹ کر دیا جاتا اور چوبیس گھنٹے کے اندر ائرلائن ناک سے لکیریں کھینچتی اور اسکا ملک بھی معافی مانگتا۔ لیکن یہ سب کچھ پاکستانیوں کی قسمت میں نہیں‘ ہم بیچارے غریب مسکین پاکستانی! ہمارا کوئی وارث ہے نہ محافظ!
اس ملک میں ایک ادارہ ہے جسے سول ایوی ایشن اتھارٹی کہتے ہیں۔ آپ اس کے ملازموں کو ملنے والی تنخواہیں اور سہولیات کی تفصیل سنیں تو یقین کیجئے‘ بے ہوش ہو جائیں اس سفید ہاتھی کا کام ملک کے اندر آنیوالے جہازوں کی نگرانی اور سارے امور کی جانچ پڑتال ہے-اس کت اوپر وزارت دفاع ہے۔ لیکن پشاور ائرپورٹ پر ہونے والے ظلم کی پرواہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ہے نہ وزارت دفاع کو۔ جب اپنا ملک اپنے ہی باشندوں کو جوتے کی نوک پر لکھتا ہے تو دوسرے ملکوں اور دوسرے ملکوں کی ائرلائنوں کو کیا پڑی ہے کہ ان لاوارثوں کی فکر کریں۔ وہ تو پہلے ہی پاکستانیوں کو کبھی ’’رفیق‘‘ کہتے ہیں اور کبھی ’’مسکین۔ وہ اپنے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں سے وہ سلوک روا رکھتے ہیں جو جانوروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ ملک تو پہلے ہی پاکستان سے تین تین چار چار سال کے بچے یوں ’’درآمد‘‘ کرتے ہیں۔ جیسے یہ بچے پلاسٹک کا سامان ہوں یا سامان کی بوری ہوں۔ پھر انہیں اونٹوں کی کوہانوں پر باندھتے ہیں۔ پھر ان اونٹوں کو دوڑاتے ہیں۔جب یہ رسیوں سے بندھے ہوئے بچے خوف کے مارے چیختے ہیں تو یہ ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگ خوشی سے دیوانہ وار نعرے لگاتے ہیں۔ پھر جب یہ بچے نیچے گر کر اونٹوں کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں تو یہ ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں ’’دوڑ میں کونسا اونٹ اول نمبر پر آیا؟‘‘
کوئی مانے یا نہ مانے اور کسی کو یہ بات کتنی ہی بری کیوں نہ لگے‘ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کی جتنی عزت پاکستانی کرتے ہیں‘ رب کعبہ کی قسم! کوئی اور نہیں کرتا! سادہ دل پاکستانی عربوں کو عربی میں جھگڑتا بھی دیکھیں تو ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور کلمہ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔
اور یہ تو سچا واقعہ ہے کہ عمرے کیلئے جانیوالی پاکستانی عورت کے جوتے ائرپورٹ پر چھرے سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دئیے گئے۔ وہ عورت سرزمین حجاز پر ننگے پاؤں چلتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ اس مقدس زمین پر ننگے پاؤں ہی چلنا چاہئے! بھائی یاسر عرفات کو دیکھیں‘ ساری زندگی کشمیر کیلئے ایک لفظ منہ سے نہ نکل سکا‘ موت تک دل بھارت کیلئے دھڑکتا رہا‘ لیکن پاکستانی فلسطین اور اہل فلسطین کیلئے جان اور مال کی قربانی دینے کو ہر وقت آمادہ ہیں!
لیکن جس ملک کے اہلکار حاجیوں کے حج کو بھی حرام مال کا ذریعہ بنا لیں اور سعودی شہزادے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کریں‘ اس ملک کے مسافروں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی ائرلائنیں کیوں نہ غیر انسانی سلوک روا رکھیں؟؟