ہم منحوس ہیں یا ہماری قسمت ایسی ہے؟
ایک دن میں نے عابد آفریدی سے کہا تھا کہ عابد میری چار سالہ دانشورانہ زندگی میں مجھے کھبی یہ موقع نصیب نہ ہوسکا کہ کسی نے مجھے کھانے پر بلایا ہو اور کھانے کا بل بھی اس نے دیا ہے۔ بلکہ میں نے تو ایسے ایسے فین بھگتے ہیں۔ جو مہینوں کہتے رہے کہ لالہ آپ کا دیدار کرنا چاہتے ہیں۔ کب مل رہے ہو؟۔ اپنے سارے کام چھوڑ کر ان کو بلا لیتا ہوں۔ ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور وہ سیلفیاں کھینچ کر خدا حافظ کہتے ہیں اور چل دیتے ہیں۔ اور بل مجھے بھرنا پڑ جاتا ہے۔
عابد کو یقین نہیں ایا۔ ایک دن عابد کا فون آیا کہ لالہ ایک فین نے کھانے پر بلایا ہے۔ جلدی سے تیار ہوجا۔ جواب دیا آپ چلے جاو ورنہ یہ بل بھی مجھے دینا پڑیگا۔ کہنے لگا لالہ یہ آپ کے فین نہیں ہیں میرے فین ہیں۔اور پشتون بھی ہیں۔ رات کو کھانے پر چلا گیا۔ میزبان نے دو کلو مٹن کڑاھی، ایک کلو چانپ اور کپوروں کی دو سیخوں کا آڈر دے دیا۔ عابد نے فاتحانہ نظروں سے مجھے دیکھا کہ دیکھ لالہ فین ایسے ہوتے ہیں۔ اور ساتھ میں پشتو میں ہدایات بھی دیتا رہا کہ لالہ ڈٹ کر کھانا ہے۔ ایک بوٹی بھی نہیں چھوڑنی ہے۔ کھانا کھانے کے فورا بعد اس کے فین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم بھی پریشان کہ اچانک اسے کیا ہوا؟۔ پوچھا کیا ہوا؟ عابد کے فین نے جواب دیا کہ ابھی ابھی فون پر اطلاع ملی ہے کہ بڑی امی یعنی دادی کا انتقال ہوگیا ہے۔ مجھے جانا ہوگا۔ خیر ان کو اہوں سسکیوں کیساتھ رکشے میں بیٹھا کر رخصت کردیا۔ اور میں نے عابد آفریدی کی طرف دیکھا کہ چل بیٹا بل چکاتے ہیں۔
دوسری اور تیسری بار بھی جب یہی ہوا تو عابد کہنے لگا کہ یار لالہ ایک بات بولوں۔ میں نے اجازت دی۔ کہنے لگا کہ میں نے تیس سالہ زندگی میں بڑے بڑے منحوس دیکھے ہیں۔ مگر آپ جیسا سرٹیفائیڈ منحوس پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
اب اسے کیا بتاتا کہ ایک بار میں سوات کے کسی گاوں میں مہمان بنا ہوا تھا۔ رات کو کھانا کھاکر بستر پر دراز ہوا۔ میزبان کیساتھ گپ شپ شروع کی تو گھڑی نے رات کا ایک بجایا۔ مہمان رخصت ہوکر حجرے کیساتھ متصل گھر چلا گیا۔ اور میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مہمان واپس آگیا اور پوچھا لالہ آٹھ سو روپے پیں۔؟ میں حیران کہ رات کے اس پہر میزبان کو مبلغ آٹھ سو روپوں کی ضرورت کیوں پڑ گئی ہے۔ جیب سے پیسے نکالتے ہوئے یہی پوچھا کہ اس وقت کیا ضرورت پیش آگئی۔ ہانپتے ہوئے جواب دیا کہ آج بیگم کیساتھ ہم بستری کرنے کا موڈ ہورہا تھا۔ جیب میں پانچ ہزار کا نوٹ ہے۔ اور میں اسے آٹھ سو سے زیادہ نہیں دیتا۔
گزشتہ شام کو عابد آفریدی کا فون آیا کہ لالہ آج دعوت ہے۔ لہذا کھانا نہیں کھانا صرف افطاری کرلینا۔ دل میں آیا کہ آج عابد کو بے نقط کی سناوں۔ مگر وہ سمجھ گیا کہ لالہ پلیز غصہ مت کرنا۔ ہوسکتا ہے اپ کے خدشات اس بار غلط ثابت ہوجائیں۔ میزبان کا پوچھا تو بتایا کہ فیصل جوش بھائی۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کہ عابد فیصل جوش کے خاندان والے میت کے چالیسویں پر بھی مہمانوں کو پٹھان کی دودھ پتی پلاتے ہیں۔ کہنے لگا نہیں یار بقلم خود جوش نے کہا ہے کہ بھابھی کے ہاتھ کا کھانا کھلاونگا۔
یقین بے یقینی کی کیفیت میں افطاری پر فقط ایک کیلا اور ایک کھیرا لے لیا۔ کہ میزبان کے گھر خالی پیٹ جانا اہلیان کراچی کا شیوہ بھی ہے اور دستور بھی۔
میزبان کے ہاں پہنچتے پہنچتے گاڑی نے اظہار محبت و تشکر کے جذبے کے تحت ایک واٹر ٹینکر کی چومی بھی لے لی۔ رات نو بج کر دس منٹ پر فیصل جوش کو عابد نے روایتی جوش و خروش سے فون کیا کہ ہماری سواری آپ کے دروازے کو رونق بخش چکی ہے۔ فیصل نے جوابا کہا کہ آپ لوگ سامنے پٹھان کے چائے ہوٹل پر تشریف رکھیں بس واش روم سے فارغ ہوکر آرہا ہوں۔ میں نے ترچھی نظر سے عابد کو دیکھا عابد نے منہ دوسری طرف مڑ لیا۔ آدھے گھنٹے بعد میزبان آیا بہت جوش و خروش سے ملا۔ اور تین کپ دودھ پتی کا اڈر دیا۔ میں نے عابد کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھا۔ اس اپنا منہ دوسری طرف مڑ لیا۔ پندرہ منٹ بعد چائے کا دوسرا دور چلا۔ جب تیسرا دور چلا تو میں نے عابد کو ترچھی نگاہ سے دیکھا تو اس نے منہ دوسری طرف مڑلیا۔ اور میں نے سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی اور چائے کیساتھ کش لگاتا رہا۔ کیونکہ کسی سے سنا تھا کہ ادیب چائے ایسے پیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ وہ سگریٹ ایسے ہی پیتے ہیں۔
تین بار فیصل جوش بھائی کو جتلایا آپ کی بیگم اور ہماری بھابھی ماں مجھے بڑے شوق سے پڑھتی ہے۔ اور مجھے اپنا بھائی بھی تسلیم کرتی ہے۔ مگر فیصل بات پھر ملا اور الحاد پر لیکر چلے جاتے۔
صہیب بھائی ائے، گھنٹہ بعد عثمان اور ولی اللہ معروف آئے۔ پھر گھنٹہ بعد عمران پٹنی ائے۔اور دو گھنٹے بعد بریگیڈئیر ملک جہانگیر بھی وارد ہوگئے۔ اور چائے کے سولہویں دور اور سگریٹ کے تیسری ڈبیہ کے دور میں ہم لوگ داخل ہوچکے تھے۔
خوب باتیں ہوئیں۔ مگر خالی پیٹ ہی ہوئیں۔ لہذا ان کے بارے میں خالی پیٹ لکھنا بھی گناہ عظیم تصور کرتا ہوں۔ قہقہوں کے بیچ جب رخصت ہونے لگے تو میں نے ترچھی نظر سے عابد کو دیکھا اور اس نے اپنا منہ قہقہے سمیت دوسری طرف مڑلیا۔
رات ڈھائی بجے عابد کو گھر ڈراپ کیا تو اس نے سحری کی دعوت دی۔ میں نے ترچھی نظر سے اسے دیکھا اور اس نے منہ دوسری طرف مڑ لیا۔
اور میں خدا حافظ کہے بنا گھر واپس ایا۔ بیگم خونخوار نظروں سے سحری کا پوچھنے لگی۔ تو جواب دیا کہ اب میرے دوست اتنے بھی بے غیرت نہیں ہیں کہ خالی پیٹ گھر بھیج دیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“