قصور اعجاز الحق کا بھی اتنا نہیں، انصاف کی بات یہ ہے کہ شروعات جناب وزیراعظم نے خود کیں۔ قائداعظم کے یوم ولادت کے سلسلے میں ادارہ ثقافتِ پاکستان اسلام آبادمیں تصویری نمائش کا انعقاد تھا۔ وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی تشریف فرما تھے۔ ملٹی میڈیا پر تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔ قائداعظم کی زندگی کے مختلف ادوار ایک ایک کر کے سامنے آ رہے تھے، اچانک سکرین پر جنرل ضیاالحق فوجی وردی میں ملبوس نمودار ہو گئے۔ نوائے وقت کی اطلاع کے مطابق وزیراعظم برہم ہو گئے، منتظمین پر برس پڑے، کابینہ ڈویژن کی سیکرٹری سے بازپُرس کی اور پھر اسی پر بس نہیں کیا، خطاب کے دوران برہمی ہی میں پوچھا کہ قائداعظم کی تصاویر کے ساتھ ضیاالحق کا کیا تعلق ہے؟
یوں تو یہ خبر پڑھتے ہوئے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات آئی ہو گی کہ آخر ضیاالحق کے زمانے میں بھی تو یوسف رضا گیلانی اقتدار ہی میں تھے، تاہم جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے جناب اعجازالحق اس خبر کو کس طرح پی سکتے تھے۔ یوں بھی وہ ان دنوں اقتدار سے باہر ہیں اور میڈیا کے حوالے سے پس منظر میں ہیں، اس لئے ایسا موقعہ اللہ دے اور بندہ لے۔ چنانچہ حسبِ توقع انہوں نے وزیراعظم کی برہمی کا نوٹس لیا اور باقاعدہ بیان جاری کیا۔ جناب اعجازالحق کا کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم وہ وقت بھول گئے جب ’مردِ مومن مردِ حق ضیاالحق ضیاالحق‘ کے نعرے لگاتے تھے اور یہ نعرے لگاتے وقت ضیاالحق کی تصویریں بھی اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ اس وقت جناب یوسف رضا گیلانی ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین تھے، انہوں نے ضیاالحق کے ریفرنڈم کےلئے بھرپور مہم بھی چلائی تھی۔
لیکن اصل بات جو جناب اعجازالحق نے کی وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ دلچسپ اگر نہیں تو چشم کشا ضرور ہے۔ اعجازالحق صاحب نے جناب وزیراعظم کو یاد دلایا ہے کہ وہ وفاقی وزیر بننے کےلئے اُن کے پاس یعنی اعجازالحق کے پاس آئے تھے اور اُنہی کی سفارش پر انہیں وفاقی وزیر بنایا گیا تھا۔
ہمارا جناب اعجازالحق اور جناب وزیراعظم کے باہمی تنازعے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس ضمن میں مکمل غیر جانبدار ہیں، بات وزیراعظم کی بھی غلط نہیں۔ آخر قائداعظم کی تصویروں کے درمیان باوردی ضیاالحق کی تصویر کا کیا جواز تھا؟ لیکن اس سارے جھگڑے میں عبرت کا پہلو جو نکلتا ہے وہ ایک اور ہی ہے۔ ذرا میرٹ کا نظام ملاحظہ کیجئے۔ مردِ مومن مردِ حق نے وزیر بنایا تو کس کی سفارش پر؟ اور اب بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ضیاالحق کے دور اقتدار میں اُسکے بیٹے نظر نہیں آتے تھے۔ صاحبزادے خود تو اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ اُس زمانے میں باقاعدہ ”وزیر گر“ تھے۔
لگے ہاتھوں قوم کو یہ بھی بتا دیتے کہ سفارش انہوں نے کس میرٹ پر کی تھی؟ جناب یوسف رضا گیلانی نے انہیں کس طرح قائل کیا تھا اور اپنے والد محترم سے سفارش کرتے وقت جناب اعجازالحق نے وہ کون سی دلیل دی تھی جس سے جنرل ضیاالحق سفارش ماننے پر مجبور ہو گئے تھے؟ اگر جناب اعجازالحق ظفراللہ جمالی کی طرح بہادر ہوں تو کہہ اُٹھیں کہ آخر جنرل ضیاالحق خود کون سے میرٹ پر آئے تھے؟ ظفراللہ جمالی صاحب کا قصہ یہ ہے کہ قاضی حسین احمد نے جمالی صاحب کو، جب وہ وزیراعظم تھے، نصیحت کی کہ میرٹ پر کام کیا کریں۔ اس پر صدق گو جمالی صاحب نے برملا کہا کہ میں خود کون سے میرٹ پر رکھا گیا ہوں!
آخر عالم اسلام ہی میں یہ کیوں ممکن ہے کہ وزیر بننے کے لئے حاکم وقت کے بیٹے کو پکڑا جائے؟ کیا برطانیہ، امریکہ، سنگاپور یا آسٹریلیا میں سیاست دان وزیر بننے کےلئے وزیراعظم یا صدر کی آل اولاد کے پاس جاتے ہیں؟ لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عالم اسلام میں ایسے بہت سے کام ہو رہے ہیں جن کا ترقی یافتہ یا مغربی ممالک سوچ بھی نہیں سکتے۔ دو دن پہلے اس کالم نگار نے ٹیلی ویژن پر خبر دیکھی کہ تبوک سے کوئٹہ آنے والے طیارے کے پہیے نہیں کُھل رہے اس لئے ایمرجنسی لینڈنگ کےلئے طیارے کا رُخ کراچی کی طرف کر دیا گیا ہے۔ کالم نگار خوش ہُوا کہ چلیں، اپنے زوال کے زمانے میں بھی پی آئی اے اتنا تو کر رہی ہے کہ تبوک میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو کراچی یا لاہور لانے کے بجائے کوئٹہ لا رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ لوگ کوئٹہ کے اور کوئٹہ کے قرب و جوار کے ہوں گے، یوں انہیں سہولت بہم پہنچائی جا رہی ہے، لیکن بعد میں منکشف ہُوا کہ یہ تو قصہ ہی اور تھا۔ جہاز پی آئی اے کا تھا نہ مسافر پاکستانی تھے ۔ اخبار کی خبر کے مطابق جہاز تبوک کے گورنر کی ملکیت تھا۔ [ ملکیت کا لفظ قابل غور ہے ] اس میں ”شکار کا سامان، خیمے اور ذاتی ملازمین“ سوار تھے اور ان سواروں کی تعداد 72 تھی۔ اگر جہاز کے عملے کے پانچ چھ افراد اس تعداد سے منہا کر لیں تو پھر بھی خدام کی تعداد پینسٹھ چھیاسٹھ سے کم نہیں! کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے صدر یا برطانیہ کے وزیراعظم کے ذاتی ملازموں کی تعداد ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہو گی؟ بی بی مارگریٹ تھیچر تو کھانا بھی اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی۔
ہماری ہر تقریر اور ہر تحریر میں اہل مغرب پر لعن طعن ہوتی ہے۔ مثالیں ہم خلفائے راشدینؓ کی دیتے ہیں۔ کبھی ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیزؓ نے ذاتی کام کرتے وقت سرکاری چراغ بُجھا دیا۔ کبھی ہم یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کو اپنی قمیض بنانے کےلئے اپنے بیٹے سے کپڑا لینا پڑا اور پھر برسرِ منبر اس کی وضاحت بھی کرنا پڑی، لیکن حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے صدر بیماری کے دوران دبئی میں قیام پذیر تھے تو اُن کا سرکاری سٹاف کئی قسطوں میں اسلام آباد سے دبئی گیا، حالانکہ ملک میں قائم مقام صدر موجود تھے اور صرف صدر ہی کا تذکرہ کیوں؟ جو لوگ حزبِ اختلاف میں ہیں اُن کا انداز بھی اس سے مختلف نہیں۔ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار ملا کر اگر حساب لگایا جائے کہ اُن کے لاہور آنے جانے پر سرکاری خزانے کا کتنا حصہ صرف ہُوا تو جو اعداد و شمار سامنے آئیں گے حیران و پریشان کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ گھٹ کوئی بھی نہیں کر رہا۔حسبِ توفیق سب لگے ہوئے ہیں اور چُھریاں کانٹے ہاتھوں میں پکڑ کر لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے تو کم از کم پوری دنیا کو نصیحتیں کرنا تو چھوڑ دیں۔!