آج لکھنا تو اخباری مضمون تھا مگر کئی روز سے طبیعت نہیں کر رہی کچھ بھی سنجیدہ لکھنے کو۔ غیرسنجیدہ لکھنا نہیں آتا۔ سوچا پاکستان کے لوگوں کے رویوں سے متعلق بیان کروں مگر ذاتی معاملے کو سارے پاکستان پر منطبق کرنا بھی مناسب نہیں ہوگا۔
بات ہے غالبا" 1980 کی۔ ایک بھتیجے کا بیاہ تھا۔ میں چونکہ لاہور میں تھا اس لیے کراچی سے آئی بارات کو ٹھہرانے کا انصرام بھی مجھے ہی کرنا پڑا تھا۔ ایک مولانا عبیداللہ انور نام کے تھے، انہیں لینے جانا تھا، جب میں نے کار والے کزن کے ساتھ جانا چاہا تو دولہا کے والد بڑے بھائی نے مجھے کہا کہ تم بے دین کیا جاوگے ایسی شخصیت کو لینے اور باقاعدہ بازو پکڑ کر جانے نہ دیا۔ بہت اچھا نہیں لگا تھا۔
خیر مولانا کو نکاح پڑھانا تھا مگر وہ بڑے بھائی کے مرشد وغیرہ بھی تھے تو کوئی ایسا ہی سین تھا کہ میں نے منجھلے بھائی سے اپنے ہی موٹر سائیکل کی چابی مانگی تو بڑے نے کہا، " دیکھ نہیں رہے حضرت تشریف رکھتے ہیں"۔۔ میں نے ذرا چمک کے کہہ دیا کہ میں آپ کے حضرت کو کیا کہہ رہا ہوں۔ اس پر منجھلے بھائی نے سب کے سامنے میرے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ میں بیوی بچے والا فوج سے فارغ ہوا کپتان تھا۔۔۔ میں ڈٹ گیا کہ اب اس جگہ نہیں رکوں گا۔ مجھے زبردستی روکتے ہوئے یدھ ہو گیا۔
لو جی مجھ سے سارے بہن بھائی ایسے کٹ گئے جیسے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ میں نے صلح کی جتنی کوششیں کیں سب رائگاں۔ میں ایران جانے سے پہلے کراچی بڑے بھائی سے ملنے گیا تو ان کے بیٹے نے مجھے اور میری بیوی کو دروازے سے ہی ہاتھ ملائے بغیر یہ کہہ کر چلتا کیا کہ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
میں ایران سے لوٹ آیا۔ چھوٹی بہن کے بیاہ میں نہیں بلایا گیا۔ چھوٹے بھتیجے کی کراچی سے آئی بارات لیہ جانے کے لیے کوٹ ادو سے گذر ی۔ میں سڑک سے چند قدموں کے فاصلے پر وہاں اپنے کلینک میں تھا مگر مجھے کوئی خبر نہیں تھی اگرچہ اس اثناء میں والدہ اور بہنیں بولنے لگے تھے اور میں آبائی گھر جاتا بھی تھا مگر مردوں کے سامنے عورتیں بیچارہ۔
تاوقتیکہ میری اپنی پہلی بیوی سے طلاق نہیں ہو گئی جس پر اس سارے چڑھم کا مدہ ڈالا ہوا تھا۔ بھائیوں میں سے ایک مجھ سے بنا بولے ایک حادثے کے سبب دنیا چھوڑ گیا اور دوسرے بڑے بھائی اپنی شرط کے مطابق تب ہی مجھ سے بولے جب میں نے طلاق دے دی۔ سب سے بڑے بھائی البتہ کبھی ناراض نہیں رہے کیونکہ وہ مجھ ایسے صلح جو شخص تھے۔
پھر ایسا ہوا کہ میں اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی سمیت رشتہ داروں کے تمام بیاہوں میں سے چار سال پہلے صرف اپنی بھانجی، چھوٹی بہن کی بیٹی کے بیاہ میں ہی شریک ہو سکا۔۔۔۔۔۔ ہم کیسے لوگ ہیں یار؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...