مرکنڈے کاتجو
(Katju)
1946ء میں لکھنؤ میں پیداہوا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے ایل ایل بی امتحان میں اول آیا۔ الٰہ آباد سے قانون کی پریکٹس کا آغاز لیبر لاء اورٹیکس لاء سے کیا۔ پھر امیٹھی یونیورسٹی سے قانون ہی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ مختلف اوقات میں الٰہ آباد ہائیکورٹ، مدراس ہائیکورٹ اور دہلی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا۔ پھرسپریم کورٹ میں تعینات ہوا۔ پھرریٹائرمنٹ کے بعد اسے پریس کونسل آف انڈیا کا چیئرمین مقررکیا گیا۔ پریس کونسل آف انڈیا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ آج اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ ادارہ اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے کسی اقدام کو صرف اس وقت چیلنج کیا جا سکتا ہے جب بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور یہ خلاف ورزی ثابت بھی کی جاسکے۔
جسٹس مرکنڈے کاتجو ہمیشہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں نمایاں رہا۔ ایک باراس نے کہا کہ نوے فیصد بھارتی احمق ہیں۔ اس پر لکھنؤ کے دو طلبہ نے اسے قانونی نوٹس بھیجا کہ وہ اپنے بیان پر معذرت کرے۔ کاتجو نے معذرت تو کی لیکن اپنے بیان کی توضیح بھی کی۔ اس نے کہا کہ نوے فیصد بھارتی ووٹ میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیتے، بلکہ برادری، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ ایک وجہ اس نے یہ بھی بتائی کہ بھارتیوں کی بھاری اکثریت نجومیوں اور ستاروں پر اعتقاد رکھتی ہے۔ ایک بار اس نے یہ بیان دیا کہ اسی فیصد ہندواور اسی فیصد مسلمان… فرقہ واریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس نے سلمان رشدی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی ناروا تعریف و توصیف کی جا رہی ہے۔
کاتجو نے اس وقت بھی بھارتی پریس میں غلغلہ برپا کیا جب سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے الہ آباد ہائیکورٹ کے ایک فیصلے پر اس نے رائے زنی کی۔ اس نے وہ فقرہ دہرایا جو شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے ہیملٹ میں ڈنمارک کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’ڈنمارک کی ریاست میںکوئی شے ضرور گلی سڑی ہے‘‘ کاتجو نے اس حوالے سے کہا کہ الٰہ آباد ہائیکورٹ میں بھی کوئی شے ضرور گلی سڑی ہے۔ الٰہ آباد ہائیکورٹ نے اس پر سخت احتجاج کیا لیکن سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس حذف کرنے سے انکارکردیا۔ حکومت نے بھی سپریم کورٹ کا ساتھ دیا۔
کاتجو کی ایک وجہ شہرت اس کی پاکستان کی بارے میں ہرزہ سرائیاں ہیں۔ یہ اس قدرغلط اور غیر فطری ہیں کہ ہندو قوم پرست انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے نظریاتی سرپرست پرمیس وارن جی نے بھی، جو کیرالہ سے ہے، کاتجو کی مکمل حمایت نہیںکی اور کہا کہ اس کے سارے نظریات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہرمیس وارن جی نے، جو کٹر ہندو ہے، یہ بھی کہا کہ جو کاتجو کہتا پھرتا ہے کہ بھارت باہر سے آئے ہوئوں کا ملک ہے اور اکبراعظم نے اور پھرنہرو نے اسے وحدت میں پرویا، ،یہ بھی غلط ہے۔ کاتجو پاکستان کو تسلیم کرتا ہے نہ ہی دو قومی نظریے کو۔
یہ ساری تمہید تھی۔ اس تمہیدکا مقصد مرکنڈے کاتجو کی اس تقریر کی طرف پاکستانیوں کی توجہ دلانا ہے جو اس نے کچھ عرصہ قبل کیرالہ کے دارالحکومت میں کی۔ اس نے حسب معمول بڑماری کہ بھارت ایک ہو جائے گا۔ اکھنڈ بھارت مضبوط ملک ہو کرابھرے گا۔ اس نے قائداعظم کے بارے میں یہ یاوہ گوئی کی کہ وہ بقول اس کے برطانوی ایجنٹ تھے۔ کاتجو کے یہ ریمارکس نئے نہیں۔ یہ ہرزہ سرائی وہ ایک عرصہ سے کررہا ہے۔ لیکن اس تقریر میں اس نے ایک دلیل نئی دی کہ پاکستان کے طول و عرض میں جو بم دھماکے ہو رہے ہیں، انہوں نے اس ملک کو جراسک پارک میں تبدیل کردیا ہے اور میڈہائوس بنا کر رکھ دیا ہے۔
جہاں تک اکھنڈ بھارت کے ’’ظہور‘‘ کا تعلق ہے تو اس تصور سے اب خود بھارتی کترا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوںکو پہلے ہی بوجھ سمجھتے ہیں۔ بیس کروڑ پاکستانی مسلمانوں اور لگ بھگ اتنے ہی بنگلہ دیشی مسلمانوں کو وہ کیسے برداشت کریں گے؟ یہی رائے ہمارے ایک سابق سفیر کی بھی ہے جو اب بھی بھارت جاتے رہتے ہیں۔
ایک اور صاحب… اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حددرجہ تجربہ کار…ابھی ابھی چھ ہفتے بھارت میں رہ کر آئے ہیں۔ ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ ترقی کی رفتار وہاں تیز ہے اور اب ’’متحدہ‘‘ بھارت کی بات کوئی بھی نہیں کرتا! وہ لوگ سمجھتے ہیںکہ پاکستان ان کی اقتصادی ترقی کیلئے ایک مسئلہ بن جائے گا۔
اکھنڈ بھارت کے خلاف یہ دلائل بھارتیوںکے ہیں۔ ہمارے دلائل مختلف ہیں۔ ظاہر ہے پاکستان ترنوالہ نہیںکہ بھارت اسے منہ میں ڈال لے اور چلتا بنے۔ انڈیا کے جواب میں ایٹمی دھماکے پاکستان نے محض دکھاوے اور شوشا کے لیے نہیں کیے تھے ۔ نہ ہی ہماری ایٹمی قابلیت پودینے کے کھیت سرسبز و شاداب کرنے کیلئے ہے۔ پاکستان خوب سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا۔ مذہبی آزادی تو اکھنڈ بھارت میں بھی حاصل ہوسکتی تھی۔ اصل مسئلہ اقتصادی آزادی کا تھا۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے۔ہندو ذہنیت یہ ہے کہ خلائی تحقیق کا سربراہ خلا میں سیارہ بھیجنے سے پہلے مندر میں حاضری دیتا ہے۔ یہ ذہنیت، انتخابات میں مسلمان امیدواروں کو کیسے ووٹ دیتی؟ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار وہ چمگاڈر ہی کرسکتی ہے جسے دن کی روشنی دکھائی نہیں دیتی!
لیکن ہمارے لئے لمحہ فکریہ کاتجو کے بیان کا یہ حصہ ہونا چاہیے جس میں اس نے پاکستان کے طول و عرض میں دھماکوں کا ذکر کیا ہے۔ اور قائداعظم کے خلاف ایک بار پھر ایسی ہرزہ سرائی کی ہے جس کا تاریخی صداقتوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں! نکتہ یہاں یہ ہے کہ خود پاکستان میں ایک اچھی خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو قائداعظم کے بارے میں وہی خیالات رکھتے ہیں جو بھارتیوں میں، خاص کر کاتجو جیسے متعصب ہندوئوں میں پائے جاتے ہیں۔ کون نہیںجانتا کہ دہشت گردوں کے نظریاتی حامی کہاں ہیں؟ سب کو معلوم ہے کہ یہ لوگ کن اداروں میں تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی اکثریت کا ذریعہ معاش کیا ہے اور یہ کس طرح ہمارے جذباتی عوام کومشتعل کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ آپ ان لوگوں کی زبان سے قائداعظم کا نام کبھی نہیں سنیں گے۔ مجبوراً کہیں گے بھی تو ’’جناح صاحب‘‘ کہہ دیں گے۔ یہ ایک دردناک امرمحال (Paradox) ہے کہ ایک طرف لبادہ پاکستانی ہے، دوسری طرف نظریات وہ ہیں جو بھارت کے ہندو انتہاء پسندوں کے ہیں۔ اب یہ نکتہ ذہن میں رکھ کر حافظ سعید صاحب کے کل کے بیان پر غورکیجیے۔ حافظ صاحب نے کہا اور برملا کہا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کوجذباتی بنا کر جہاد کے نام پرسرگرم کردیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کو اندرونی طور پر غیرمستحکم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ حافظ صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ آپریشن بھارتی حواریوںکے خلاف ہو رہا ہے۔ اور شمالی وزیرستان میں تاجک ، ازبک اور دوسرے جنگ جو بھارت کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ حافظ صاحب نے مزیدکہا کہ ہر کافر کے خلاف لڑنا درست نہیں۔ جو کافر مسلمانوںکے علاقے پر قبضہ کر رہے ہیں ان کے خلاف دفاع میں لڑنا جہاد ہے جبکہ پرامن لوگوں کیلئے دین کی دعوت دینا اوراصلاح کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حافظ صاحب کے کئی نظریات اور طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی طبقے میں وہ واحد نمایاں شخصیت ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے مسلح افواج کی ہمیشہ حمایت کی ہے اورڈٹ کر کی ہے اور اس ضمن میں وہ کسی قسم کے معذرت خواہانہ رویے کے قائل نہیں۔ افسوس! صدافسوس! ایک طبقہ دہشت گردی کے حوالے سے اب تک گومگو کے عالم میں ہے۔ مجموعی طورپر دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے اور مسلح افواج کی کھل کر حمایت نہیں کر رہا۔
کیا ہمیں احساس ہے کہ کچھ مرکنڈے کاتجو ہماری صفوں میں بھی ہیں؟ہم کب بیدار ہوں گے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔