=== ہم کہ دشمن نہیں رہے کسی کے ===
یہ جو بڑے چھوٹے کی گفتگو ہے کوئی بتا سکتا ہے کب اور کیسے چلی اور کب اس بڑے چھوٹے نے اچھے برے کو ری پلیس کیا، یقیناً کوئی نہیں بتا سکے گا کیونکہ اس بڑے چھوٹے کا نہ سر ہے نہ پاؤں یہ ہرگز تنقیدی جملہ نہیں ہے بلکہ ایسے جملے عام طور پر پیسے لے کر کہے جاتے ہیں۔
ایک بادشاہ نے کہا بینگن بہت بری سبزی ہے ۔۔۔ مراسی نے کہا جی حضور اس سے بری سبزی تو کوئی ہے ہی نہیں پتہ نہیں خدا نے اسے کیوں بنایا ہے
بادشاہ نے پھر کہا بینگن بہت اچھی سبزی ہے ۔۔۔ مراسی نے جواب دیا جی حضور اس سے اچھی سبزی تو دنیا میں ہے ہی نہیں۔
بادشاہ نے کہا کل بینگن برے تھے آج اچھے ہوگئے تو مراسی بولا حضور آپ ہمارے بادشاہ ہیں بینگن نہیں ہے۔
مراسی کو بادشاہ پیسے دیتا تھا کیونکہ بادشاہ کے مزاج کے مطابق گفتگو پیسے لے کر ہی کی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کا دور ہے ، خوبصورت لڑکیاں براستہ سمارٹ فون بیڈ رومز تک دستیاب ہیں، غلمان بصورتِ نوجوانانِ ادب موجود ہیں ، نفسا نفسی کا دور ہے ، فنِ شاعری سب نے سیکھ لیا لیکن شاعرانہ ادب و لحاظ نہ سیکھ سکے۔ جگالی کا لفظ گائے پر استعمال کیا جائےتو بھلا لگتا ہے جب یہ لفظ ایک تخلیق کار کی زندگی میں آتا ہے تو پریشانی کا باعث بن جاتا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب نے خود کو مسندِ شعر پر فائز کر لیا ہے اور اب روزانہ کی بنیاد پر خود کو اس مسند کے قابل کرتے رہتے ہیں۔
ظفر اقبال صاحب پر بحث ہو رہی ہے ، اصل میں ظفر اقبال صاحب پر بحث نہیں ہو رہی بلکہ اپنی اگلی مسند قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بہت سے بزرگ تو مان چکے رہ گئے تھے ظفر اقبال جو نہ مانے تو ان سے جنگ شروع کر دی گئی ، اچھا ان بہت سے بزرگوں میں موجود بزرگوں کا ذکر ہےرفتگان تو سمجھاتے رہے کہ توارد ، استفادہ اور چربہ میں فرق ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ جنگ ظفر اقبال صاحب اور صابر ظفر صاحب کے نام پر جان بوجھ کر اس لیے شروع کی گئی ہے تاکہ اداکارہ میرا کی طرح زیرِ بحث رہا جا سکے۔
قائدِ اعظم صاحب اور احمد ندیم قاسمی صاحب نے جہاں ہم پر بہت سے احسانات کیے وہاں کئی قائدِ اعظم اور احمد ندیم قاسمی بننے کے خواب بھی دیے، ادبی دنیا میں پچیس تیس سال ہو چکے ہیں اب تو شاعر کی بات سن کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگلی بات کیا ہوگی تو کچھ اگلی باتوں کے اندازے یہ ہیں کہ ایک تنظیم بنائی جائے گی پھر ایک رسالہ شروع کیا جائے گا اور پھر ایک دن صابر ظفر صاحب کے خلاف باتیں کی جائیں گی ، یقین کریں جو لوگ آج ظفر اقبال صاحب کے خلاف باتیں کرنے اور پھیلانے میں مصروف ہیں کل تک میں نے ان کو ظفر اقبال صاحب کی تعریفیں کرتے دیکھا ہے۔
میں نئی نسل کی شاعری پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں جس کا نقصان بھی ہوتا ہے کہ بعض جلد باز نوجوان رابطہ توڑ لیتے ہیں کہ فلاں پر لکھا فلاں پر لکھا مجھ پر نہیں لکھا یقیناً ایسا معاملہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ ظفر اقبال صاحب کے ساتھ پیش آتا ہوگا اس لیے ظفر صاحب بے نیازانہ رہتے ہیں کوئی ان کی تعریف کرے یا انہیں برا کہے اس کی کوئی پرواہ نہیں انہیں البتہ اس بحث سے کچھ لوگوں کا وقت اچھا گزر رہا ہے اور کچھ لوگ زیرِ گفتگو ہوگئے۔
لوگ آمادہ ہیں سخاوت پر
اب یہاں مفلسی ضروری ہے
شعر کہنے ہیں زندہ رہنا ہے
دوستو دشمنی ضروری ہے
سلسلہ وار ہے سفر میرا
سو گلی سے گلی ضروری ہے
اب کوئی بھی کسی کے بس میں نہیں
اس قدر بے بسی ضروری ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“