ہم جنسیت
ہم جنسیت یعنی مرد کی مرد اور عورت کی عورت سے جنسی محبت کا کھوج قدیم ترین اقوام میں بھی ملتا ہے البتہ اس کے آغاز کے بارے میں اختلاف ہے بعض مورخین کی رائے میں اس کی ابتدا مصِر قدیم سے ہوئی جہاں دیوی ماتا آئسس کے معبد میں ہجڑے پجاری رہتے تھے جن سے زائرین تمنع کرتے تھے .
قدیم مصر کی ایک تحریر سے جو ساڑھے چار ہزار برس کی پرانی ہے معلوم ہوتا ہے لہ اُس زمانے میں اَمرد پرستی کا عام رواج تھا .
مصر سے یہ عِلت جزیرہ کریٹ اور فنیقیہ (کنعان فلسطین آج کل لبنان اِس میں شامل تھا ) میں پھیل گئی سدوم لفظ سدومیت اِسی سے یادگار ہے اور گمورہ ( عامرہ بہ معنی آباد ) میں اَمردوں کے قحبہ خانے موجود تھے جن کی سرپرستی کو اُمرا لازمہ نجاحت سمجھتے تھے .
عہد نامہ قدیم کے باب پیدائش میں لکھا ہے کہ جب دو فرشتے سدوم کو آگ اور گندھک برسا کر تباہ کرنے آئے تو جناب لوط کے گھر ٹھہرے جہاں سدومیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور شور مچانے لگے کہ اے لوط انھیں باہر بھیجو فرشتوں نے انہیں اندھا کر دیا اور اس طرح اپنے آپ کو بچایا .
فنیقی جہاز ران تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے بحری سفروں پر جاتے تھے اور غیر اقوام کے بچوں کو خرید کر یا بھگا کر لے آتے تھے اُنہیں آختہ کر کے اُمرا کی حرم سراہوں یا مندروں میں رکھا جاتا تھا جہاں یاتری اپنی سدومی ہوس کی تسکین کرتے تھے .
فنیقیوں نے شمالی افریقہ کے ساحل پر کارتھیج کا شہر بسایا تو وہاں بھی اَمرد پرستی رواج پاگئی سدوم کی طرح یونان کا شہر کورنتھ سدومیت کا بہت بڑا مرکز تھا.
بابل میں عشتار کے معبد میں ہیجڑے پجاری رہتے تھے جنہیں کدیش مقدس کہا جاتا تھا ان کا پروہت اکو درم کہلاتا تھا
چین قدیم اور جاپان میں اَمردوں کے قحبہ خانے وجود تھے فنیقیوں کی طرح جاپانیوں کا بھی خیال تھا کہ سدومی دلیر اور شجاع ہوتے ہیں .
اہلِ یونان نے اَمرد پرستی کو قومی اور تعلیمی ادارہ بنالیا اور ہم جنسیت اُن کے معاشرے, مذہب, فلسفہ, اخلاق ,قانون اور شعر و ادب میں نفوذ کرگئی .
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔