ہم انسان کائنات کی خوبصورتی کا سبب بن سکتے ہیں،مگر۔۔۔۔۔۔؟
انسان اگرواقعی ہی آزادی چاہتا ہے، تو اسے موجودہ معاشرے سے الگ تھلگ ہو جانا چاہیئے ۔اس معاشرے میں وہ رہے گا ،تو اسی طرح مردہ لاش بنکر دنیا پر بوجھ بنا رہے گا ۔اگر انسان واقعی آزادی چاہتا ہے، تو اسے زمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔اس دنیا کو زیادہ سے زیادہ طاقتور افراد کی ضرورت ہے ۔انسان جس قدر زیادہ سے زیادہ ایک خوبصورت اور طاقتور فرد ہوگا ،وہ اس قدر کائنات کی خوبصورت کا سبب بنے گا ۔ہر انسان ایک کائنات کی طرح ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرے کا حصہ بننے کی بجائے طاقتور فرد بنے۔ایسا طاقتور فرد جیسے علی ہجویری تھے ۔اس دنیا کا انسان طاقتور فرد اس لئے نہیں بن پارہا، کیونکہ وہ لاکھوں سالوں سے شرائط اور مقاصد کے نیچے دبا ہوا ہے ۔وہ ہر لمحہ کسی مقصد یا شرط کے کالے قوانین اور اصولوں کے تحت زندگی گزارتا ہے ۔آزادی زندگی کی نایاب ترین خوبصورتی ہے ،ہمارے معاشرے میں صرف چند انسان ہی ہیں ،جوشاید آزاد ہیں اور واقعی زندگی کو انجوائے کررہے ہیں۔اس ملک کے انسان ایسی مخلوق ہیں، جو صرف وجود رکھتے ہیں ،لیکن زندہ لاش کی طرح ہیں ۔جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ زندگی کس طرح انجوائے کی جاتی ہے ۔آج کے جدید دور کے انسان مقاصد اور معانی کے پیچھے پاگل ہو چکے ہیں۔انہیں معلوم ہی نہیں کہ اسی وجہ سے وہ ابنارمل ہو گئے ہیں ۔معاشرے میں جس انسان پر بھی نظر دوڑائی جائے، وہ ایک خاص نظریئے کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ہم سمجھتے ہیں نظریات میں مقاصد پوشیدہ ہیں،حقیقت میں یہی نظریات ہی تو ہیں ،جن کی وجہ سے ہمیں ایک لمحے کے لئے بھی سکون میسر نہیں،معاشرے نے انسان کی انفرادیت اور شعور و آگہی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زہرآلود کردیا ہے ۔یہاں انسان صرف اور صرف مقاصد اور خواہشات کی تکمیل کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ دنیا کے لاکھوں معاشروں میں اسکول،کالجز،یونیورسٹیاں اور بہترین تعلیمی نظام ہیں،پھر بھی انسان شعور،آگہی اور اصلی زندگی سے محروم کیوں ہے؟ داتا صاحب یا بابا بلھے شاہ کسی یونیورسٹی میں تو نہیں پڑھے تھے۔کسی خاص تعلیمی نظام کی وجہ سے تو کائناتی انسان نہیں بنے تھے۔ دنیا کی تمام یونیورسٹیاں ،کالجز اور تمام تعلیمی نظام اور تمام تعلیمی نصابوں میں جیوگرافی ،سوشیالوجی،تاریخ اور سائنس وغیرہ کی تعلیم دی جارہی ہے ۔۔۔۔۔لیکن کیا المیہ ہے کہ دنیا کی کسی یونیورسٹی میں محبت اور محبت کے آرٹ کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا ۔کبھی سنا ہے کہ دنیا میں ایک ایسی یونیورسٹی بھی ہے جہاں فیکلٹی آف لو ہے؟خوبصورت،دلکش اور زندگی سے بھرپور انسان کیسا ہوتا ہے؟ یہ سب کچھ طالبعلموں کونہیں بتایا جاتا ۔تعلیمی نظام آگہی اور شعور فراہم نہیں کررہے ۔یہ یونیورسٹیاں یونیورسل نہیں ہیں،لیکن ان کا نام یونیورسٹی ہے ۔سوال یہ ابھرتا ہے کہ یہ یونیورسٹیاں کیا کررہی ہیں؟یونیورسٹیاں صرف انسان کی انا کو طاقتور بنا رہی ہیں،انسان کو اس خوبصورت کائنات کے خلاف کررہی ہیں ۔۔یونیورسٹیوں کو سیاست اور نظریات سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں میں سب سے پہلی تحقیق و تفتیش یہ ہونی چاہیئے کہ انسان انسان کیوں نہیں بن پایا ؟تعلیم کا مقصد انسان کو غلامی سے آزادی دلانا ہے ۔لیکن یہاں تعلیم کا مقصد انسان کو ایک دوسرے کا غلام بنانا ہے ۔یہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے بہتر اور معیاری کس طرح بننا ہے ۔اسی وجہ سے انسان کے اندر اور باہر کی دنیا میں خلفشار اور کشمکش ہے ۔بنیادی طورپر تعلیمی نظام کی وجہ سے ہی انسانوں کی دنیا میں غصہ ،تعصب اور نفرت ہے ۔یہ تعلیمی نظام مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کا استحصال کرنے کے منصوبے سکھاتے ہیں ۔یہ انسان کو بتاتے ہیں کہ انہیں کس طرح دوسروں کو شکست دینی ہے اور فتح یاب ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان بصیرت اور آگہی سے محروم ہے اور انسان نما حیوان ہے ۔بلکہ اب تو وہ حیوانوں سے بھی بدترین ہے ۔کم از کم حیوانوں میں فطری حیوانیت تو ہے ،لیکن انسان تو زندگی میں کبھی ایک لمحے کے لئے بھی فطری انداز اختیار نہیں کر پاتا ۔انسانیت کو اصلی اور حقیقی روپ دینا ہے تواسے سیاست اور نظریات کے زہر سے پاک کرنا ہوگا ۔یونیوسٹیوں کو کیا کرنا چاہیئے؟ یونیورسٹیوں کو جدید دریافتوں کے بارے میں انسان کو آگہی دینی چاہیئے ۔دنیا کے جدید لٹریچر ،جدید شاعری ،جدید موسیقی اور جدید انداز محبت کے بارے میں بتانا چاہیئے ۔لیکن ان یونیوسٹیوں میں ہزاروں سالوں سے قدیمی نظرایات ،خیالات اور تاریخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔ ہر لمحے نئے ناول آرہے ہیں ،نیا میوزک جنم لےرہا ہے ،نئے آرٹ سامنے آرہے ہیں ،لیکن یہاں کے طالبعلموں کو اس بارے میں آگہی نہیں دی جاتی۔مسئلہ یہ ہے کہ تمام نظام تعلیم ،کلچر اور تہذیب انسان کے زہن کی تربیت شرائط اور مقاصد کے تحت کرتے ہیں ۔انسان کے اندر کی دنیا کے لئے ان کے پاس کوئی گائیڈ لائنز نہیں ہیں ۔انسان جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس پر پہلے ہی لمحے سے شرائط ٹھوس دی جاتی ہیں، اندر کی منفرد ودلکش دنیا کا دروازہ اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جاتا ہے ۔تعلیم کا مقصد انسان کو معصوم بنانا ہے ،لیکن یہ انسان کو عیار، چالاک اور ہوشیار بنا رہا ہے۔اسےکہا جاتا ہے کہ جتنا وہ عیار اور چالاک ہوگا ،زندگی کی جدوجہد میں، وہ اس قدر کامیاب ہوگا ۔ انسان کے پاس بے تحاشا دولت و طاقت ہے ،لیکن وہ معصوم نہیں،وہ ہندو ہے،عیسائی ہے ،یہودی ہے ،کمیونسٹ ہے ۔لیکن انسان نہیں ہے۔ تمام نظریات کی بنیاد مقاصد اور خواہشات ہیں ۔ہر نظریہ یہی کہتا ہے کہ یہ کرو گے ،تو دنیا ایسی ہو جائے گی ۔کچھ نظریات مرنے کے بعد والی زندگی کے بارے میں انسان کا استحصال کررہے ہیں ۔انسان ان نظریات کی وجہ سے بھی پاگل پن کا شکار ہے۔کسی بھی انسان کو سکون اور آرام میسر نہیں ۔ہر انسان کچھ نہ کچھ بننا یا کچھ نہ کچھ پانا چاہتا ہے۔وہ اپنے لئے کچھ نہیں کررہا ،یہ معاشرہ ہے، جو انسان کے دماغ پر قبضہ کئے بیٹھا ہے اور ہر وقت وہ انسان کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔کاش کبھی انسان اپنے بارے میں خود سوچتا ۔اس کے دماغ میں والدین ،معاشرہ ،مولوی ،سیاستدان اورجرنیل وغیرہ بیٹھے ہیں، یہی اس کی شناخت کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کون ہے؟اسے خود معلوم نہیں کہ وہ کون ہے اور کیا ہے؟انسانی دماغ ایک سماجی بیٹھک بن چکا ہے ۔یہ اب خدا کا تحفہ نہیں رہا ۔۔۔یہ سماجی استحصال کی یونیورسٹی ہے ۔معاشرہ ہی انسان کے زہن کی تخلیق کرتا ہے،اور یہی سماج پھر انسان کے دماغ و زہن کو کنٹرول کرتا ہے ۔اسی وجہ سے یہاں کوئی داتا صاحب جیسا نہیں ،بابا بلھے شاہ جیسا نہیں ۔ہر انسان یہاں قیدی ہے اور زنجیریں پہنے ہوئے ہے۔ انسان جس دن خود اپنے دماغ و زہن کا مالک بن جائے گا ،اسی دن وہ قید سے آزاد ہو جائے گا ۔ دل انسان کو ہر قسم کے خیالی تصورات،تخلیات،فریب نظر، فریب خیال اور میٹھے خواب و خیال کے حصار میں لئے رکھتا ہے۔یہ انسان کو کبھی سچ نہیں دیکھاتا ۔حقیقت سے دور رکھتا ہے۔انسان دل کی وجہ سے ہمیشہ خواب و خیال میں رہتا ہے۔اورسچ ہمیشہ دل و دماغ کے پیچھے پوشیدہ رہتا ہے ۔انسان کا شعور ہی ہے جو اسے سچ کی آگہی فراہم کرتا ہے، اور یہ شعور نہ دل ہے، اور نہ ہی دماغ ۔۔۔۔شعور دل و دماغ دونوں سے مختلف اور منفرد ہے ۔اس کی شناخت دل و دماغ سے ممکن نہیں ۔شعور وہ ہے جو دل و دماغ کے درمیان ہم آہنگی کا کام کرتاہے ۔وہ انسان جو شعور کی دولت سے مالا مال ہیں۔ وہی تو ہیں جو زندگی کو انجوائے کررہے ہیں ۔دماغ بہت خطرناک ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کی آنکھیں تو ہوتی ہیں، پاؤں نہیں ہوتے ۔یہ معذور ہوتا ہے۔یہ چل پھر نہیں سکتا ۔اسی طرح دل کی آنکھیں نہیں ہوتی ۔،لیکن وہ تیزی سے دوڑ سکتا ہے ۔دل بغیر کچھ جانے دوڑتا پھرتا ہے۔اس کی بھاگ دوڑ شاندار اور خوبصورت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں بھاگاجارہا ہے ۔اکثر ہم بزرگوں سے سنتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے،بنیادی طور پر کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دل اندھا ہے۔یہ دل ہی تو ہے جس کی آنکھیں نہیں ہوتی۔محبت دل و دماغ اور شعور سے بھرپور ایک دلکش کیفیت کا نام ہے ۔جو انسان صرف دماغ سے زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں، وہ زندہ لاش کی مانند ہیں ۔جو دل کے سہارے زندگی کو انجوائے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی خوفناک دکھ اور کرب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ حقیقت تیسری قوت ہے اور اس تیسری قوت کا نام ہے ۔۔۔۔۔شعور۔۔۔۔جن انسانوں کے دل و دماغ کا لو آفئیر شعور و آگہی سے ہوجاتا ہے، وہی حقیقی اور اصلی انسان ہیں ۔وہی تو ہیں جو زندگی کی دلکشی کا مزہ لیتے ہیں ،وہی تو ہیں، جو آزاد ہیں اور جنہیں ہم طاقتور افراد کہتے ہیں ۔ایسے انسان جن کے دل و دماغ کو شعور ہم آہنگ رکھتا ہے،وہی آزاد پرندے کی طرح آسمان کی بلندی پرفقیرانہ اور درویشانہ انداز میں پرواز کرتے ہیں،بابا بلھے شاہ ،علی ہجویری یمعروف داتا گنج بخش،برٹرینڈ رسل ،امیر خسرو،مرزاغالب وغیرہ یہ وہ اعلی و ارفع انسان تھے ،جو طاقتور فرد بھی تھے ،اس لئے انہوں نے زندگی بھی بھرپور انداز میں گزاری اور انسانیت کو شعور و آگہی سے بھی نوازا۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔