’’میں صرف نیلے یا سرمئی رنگ کے سوٹ پہنتا ہوں۔ وقت ان معاملات پر ضائع نہیں کرتا کہ کھانا کیا ہے اور پہننا کیا ہے۔ بہت سے دوسرے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ فیصلہ کرنے کی قوت کو بچا کر رکھنا پڑتا ہے۔ معمولات کو اس طرح فِکس کرنا ہوتا ہے کہ توجہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف نہ بٹ جائے‘‘۔
یہ گفتگو بارک اوباما کی ہے۔ وہ سربراہِ ریاست ہے اور سربراہِ حکومت بھی۔ وہ امریکی مسلح افواج کا کمانڈر اِن چیف بھی ہے۔ جب آپ بہت سے معاملات کے فیصلے کرتے ہیں‘ خواہ وہ معاملات چھوٹے ہیں یا بڑے‘ آپ کی قوتِ فیصلہ کم ہو جاتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے اس کیفیت کو ’’فیصلوں کی تکان‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک جج نے اگر بازار جا کر گھر کا سودا سلف خریدا ہے اور اسی شام عدالت میں گیا ہے تو وہ اس تکان کا شکار ہو چکا ہے۔ اُس دن عدالت میں اُس کے دیے ہوئے فیصلے نسبتاً سخت اور کم منصفانہ ہوں گے۔ اسی لیے جن شخصیتوں نے اہم معاملات پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور دماغ کو قومی اور بین الاقوامی معاملات میں کھپانا ہوتا ہے‘ ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ عشائیوں اور ظہرانوں کے منیو ڈِسکس کرتے پھریں یا کپڑوں کے رنگوں‘ سوٹوں کے ڈیزائنوں‘ نکٹائیوں کی قسموں اور جوتوں کے نمونوں پر دماغ سوزی کرتے رہیں۔ ہم میں سے اکثر نے یہ واقع سنا ہوا ہے کہ پاکستان کے ایک مرحوم وزیراعظم نے ہنری کسنجر کی دعوت کرنا تھی۔ انہوں نے کئی اجلاس بلائے جن میں گھنٹوں اس بات پر مباحثے ہوتے رہے کہ کیا کیا پکوان تیار کرائے جائیں۔ بالآخر ’’فیصلہ‘‘ یہ ہوا کہ تیتر (یا اس قبیل کے کسی خاص پرندے کا) بھُنا ہوا گوشت پیش کیا جائے۔ یہ دعوت غالباً واشنگٹن یا نیویارک میں ہونا تھی۔ ایک خصوصی جہاز پاکستان بھیجا گیا جو سینکڑوں پرندے لایا۔ خصوصی باورچیوں کا انتظام کیا گیا لیکن ہوا یہ کہ ہنری کسنجر طعام گاہ میں داخل ہوا تو قریب ترین ڈِش سے کھانا پلیٹ میں ڈالا اور کھانے لگا۔ اُس نے اس بات پر وقت ضائع کیا نہ دماغ کہ میزوں پر کون کون سے پکوان ہیں اور اسے کیا کھانا چاہیے۔ کھانا کھانے کے دوران بھی وہ وزیراعظم سے انتہائی سنجیدہ امور پر گفتگو کرتا رہا اور پھر وہیں سے واپس چلا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ لاکھوں روپوں (اُس وقت کے لاکھوں روپے) کے خرچ سے جو خصوصی پکوان اُس کی خاطر تیار کیا گیا تھا‘ اُسے اُس نے دیکھا نہ چکھا۔ اس ساری روایت کا کوئی حوالہ یا ثبوت نہیں‘ لیکن قیاس یہ ہے کہ اس قبیل کا کوئی واقعہ پیش ضرور آیا ہوگا کہ دھواں وہیں مرغولے بناتا ہے جہاں آگ ہو‘ تاریخی حوالے‘ بہرطور‘ موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بڑے سیاسی رہنما فروعات پر وقت یا توانائی نہیں ضائع کرتے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اٹھارہ سال تک جوتوں کا ایک ہی جوڑا استعمال کیا۔ اس عرصہ میں ایک بار اس کے سول بدلوائے۔ 1997ء سے 2007ء تک‘ دس سالہ وزارتِ عظمیٰ کے دوران پارلیمنٹ میں ہر روز یہی جوڑا پہن کر آتے تھے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم بنے تو صدر عبدالکلام سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیتے وقت اُسی کرتے اور پاجامے میں ملبوس تھے جو ایک عرصہ سے پہن رہے تھے۔ ان کی بیوی گرچون کور سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ کیا اس موقع کے لیے کوئی خصوصی ملبوس تیار کرایا گیا ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ نہیں‘ وہ معمول کے کپڑے پہنے ہیں جو کل پرسوں پہنے ہوئے تھے! آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گلرڈ کے غیر فیشنی لباس پر پریس نے خوب خوب اعتراض کیے۔ کسی نے کہا کہ یوں لگتا ہے کسی سستے موٹل کی بیڈشیٹ اوڑھ کر آ گئی ہیں‘ کسی نے کہا عام سی دکان میں سیل لگی ہوئی تھی وہاں سے اٹھا لائی ہیں۔ کچھ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم کو ’’لباس الائونس‘‘ دیا جائے کیونکہ جو تنخواہ انہیں مل رہی ہے اس میں تو مناسب پوشاک وہ خرید ہی نہیں سکتیں۔ مناسبت کے لحاظ سے ملبوسات تجویز کرنے والی فرم کا کہنا تھا کہ شایانِ شان پوشاک خریدنے کے لیے وزیراعظم کو بارہ سو سے پندرہ سو ڈالر تک خرچ کرنے ہوں گے۔ اس ساری تنقید اور تضحیک کے جواب میں وزیراعظم کے ترجمان نے کہا تو صرف یہ کہا کہ وزیراعظم نے فیشن کے حوالے سے کسی سے مشورہ طلب کیا ہے نہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔ ہاں‘ کسی کو اگر ان کا لباس پسند نہیں آیا تو وہ بے شک اپنی رائے دیتا پھرے۔
یہ وہ رہنما ہیں جن کے ذہنوں میں کلبلاتے سوال ان کی ذات کے بارے میں ہیں نہ ان کے خاندان کے متعلق۔ وہ تو ملکی معیشت کے بارے میں سوچتے ہیں یا بین الاقوامی معاملات کے بارے میں۔ اس کے برعکس ہمارے قد آور سیاسی رہنمائوں کے فکر کی اڑان دیکھیے۔ تین دن پہلے کی خبر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے لیے پشاوری چپل کے سات جوڑے پشاور سے کراچی بھجوائے گئے ہیں۔ سابق صدر نے دو بڑے ڈیلروں کو آرڈر دیے تھے۔ سرخ‘ سیاہ اور برائون رنگ کی یہ چپلیں اعلیٰ ترین کوالٹی کی ہیں اور ایک چپل کی قیمت سات ہزار روپے سے زائد ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں یہ خبر خلیج ٹائمز میں اور پھر ساری دنیا میں شائع ہوئی کہ گراں بہا ڈیزائنر ملبوسات کے چالیس کارٹن‘ چار ٹرکوں میں لدے ہوئے‘ ڈیفنس سوسائٹی لاہور والے گھر میں پہنچے۔ انہوں نے ایک بار یہ شیخی بھی بگھاری تھی کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اپنے ملبوسات نیلام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میڈیا نے یہ خبر بھی دی تھی کہ وہ جو سوٹ ایک بار زیب تن کر لیں‘ دوسری بار نہیں پہنتے۔ 2013ء کے جون میں پاکستانی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن نے انکشاف کیا کہ حکومتی پارٹی کے ایک صاحب چھیالیس لاکھ ڈالر کی گھڑی باندھے ہیں۔ سپیکر جناب سردار ایاز صادق نے استفسار کیا کہ چھیالیس لاکھ ڈالر یا چھیالیس لاکھ روپے؟ خاتون نے تصدیق کی کہ یہ قیمت ڈالر میں ہے۔ روپوں میں یہ قیمت 45 کروڑ بنتی تھی۔ اس پر سپیکر نے برجستہ کہا کہ پھر تو گھڑی کے مالک نے اس کی ٹھیک ٹھاک انشورنس کرائی ہوگی۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کی مزید وضاحت ٹوئٹر کے حوالوں سے کی کہ یہ گھڑی پہننے والی شخصیت وزیراعظم جناب نوازشریف کی تھی۔ گھڑی کا برانڈ بھی بتا دیا گیا۔ اس گھڑی میں چاند سے ملنے والے ٹکڑے اور خلا اور دوسرے سیاروں سے زمین پر گرنے والی دھاتوں اور پتھروں کے اجزا جَڑے جاتے ہیں۔
ان ڈیزائنر سوٹوں‘ پشاوری چپلوں اور بیش بہا گھڑیوں کی قیمت کو ایک طرف رکھ دیجیے‘ صرف اس بات پر غور کیجیے کہ ان خریداریوں کے فیصلے کرنے میں وقت اور دماغ کتنا خرچ ہوا ہوگا؟ اگر گھر کا سودا سلف خریدنے سے قوتِ فیصلہ متاثر ہوتی ہے تو کروڑوں کی گھڑیوں اور سوٹوں کی خریداری سے دماغی تکان کتنی ہوئی ہوگی؟ ان دماغوں میں قومی اور بین الاقوامی مسائل کے لیے کیا جگہ بچتی ہوگی؟ پھر اس خبر پر تعجب کیسا کہ ایک حکومتی سربراہ‘ متحدہ عرب امارات کے بازاروں میں گھڑیاں دیکھتے رہے اور امارات کے صدر سے اُن کی سرکاری ملاقات کا وقت گزر گیا! کتنے چھوٹے دماغ ہیں ہمارے لیڈروں کے! کیا ترجیحات ہیں ان کے ذہنوں میں! کیا سطح ہے ان کے فکر کی! آیئے! ہم اپنے بال کھول کر بکھیر لیں‘ کمر سے پٹکے باندھ لیں‘ سینوں پر دو ہتھڑ ماریں اور اپنی قسمت کا ماتم
کریں!
ان معاملات میں فیملی بیک گرائونڈ بھی کردار ادا کرتا ہے
کیا شاعر نے درست کہا تھا کہ ؎
یونہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!
مشرقی پاکستان کے عبدالمنعم خان‘ جو ایک اوسط درجے سے بھی کم وکیل تھے‘ صوبے کے گورنر بنے تو احساس کمتری کا اس قدر شکار ہوئے کہ اپنے رشتہ داروں کو گورنر ہائوس کے بستر کی چادریں دکھا دکھا کر داد طلب کرتے تھے۔ ایک صاحب اس کالم نگار کے ساتھ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اُن دنوں تہمد باندھتے تھے اور ہنستے کھیلتے تھے۔ کچھ دن پہلے ملاقات ہوئی تو ساری گفتگو اس موضوع پر کی کہ ان کی ماہانہ آمد کتنی ہے۔ بینک میں کیا کچھ ہے۔ قومی بچت میں کتنا جمع ہے۔ بیٹا کتنا اچھا ’’سَیٹ‘‘ ہوا ہے۔ پھر اپنے شاندار مکان کا ’’دورہ‘‘ کرایا لیکن وہ ہمارا ساتھی جو تہمد باندھتا تھا‘ لطیفے سناتا تھا‘ ہنستا کھیلتا تھا‘ احساسِ کمتری کی گرد میں گم ہو چکا تھا۔
کیا ہمارے بخت میں احساسِ کمتری کے مارے ہوئے رہنما لکھے گئے ہیں؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“