معاصر عالمی افسانوں سے انتخاب
پہلا سلسلہ: معاصر افریقی افسانے
ناڈین گورڈیمر
ترجمہ : قاسم ندیم (ممبئی)
"ہم گھر لوٹیں گے ضرور"
’’افریقہ کی سیاحت کا رومان آج بھی زندہ ہے۔ موقعے کا فائدہ اٹھائیں۔ افریقہ کی عظیم مہم۔۔۔۔۔افریقہ جاننے والوں کے ہمراہ سفر۔۔۔۔۔‘‘ (سیاحت کا اشتہار ’’آبزرور‘‘ ۲۷ نومبر ۱۹۸۸ء )
ماں اس رات خریداری کی خاطر گھر سے نکلی تھی لیکن آج تک واپس نہیں آئی۔ کیا ہوگیا اُسے؟ نہیں معلوم؟ اس طرح ابا بھی ایک دن باہر گئے مگر لوٹ کر نہیں آئے۔ خیر وہ تو جنگ میں شامل بھی تھے، لیکن دادا،دادی؟ وہ تو نہتے تھے۔ بغیر کسی اسلحے کے۔ ابا جن لوگوں سے نبردآزما تھے ،انہیں حکومت لٹیرے کہتی ہے۔لٹیرے ہردم بھگدڑ مچاتے رہے اور ہم چوزوں کی طرح یہاں وہاں بھاگتے رہے۔ کہاں جائیں کچھ معلوم نہیں۔ جب کسی سے ماں نے سنا کہ تیل مل رہا ہے تو وہ باہر نکلی اور پھر لوٹ کرنہیں آئی ۔ لٹیرے گھر پر تین مرتبہ آئے اور ہر بار ہم بھاگ نکلے۔ لوٹ کر آے تو دیکھا کہ لُوٹنے کے لئے اب کچھ باقی نہیں رہاتھا۔ میں ماں کی منجھلی بیٹی ہوں۔اپنے چھوٹے بھائی کو سینے سے لگائے بندریا سی ادھر اُدھر بھاگتی رہی۔۔میرا بڑا بھائی ہاتھ میں ادھ جلی لکڑی لئے ٹہل رہاتھا کہ کہیں لٹیروں کا سامنا نہ ہوجائے۔ ہم دن بھر یہیں انتظار کرتے رہے۔ اس روز پیر تھا یا اتوار معلوم نہیں۔ شام کے وقت دادا دادی لوٹے تب انہیں ساری باتوں کا علم ہوا۔ خوف کے عالم میں چھپتے چھپتے ہم دادا دادی کے گھر پہنچے ۔وہاں ایک ماہ تک ٹھہرے مگر وہاں کھانے پینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے چھوٹے بھائی کو پڑوس کی ایک عورت دودھ پلاتی رہی ۔۔ ہم سبھی جنگلی گھاس پھوس تلاش کرکے کھاتے رہے۔ دادا ایک بار ماں کو تلاش کرنے نکلے لیکن مایوس ہوکر لوٹ آئے۔ ماں نہیں ملی۔دادا جب اکیلے لوٹے تو دادی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ دادا کی بھیڑیں اور ان کی گائے لٹیرے لے گئے تھے۔کھیت بونے کے لئے بیج بھی نہیں رہے۔ اس لئے انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر کہا کہ ہم کہیں اور چلے جائیں گے۔ ہم لوگ یہ سن کو بہت خوش ہوئے کیونکہ اگر ماں نہیں تو یہاں رہنے سے کیا فائدہ؟ دادی مسلسل روتی رہی لیکن ہم چل پڑے۔ چلتے چلتے ہم بے حد پریشان ہوگئے۔ تھک کر چور ہوگئے۔ کیونکہ کہیں پانی نہیں تھا۔ راستے میں کوئی ندی بھی نہیں تھی۔ کافی دیر چلنے کے بعد ایک پارک آیا جس میں شیر،ہاتھی،چیتے،گھڑیال وغیرہ تھے۔ سفید فام انہیں دیکھنے آتے تھے۔ دادا دادی نے بتایا کہ اسے ’’سفاری پارک‘‘ کہتے ہیں۔ پارک بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں جانور آزادی سے گھومتے ہیں۔ ہمارے گاوں سے کام کرنے کے لئے لوگ یہاں آتے تھے۔ پارک میں چاروں طرف گھومتے گھومتے ہم نےخاردار باڑ دیکھے۔ ایک آدمی نے بتایا کہ باڑ سے دور ہی رہو نہیں تو چھوتے ہی جل کر مر جاؤگے۔ جب دوسری طرف سے ہم چپ چاپ پارک میں داخل ہوئے تو چاروں طرف جانور ہی جانور تھے۔سارے جانور کچھ نہ کچھ کھارہے تھے۔ ہرن گھاس کھانے میں مگن تھے،ہاتھی پتّیاں،شیر گوشت نوچ رہے تھے۔ ایک ساتھ سبھی کھانے میں مصروف تھے۔آگے بڑھے تو ہم نے دیکھا کہ کچھ سفید فام خیمے میں بیٹھے کچھ کھا رہے ہیں۔ان کی سیاہ فام نوکرانی سے ہم نے کھانا مانگا تو اس نے کچرے کے ڈھیر سے کچھ جوٹھن اٹھاکر ہمیں دے دیا۔رات کے اندھیرے میں ہمارے سامنے لکڑ بگھوں کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے میرا چھوٹا بھائی رونے لگا تو دادی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کے رونے کی آواز دبادی۔ چلتے چلتے ہم لمبی گھاس والے جنگل میں داخل ہوئے جہاں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔دادا جی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔اور وہ کہیں پیچھے چھوٹ گئے تھے۔ہم دن بھر ان کا انتظار کرتے رہے۔ پھر کسی نے دادی سے کہا کہ تم چلو یہاں کھانا نہیں ہے۔جانوروں کا خطرہ بھی ہے اور سفید فام تمہیں دیکھ لیں گے تو نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ہم چلتے رہے،چلتے رہے۔ رات کو ہمیں جانوروں کی لاشیں ملیں لیکن کھانے کو کچھ نہ ملا۔ بڑی مشکلات کا سامان کرکے ہم پارک سے باہر نکلے۔ پارک سے آگے بڑھے تو ہمیں ایک بڑا خیمہ ملا۔ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے اور ڈاکٹر بھی تھا۔دادی کو یہاں کچھ کام بھی مل گیا اور ہم لوگ بھی پریشانی سے بچ گئے۔یہاں لٹیروں کا خوف نہیں تھا اور نہ ہی پارک کا ڈر۔یہاں لوگ اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے گھر بنارہے تھے اور پودے بھی لگا رہے تھے۔دادی کے پاس لیٹے لیٹے ہمیں معلوم ہوا کہ پہلے پارک نہیں تھا اور سبھی لوگ مل جل کر رہتے تھے۔پہلے آدمی کو جلانے والے تار کے باڑ بھی نہیں لگائے گئے تھے۔ پھر ایک روز چند گورے مشینیں لے کر آئے اور کہاکہ وہ فلم بناتے ہیں۔انہوں نے دادی سے ہماری علاقائی زبان میں کچھ سوالات کئے۔ ’’تم اس علاقے میں کتنے دنوں سے ہو؟‘‘ ’’دوسال اور ایک ماہ سے۔‘‘ ’’تم مستقبل کے بارے میں کیا سوچتی ہو؟‘‘ ’’کچھ بھی نہیں۔ میں تو یہیں ہوں۔‘‘ ’’لیکن تمہارے بچے؟‘‘ ’’یہ بڑے ہوں گے،پڑھیں گے،کمائیں گے۔‘‘ ’’تم واپس اپنے وطن جاوگی؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ’’لڑائی ختم ہونے کے بعد؟‘‘ دادی کو اب جواب دینے کی کوئی خواہش نہیں رہی ۔ہماری جانب دیکھ کر بولی۔’’کون سا وطن؟ کون سا گھر؟‘‘ لیکن دادی نے ایسا کیوں کہا؟ ’’ہم جائیں گے ، ضرور جائیں گے۔چلتے چلتے ’’سفاری پارک ‘‘ کے اُس پار۔ شاید کہیں راہ میں دادا مل جائیں یا پھر ماں گھر لوٹ کر ہمارا انتظار کررہی ہو!۔
(بہ شکریہ اردو چینل ۳۰) ================================
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1692681487665218/
“