ہم بہت عجیب و غریب لوگ ہیں۔ ہم لوگ بچپن میں پٹھان سے عینک خریدتے تھے تو اس کے اوپر سٹیکر لگا رہنے دیتے تھے، خیال ہوتا تھا کہ اس سے نئی چیز نویں نکور لگتی ہے۔ جب کوئی بچہ نئی سائیکل خریدتا تو اس کے اوپر لگا گتہ محفوظ رکھنے کے لیے ستلی یا رسی سے باندھ کے پیکنگ مزید پکی کر لی جاتی۔ بائیس انچ کی سائیکل کو گتے سمیت چلانا اس چیز کا سرٹیفکیٹ ہوتا تھا کہ لڑکا خوشحال گھر سے ہے۔ وہ گتہ گیلا ہو کے گل جاتا تو سائیکل کے ڈنڈوں پہ ٹیپ یا کوئی اور چیز بازار سے چڑھوا لی جاتی۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ جگہ جگہ سے رنگ نہیں اترے گا، سواری نئی رہے گی۔
خدا نے موٹر سائیکل عطا کی، اس میں بھی آس پاس نظر دوڑائی تو یہی گھن چکر تھا۔ جو نئی خریدتا ہے وہ سیٹ کے اوپر سے پلاسٹک نہیں ہٹاتا۔ بھلے چلاتے میں آگے پیچھے سلپ ہوتا رہے یا گرمی میں تشریف سوختہ کرتا رہے، بس کور نہیں ہٹانا تو نہیں ہٹانا۔ خود ہٹ جائے گا تو اس کی جگہ پوشش کروا لیں گے، مطلب جینوئن کور استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ٹینکی پہ پٹرول ڈالنے والی جگہ سے لے کر سیٹ تک ٹیپ یا کوئی کپڑا لگایا جائے گا۔ وجہ اس کی یہ بیان ہوتی ہے کہ موٹر سائیکل کا جینوئن رنگ خراب نہیں ہوتا، سکریچز نہیں پڑتے اور دوبارہ فروخت کرنی ہو تو مارکیٹ میں قیمت اچھی لگ جاتی ہے۔ جب گاڑی مقدر میں آئی تو بھی سب سے پہلے یہی نصیحت سننے کو ملی کہ یار دیکھنا کوئی اچھے سے سیٹ کور چڑھوا لو، جینوئن پوشش خراب نہ ہو۔ دوستوں اور کولیگز کی گاڑیوں پہ غور کیا تو حقیقت میں یہی معاملہ تھا۔ لوگوں نے نئی گاڑی کے پلاسٹک والے سیٹ کور بھی نہیں اتارے ہوتے تھے اور اسی کے اوپر دوسری پوشش چڑھوا لی جاتی تھی۔ اب بیٹھنے پہ چاہے پوری گاڑی میں خڑ خڑ کی آوازیں گونجیں لیکن ”جینوئن‘‘ چیز تو بھئی جینوئن رہے گی نا؟
پھر زندگی کے باقی معاملات پہ غور کیا تو مجھے اپنے آس پاس لگے ٹی وی نظر آئے۔ کسی کے گھر جا کے دیکھ لیجیے، ٹی وی پانچ سال پہلے بھی لگایا ہو گا تو اس کے اوپر کمپنی کے سٹیکر ویسے ہی لگے ہوں گے۔ لیپ ٹاپ لیا ہے تو اس پہ سے کوئی پروٹیکٹیو شیٹ تک ہٹانا حرام ہو گا۔ موبائل لیا ہے تو لیتے ساتھ پہلے پروٹیکٹر لگوائیں گے، اس کے بعد سلیکون کور خریدیں گے، نئے موبائل کو ایک موٹی بھدی سی ڈیوائس بنا کر قوم کو سکون آ جائے گا۔ شادی بیاہ پہ جا کے دیکھیے، کوٹ کی آستین پہ لگا ہوا کمپنی کا برینڈ سٹیکر کتنے لوگ اتارتے ہیں؟
بابا ماڈل لوگ تو اس لیے اس سمیت تصویر بنوا لیتے ہیں کہ انہیں برینڈ کی اشتہاری مہم چلانی ہوتی ہے، آپ کس لیے نہیں اتارتے؟ “او یار سمجھا کر، اس سے چیز نئی لگتی ہے”۔ دیواروں پہ لگی تصویروں کے فریم پر سے وہ گتے کے کونے تک نہیں اتارے جاتے جو صرف اور صرف نئی تصویر کی ٹرانسپورٹیشن آسان بنانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں دس دس سال پرانی تصویر کونوں سمیت لگی ہوئی نظر آئے گی۔ وی سی آر اب چلنے بند ہو گئے، کیسٹ پلئیر استعمال نہیں ہوتے، جس جس کے گھر میں پڑے ہوئے ہیں جائیں اور سٹور میں جا کے دیکھیں آج بھی ان پہ جینوئن عربی سٹیکر لگے ہوں گے۔ ناشیونال، بینا سونک اور پتہ نہیں کتنی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ کتنے گھروں میں آج تک فوم کے گدوں پہ سے پلاسٹک کور نہیں ہٹا ہو گا بھلے خیر سے دو تین بچے بھی خدا نے عطا کر دئیے ہوں، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
مطلب اگر ہم نے غلطی سے نئی گاڑی خرید لی ہے تو اس کی جینوئن پوشش کو ہم خود استعمال کیوں نہ کریں؟ پندرہ سال بعد بیچی جائے اور جو بندہ اسے کوڑیوں کے مول خریدے اس تک نئی کی نئی پوشش منتقل کرنے میں ہمیں کتنے نفل کا ثواب ہے؟ ستر اسی ہزار کا موبائل خریدا اور دو سو روپے کے کور میں ڈال کے اس کی آتما رولتے رہے، جب بیس ہزار کا بیچا تو ایک سکریچ بھی نہیں تھا، واہ جی واہ، کیا سودا کیا ہے! ایسی صورت میں فائدہ کسے ہوا، جو اسی ہزار کا لے کر سات پردوں میں استعمال کرتا رہا یا جو دو سال بعد بیس ہزار کا “سکریچ لیس موبائل” خریدے گا؟ اور ٹی وی، وی سی آر یا کوٹ وغیرہ تو عام طور پہ بیچنے بھی نہیں ہوتے پھر کیوں ان پہ لگے ٹیگ اور سٹیکر زندگی بھر نہیں اتارے جاتے؟
سوائے دو چار فیصد لوگوں کے شاید ہم سب لوگ صدیوں کی غربت میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے اچھے دن آ بھی جاتے ہیں تو ہم ڈرے سہمے ہوئے انہیں گزارتے رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری کوئی چیز اگر نئی ہو تو وہ تاحیات نئی لگتی رہے۔ وہ کبھی پرانی نہ ہو۔ چاہے اس وقت ہمارے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے موجود ہوں کہ ہم اس جیسی دس چیزیں مزید لے سکیں لیکن جو لے لی ہے اسے انٹیکٹ رکھنا ہمیشہ ہماری اولین اور خاندانی ترجیح ہوتی ہے۔ یار سیدھی سی بات ہے، نئی گاڑی کی سیٹیں پورا حساب کتاب رکھ کر جسم کے آرام کو دیکھتے ہوئے بنائی جاتی ہیں۔ پہلے تو انہیں استعمال نہ کر کے ہم اپنا آرام غارت کرتے ہیں پھر کسی بھی اور رنگ کے کور چڑھا کے گاڑی کا جینوئن انٹیرئیر بھی برباد کر دیتے ہیں۔ یہی کام زندگی بھر عام استعمال کی ہر چیز کے ساتھ ہم لوگ کرتے رہتے ہیں اور ہمیں اس پہ کوئی حیرت بھی محسوس نہیں ہوتی۔
بھائی، زندگی کتنی باقی رہ گئی ہے کون جانتا ہے۔ اپنے پیسوں سے آج فائدہ نہ لے سکے تو کل جو بھی لے ہمیں کیا پتہ؟ آپ اگر اپنی سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی خود اچھے طریقے سے استعمال کر لیں گے، نئی چیز کا مزا لے لیں گے تو یہ آپ کے پورے موڈ پہ بڑا اچھا امپیکٹ ڈالے گی۔ آپ کو اپنی چیز سے لطف اندوز ہونے کا مکمل حق ہے۔ آپ نے گاڑی خریدی ہے تو وہ سیٹیں آپ کی ہیں بابا، جینوئن چیز کو استعمال کیوں نہیں کرتے؟ بہت شوق ہے تو بیچتے وقت نئی پوشش چڑھوا کے بیچ دیں۔ موبائل پہ جو مزا بغیر کسی کور کے استعمال سے آتا ہے وہ چاہے باریک سے باریک پروٹیکٹر لگوا لیں، اصلی سکرین والا فیل، وہ ٹچ کبھی نہیں ملے گا۔ پھر اس کی ایک اپنی ایرگانیمیک گرپ ہوتی ہے۔ مطلب انسانی ہاتھ کی ساخت کے حساب سے موبائل ڈیزائن ہوتا ہے کہ ادھر ادھر سلپ نہ ہو۔ کوئی بھی کور لگا کے وہ سارا کمفرٹ لیول بھی تیل ہو جاتا ہے۔ اگر اتنا ہی ڈر لگتا ہے کہ ٹوٹ جائے گا یا کوئی خراش آ جائے گی تو بابا مت لو اتنا مہنگا، لیکن جب لے لیا تو اسے ہنڈاؤ تو سہی۔ کوئی بھی چیز ڈر ڈر کے استعمال کی تو کیا کی؟ بات وہی ہے کہ پھر بعد میں خریدنے والا اگر موج میں رہے گا تو آپ کو ساٹھ ستر فیصد زیادہ پیسے بھر کے کیا ملا؟
زندگی آج ہے۔ جو چیز آج کے دن آپ کے پاس ہے کوئی پتہ نہیں کل ہو یا نہ ہو۔ مستقبل کے حالات کوئی نہیں بتا سکتا، یہ تک نہیں معلوم کہ اگلے سیکنڈ سانس بھی آنا ہے کہ نہیں آنا۔ جب اس قدر بے یقینی ہے، اور یہ صدیوں سے طے ہے کہ واقعی اپنی زندگی کی، اپنے حالات کی گارنٹی کسی کے پاس نہیں ہے، نہ ہو سکتی ہے، تو بھائی، اپنی چیزوں کو خود استعمال تو ٹھیک سے کر لیں۔ باقی باتیں سب ایک طرف، قسم سے یار اگر ڈبل بیڈ کے گدے سے پلاسٹک ہٹ جائے اور گاڑی کی جینوئن سیٹیں بندہ استعمال کر لے تو روح تک مسیحائی کی تاثیر اتر آتی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“