چھ سات سال پہلے کی بات ہے، ابا جی حیات تھے۔ میرا معمول تھا کہ میں عید امی ابو کے ساتھ ملتان میں کیا کرتا تھا۔رمضان شروع ہوتے ہی ماں جی کے فون آنے شروع ہوگئے کہ ملتان کب آنا ہے؟ میں شدید قسم کی مصروفیت میں پھنسا ہوا تھا ، دو تین ٹی وی کے ڈرامے تھے، پھر عید کے لیے کچھ سپیشل پلے لکھنے تھے۔ میں نے ماں جی کو کہا کہ بیسویں روزے تک لازمی ملتان آجاؤں گا۔ لیکن تمام تر کوشش کے باوجود بیسویں روزے تک میری جان نہیں چھوٹی۔ شام کو ماں جی کا فون آیا اور پوچھنے لگیں کہ کتنی دیر تک گھر پہنچو گے؟؟؟ میں نے سرکھجاتے ہوئے معذرت کی اور اپنی طرف سے ایک بہانہ گھڑلیا کہ ’ماں جی ابھی ٹی وی والوں سے مجھے پیسے نہیں ملے، بس جونہی ملیں گے میں فوراً ملتان پہنچ جاؤں گا‘۔اگلا دن بھی گذر گیا۔ اکیس کی شام پھر ماں جی کا فون آگیا، سوال وہی تھا۔ میں نے وہی بات دہرائی کہ ابھی پیسے نہیں ملے۔ ہوتے ہوتے رمضان کی پچیس تاریخ ہوگئی۔ میرا کافی سارا کام نمٹ چکا تھا لیکن ایک پراجیکٹ ابھی باقی تھا جس میں ایک دن لگ سکتا تھا۔ماں جی کا فون آیا تو میں نے معذرت کی اور پرانا بہانہ دہرایا کہ آج بھی پیسے نہیں ملے۔ یہ سنتے ہی ماں جی نے ایک کمال کا جملہ کہا‘ قدرے غصے سے بولیں’’ اچھا پھر میں تمہارے ابا جی کو لاہور بھجواتی ہوں وہ جاکر ٹی وی والوں سے خود بات کریں گے کہ بچے کے پیسے کیوں نہیں دے رہے۔۔۔‘‘
یہ جملہ سن کر جہاں میں نے قہقہے لگائے وہیں ماں جی پر بہت پیار بھی آیا۔ہر ماں کی طرح ان کے نزدیک میں ابھی ’بچہ‘ ہی تھا اور ہر ماں کی طرح انہیں بھی یقین تھا کہ میرے پیسے صرف ابا جی ہی نکلوا سکتے ہیں۔مائیں کتنی سادہ ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ پرانے زمانے میں زندہ رہتی ہیں، انہیں لگتاہے کہ ان کی اولاد دنیا کی معصوم ترین اولاد ہے۔ انہیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ ان کا بچہ ہمیشہ بچہ ہی رہے گا اور دنیا کی چالاکیوں سے ناواقف رہے گا۔ یہ دنیا کے ہر مسئلے کا حل دعاؤں کو قرار دیتی ہیں اور حیرت انگیز طور پران کی دعائیں رنگ بھی لے آتی ہیں۔ان کی اکثریت موبائل فون استعمال کرنا نہیں جانتی، ٹی وی آن کرنا نہیں جانتی ، بڑی بڑی باتیں نہیں سمجھتی، دلائل سے بات نہیں کر سکتی، فیس بک کے بارے میں نہیں جانتی، ٹوئٹر سے انجان ہے، سادہ زندگی گذارتی ہے، کسی بھی بات کو سچ سمجھ لیتی ہے،بڑی جلدی گھبرا جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سہم جاتی ہے، لڑائی سے گھبراتی ہے۔ ہم میں سے شائد کسی کو نہ پتا ہو کہ ہماری ماں کون سا کھانا بہت شوق سے کھاتی ہے، اس کی پسند کیا ہے، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ماں کو کس رنگ کا سوٹ پسند ہے، پسندیدہ سویٹ ڈش کون سی ہے،آپ نے کبھی اپنی ماں کو کسی چیز کے لیے للچاتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا، ہم میں سے اکثریت کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے، یاد کیجئے اپنے بچپن کے وہ دن جب آپ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے تھے اور ماں ہمیشہ ہانڈی پونچھ پونچھ کر پیٹ بھرتی تھی۔یہ وہ ماں ہے جوبچے کے ہاتھ دھلواتے وقت صابن تھوڑا لگاتی ہے اور کلمہ طیبہ زیادہ پڑھتی ہے۔ہم میں سے کتنے لوگوں کو یادہے کہ ان کی ماں کو جب بے وقت بھوک لگتی ہے تو وہ کیا کھاتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی اِس پرانی ماں کو برگر یا پیزے کے لیے مچلتے دیکھا ہے؟اسے جو بھی دے دیا جائے یہ صبر شکر کرکے کھا لیتی ہے، یہ سخت بیمار بھی ہو تو اسے بچوں کی فکر کھائے جاتی ہے، یہ ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر خود ہی ٹھیک ہوجاتی ہے، یہ اتنی سادہ ہوتی ہے کہ اپنے جہیز کی چیزیں بھی یہ سوچ کر پیٹی میں رکھ دیتی ہے کہ بیٹی کے کام آئیں گی۔ہمیں ایسا ہی لگتاہے جیسے ہماری ماں بس شروع سے ہی ایسی تھی، نہیں۔۔۔یہ ماں بھی کبھی نوجوان تھی، اس کی بھی کچھ خواہشیں ، کچھ امنگیں تھیں، لیکن ماں بنتے ہی اس نے اپنے سارے جذبے، سارے شوق دفن کرلیے اور صرف اولاد کی ہوکر رہ گئی۔
میری ماں جی بستر سے اٹھ نہیں سکتیں، ان کی بینائی بھی ختم ہوچکی ہے، بولنے میں بھی سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے، لیٹے لیٹے اچانک ماضی میں چلی جاتی ہیں، دماغی طور پر بھی بہت کمزور ہوچکی ہیں، ہر وقت کسی انجانے خوف کا شکار رہتی ہیں اسی وجہ سے ان کے پاس ہر وقت کسی کو موجود رہنا پڑتاہے۔ایک جگہ سے گھبرا جاتی ہیں تو پھر ضد کرتی ہیں کہ انہیں دوسری جگہ لے جایا جائے لہذا ہم بہن بھائی ایک دو مہینوں کے وقفے سے انہیں لاہور اور ملتان کے درمیان چکر لگاتے رہے ہیں۔ پچھلا کچھ عرصہ ماں جی میرے پاس رہیں، میں ان کے پاس سوتا تھا، ماں جی کو ڈبل بیڈ پسند نہیں، انہیں چارپائی اچھی لگتی ہے، سو ان کے کمرے کے لیے چارپائی منگوائی گئی ، میں نیچے فوم کا گدا فرش پر بچھا کر لیٹ جاتا تھا۔میری بیوی بڑی کوشش کرتی کہ ماں جی کے ساتھ وہ سوجائے لیکن ماں جی کا اصرار ہوتاتھا کہ میرے ساتھ نوخیز ہی لیٹے۔ میری اپنی بھی یہی خواہش ہوتی تھی، میں میٹرک تک ماں جی کے ساتھ سوتا رہا ہوں۔ رات کو ماں جی اچانک گھبرا کر مجھے آوازیں دینے لگ جاتیں اور میں جلدی سے اٹھ کر انہیں بتاتا کہ میں ان کے پاس ہی ہوں۔
ماں جی ٹوائلٹ نہیں جاسکتیں، میں انہیں گود میں اٹھا کر ٹوائلٹ تک لے جاتا اور پھر واپس لاتا ہوں۔ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی شام ، میں ماں جی کی چارپائی کے نیچے گدے پر سویا ہوا تھا کہ ماں جی نے مجھے آواز دی، میں نے نیم غنودگی کے عالم میں ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ انہیں تسلی ہوجائے کہ میں پاس ہی موجود ہوں۔ انہوں نے پھر آواز دی۔اب کی بار میں اٹھ بیٹھا۔ ماں جی کی آواز میں عجیب سی ندامت تھی۔ کہنے لگیں’’میں نے واش روم جانا تھا ، تمہیں دو تین آوازیں دیں لیکن تم گہری نیند میں تھے، لیکن اب میرے کپڑے خراب ہوگئے ہیں‘‘۔ میں ایک لمحے میں ان کی مجبوری سمجھ گیا، فوراً بیوی کو اٹھایا۔ اُس نیک بخت نے فوراً امی کو گرم پانی سے واش کیا، دوسرے کپڑے پہنائے اور گندے کپڑے گھر کے پچھلے صحن میں ایک طرف رکھ دیے تاکہ صبح ماسی آکر دھو لے۔ امی دوبارہ چارپائی پر لیٹیں تو ڈھیروں دعائیں دے رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں امی کو گہری نیند آگئی۔ میں نے کچھ دیر سوچا ، پھر اٹھ گیا۔
صبح کپڑے دھونے والی ماسی آئی تو بیوی نے اسے بتایا کہ امی کے کپڑے سب سے پہلے ڈیٹول وغیرہ ڈال کر اچھی طرح سے دھوئے۔ ماسی صحن میں گئی اورواپس آکر پوچھنے لگی ’باجی کپڑے کدھر پڑے ہیں؟‘
بیگم نے کچن سے آواز لگائی کہ پچھلے صحن میں واشنگ مشین کے ساتھ پڑے ہیں۔ ماسی دوبارہ پچھلے صحن میں گئی اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ واپس آگئی’’باجی وہاں تو کوئی کپڑے نہیں پڑے‘‘۔ بیگم نے حیرانی سے کہا’’کیا آف وائٹ کلر کے کپڑے نہیں پڑے ہوئے؟‘‘۔ ماسی جلدی سے بولی’’وہ گندے تھوڑی ہیں، وہ تو دھلے ہوئے ہیں اور خشک ہونے کے لیے تار پر لٹک رہے ہیں‘‘۔ بیگم ہکا بکا رہ گئی، بیگم نے چونک کر میری طرف دیکھا ۔۔۔!!!
میں نے سوئی ہوئی ماں جی کی مقدس پیشانی پر ایک بوسہ دیا اور ہنسنے لگا۔۔۔اس روز میں اتنا ہنسا کہ ٹشو پیپر کا آدھا ڈبہ ختم ہوگیا۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“