مانگے کا تھری پیس سوٹ پہن کر خوش لباسی کا رنگ ہر جگہ جمایا جا سکتا ہے مگر اُس کے سامنے نہیں‘ جس سے مانگا تھا۔ جس طرح انفرادی سطح پر دوستوں کے مسلسل زیرِ احسان رہنا‘ دوستی کے لیے مقراض بن جاتا ہے‘ اسی طرح جن ملکوں سے صرف اور صرف کرم فرمائیاں درآمد کی جائیں‘ ان سے برابر کے تعلقات قائم نہیں رہتے۔ ایک دعا کی تعلیم دی گئی ہے: یا رَبِّ لَا تَضْطَرَّنی اِلیٰ امتحانِ اَصْدِقَائی لِاَنَّ لَا اُرِیْدُ اَنْ اَفْقَدَ واحِدً مِنْہم۔ پروردگار! دوستوں کے امتحان کی نوبت نہ لائیو کہ میں ان میں سے کسی کو بھی کھونا نہیں چاہتا۔ چودھری نثار علی نے یو اے ای کے وزیر کے تلخ بیان کا جواب دے کر فرضِ کفایہ ادا کیا۔ سب منقار زیرِ پر رہے۔ صرف انہوں نے بات کی۔ جرأت لائق تحسین ہے مگر سوچنے کا مقام ہے کہ کیا اس لہجے میں شرقِ اوسط سے امریکہ کو للکارا جا سکتا تھا یا ترکی کو؟ یا برطانیہ کو؟ امریکہ نے تو عشروں کی رفاقت پر پانی پھیر دیا اور سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہیں کر رہا۔ اس سے بھی پہلے جب شام میں لوہا گرم تھا اور شرقِ اوسط کے بادشاہ توقع کر رہے تھے کہ امریکہ ایک ہی ضرب سے بشارالاسد کا دھڑن تختہ کردے گا‘ امریکہ پیچھے ہٹ گیا۔ گویا قیام کا وقت تھا تو سجدے میں گر گیا۔
پنجاب کے غربی حصے میں کہا جاتا ہے ’’گھر کی تباہی الگ اور جگ ہنسائی الگ‘‘۔ اسی کو انگریز کہتے ہیں اپنے غلیظ کپڑے دوسروں کے صحن میں دھونا۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار کے نشے میں تھے اور تخت سے اتارے گئے وزیراعظم مصیبت میں تھے۔ دونوں میں سے کسی نے نہ سوچا کہ گھر کی بات گھر میں رکھی جائے۔ ایک نے جان بچانا تھی‘ دوسرے نے جان چھڑانا تھی۔ سعودی عرب کو درمیان میں لایا گیا۔ پناہ لی گئی۔ باقرخانیاں بنانے والے باورچی الگ گئے‘ سامان سینکڑوں صندوقوں میں گیا مگر محلات تو کسی کی عنایت تھے! پھر اس ملک کے
لوگوں کے مقدر میں وہ منظر دیکھنا بھی تھا جب 8 ستمبر 2007ء کو سعودی خفیہ سروس کے سربراہ شہزادہ مقرن اور لبنانی لیڈر سعدالحریری نے جنرل پرویز مشرف سے راولپنڈی میں اڑھائی گھنٹے ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں نے پریس کانفرنس میں میاں نوازشریف کو ’’سمجھایا‘‘ کہ معاہدے کی پابندی کریں اور ’’وقت‘‘ سے پہلے اپنے وطن واپس نہ تشریف لائیں۔ اس لیے کہ معاہدے کی گارنٹی سعودی شاہی خاندان نے دی تھی۔ یہی وہ مشہورِ زمانہ پریس کانفرنس تھی جب شہزادے نے معاہدے کے کاغذات لہرائے تھے۔ ایک صحافی نے نکتہ اٹھایا تھا کہ ملک کی سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق میاں صاحب کو اپنے وطن میں واپسی کا حق حاصل ہے تو شہزادے نے پوچھا… ’’پہلے معاہدہ ہوا تھا یا پہلے سپریم کورٹ نے رولنگ دی ہے؟‘‘
کیا اس سے زیادہ کسی ملک کی سبکی ہو سکتی ہے؟ کیا جنرل پرویز مشرف نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا کہ میں بیرونی طاقتوں کو اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں ملوث کر رہا ہوں؟ کیا معزول وزیراعظم نے ایک بار بھی کہا کہ میرا وطن یہی ہے‘ میرا جینا مرنا یہیں ہوگا؟ میں کسی اور ملک میں کیوں جائوں؟
اس سے بھی پہلے مشرق وسطیٰ کے معتبر انگریزی روزنامہ ’’خلیج ٹائمز‘‘ نے جولائی 2007ء میں دنیا بھر کو بتایا کہ بینظیر بھٹو لندن میں اپنی ساری مصروفیات کینسل کر کے ابوظہبی پہنچیں جہاں انہوں نے پاکستان کے صدر جنرل مشرف سے ’’مذاکرات‘‘ کیے۔ جنرل صاحب کے ساتھ گورنر عشرت العباد اور ایک حساس خفیہ ادارے کے سربراہ تھے جب کہ بے نظیر مذاکرات میں اکیلی تھیں۔ طے یہ ہو رہا تھا کہ بے نظیر وزیراعظم بنیں گی اور مشرف صاحب ایک بار پھر صدر ’’منتخب‘‘ ہوں گے!
کیا دنیا میں دوسرے ممالک بھی یہی کچھ کرتے ہیں؟ کچھ حضرات یو اے ای میں مزدوری کرنے والی پاکستانی لیبر کی بات کرتے ہیں۔ نہیں۔ یہ بات نہیں! ہرگز نہیں! مزدوروں کو نوکری دینا ایک معمول کی اقتصادی سرگرمی ہے۔ یہ دو ملکوں کی مشترکہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کی افرادی قوت دوسرا خریدتا ہے۔ بھارت کے شہری مشرق وسطیٰ میں زیادہ تعداد میں کام کر رہے ہیں‘ مگر بھارت کے جرنیل اپنے ہی ملک کے اپوزیشن لیڈروں سے بات چیت کرنے ابوظہبی نہیں جاتے… 2011ء کا دسمبر یاد کیجیے۔ مملکت پاکستان کے صدر جناب آصف زرداری میڈیکل چیک اپ کے لیے دبئی پہنچتے ہیں۔ افواہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی تھیں۔ تقریباً سارے کا سارا صدارتی عملہ سرکاری خرچ پر دبئی منتقل ہو گیا۔ کیا دبئی کی میڈیکل سہولیات کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں؟
بے نظیر بھٹو نے‘ خدا ان کی لغزشوں سے درگزر کرے‘ دبئی میں جو محل خریدا‘ کیا کسی اور ملک کے سابق حکمران نے‘ یا اپوزیشن رہنما نے ایسا کیا؟ ہمارے رہنمائوں کے بچے وہیں رہتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے معمول کے اجلاس وہاں ہوتے ہیں۔ اور تو اور آئی ایم ایف والے ہمارے وزیروں‘ افسروں اور اہلکاروں کو وہاں طلب کرتے ہیں۔ کیا بھارت کے وزیر خزانہ کے صاحبزادوں کی عظیم الشان بزنس ایمپائر مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں ہے؟ ہمارے جس سیاست دان کے سر پر کوئی چھوٹی سی بھی کالے رنگ کی بدلی آ جائے تو وہ ملک چھوڑ کر سیدھا دبئی کا رُخ کرتا ہے! اب تو ایک ذرا سی کسر ہی رہ گئی ہے کہ سندھ حکومت کا صدر مقام دبئی منتقل ہو جائے۔ گزشتہ دنوں ارشاد عارف صاحب نے اپنے ایک کالم ’’کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کا ٹیپ کا بند ایسا باندھا کہ سماں بندھ گیا۔ ہماری حیثیت مشرق وسطیٰ کے ’’برادر‘‘ ملکوں کے سامنے دریوزہ گر کی ہے۔ ہم پناہ گیر ہیں۔ ہم میں شرم ہے نہ حیا۔ اپنے ملک کی قسمت کے فیصلے دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ ہماری بین الاقوامی حیثیت قصباتی محلوں میں رہنے والے اُن نیچ ذات خاندانوں کی ہے جو اپنی لڑائیاں گلی میں کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کو گالیاں دوسروں کے سامنے دیتے ہیں اور اپنے ازدواجی جھگڑے پڑوسیوں سے طے کراتے ہیں۔ کبھی ہمارے ایک سابق وزیراعظم کی حفاظت کی گارنٹی دوسرا ملک دیتا ہے اور کبھی ہمارے کسی بہادر جرنیل کی سلامتی کا ضامن دوسرا ملک بنتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت‘ ترکی‘ ایران اور ملائیشیا کا بھی کیا ذکر! کیا سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور جبوتی کے سیاست دان اور حکمران اپنے گندے کپڑے دوسروں کے آنگن میں نچوڑتے ہیں؟
کیا ایران میں اندرونی تنازعے تھوڑے ہیں؟ گروہوں کے گروہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ قیدوبند بھی ہے۔ ترکی کے اندر جھگڑے ہیں۔ مگر کسی نے کبھی حدیں پار کیں نہ سرحد! یو اے ای کے وزیر کے بیان سے ہمارے ملک کی بے عزتی ہوئی ہے!! تو کیا ہماری عزت تھی؟ کسی نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ طلاق دینے کے لیے کیا ضروری ہے۔ جواب دیا نکاح کا ہونا ضروری ہے۔ بے عزتی کے لیے عزت کی بھی تو شرط ہے! ملکوں کی اور قوموں کی عزت اس سے نہیں ہوتی کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے کتنے محل بیرون ملک ہیں‘ کتنے کارخانے ہیں‘ لندن میں کتنی رہائش گاہیں ہیں‘ نیویارک میں پینٹ ہائوس کتنے ہیں‘ دبئی میں سرمایہ کاری کتنے کروڑ ڈالر کی ہے‘ حفاظت کی گارنٹی کس ملک نے دی ہے؟ سلامتی کا ضامن کس ملک کا شاہی خاندان ہے؟ ’’معاہدے‘‘ میں کردار کس پائلٹ نے ادا کیا تھا؟ عزت‘ عزتِ نفس سے ہوتی ہے۔ عزت ان ملکوں کی ہوتی ہے جن میں منموہن سنگھ اور احمدی نژاد جیسے فقیر حکمران ہوتے ہیں‘ جن کی الماریوں میں کپڑوں کے دو جوڑے اور کھانے میں دو سینڈوچ ہوتے ہیں… عزت اُن ملکوں کی ہوتی ہے جن میں مہاتیر اور لی جیسے لیڈر ہوتے ہیں‘ جن کے بینک بیلنس اور اثاثے عشروں کی حکمرانی کے باوجود فربہ نہیں ہوتے۔ عزت برطانیہ جیسے ملکوں کی ہوتی ہے جس کے وزراء اعظم ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ عزت امریکہ جیسے ملکوں کی ہوتی ہے جس کے صدر جھوٹ بولیں تو کٹہرے میں بے یارومددگار کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور مقدمے کی کارروائی دنیا بھر میں سنی اور پڑھی جاتی ہے۔
ہم کیا اور ہماری عزت کیا! عطاء اللہ شاہ بخاری جیل میں گئے تو انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں داخل ہونے سے پہلے جیلر نے متنبہ کیا کہ اگر کوئی شے پاس ہے تو شرافت سے نکال دیجیے۔ اندر جا رہے تھے تو شاہ صاحب کے سامان سے چینی زمین پر گرنے لگی۔ ایک ساتھی نے کہا شاہ صاحب! شرافت زمین پر گر رہی ہے! ہماری بھی عزت قطرہ قطرہ دانہ دانہ سب کے سامنے زمین پر گر رہی ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“