میلبورن میں جہاں میری قیام گاہ ہے، وہاں سے پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر محلے کی لائبریری ہے۔ محلے کو یہاں سبرب (SUBURB)کہا جاتا ہے۔ تقریباً ہر سبرب میں شہر کی لوکل گورنمنٹ نے ایک بڑی لائبریری قائم کررکھی ہے۔ کچھ سال قبل جب میں پہلی بار یہاں آیا اور لائبریری میں گیا تو کائونٹر والی خاتون سے درخواست کی کہ مجھے لائبریری کا ممبر بنایا جائے اور لائبریری کارڈ جاری کیا جائے۔ یہ بھی بتایا کہ میں آسٹریلوی شہری نہیں ہوں۔ اس نے پاسپورٹ مانگا جو اس وقت میرے پاس نہیں تھا۔ یہ سوچ کر کہ کل پاسپورٹ لاکر دکھائوں گا تو کارڈ بن جائے گا، کائونٹر سے پلٹنے لگا تو خاتون نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے شناخت ہوسکے؟ میں نے اسلام آباد کلب کا ممبر شپ کارڈ دکھایا۔ کہنے لگی بس یہی کافی ہے۔ پانچ منٹ میں کارڈ تیار ہوگیا۔ لائبریری کا ہر ممبر بیک وقت تیس کتابیں لے سکتا ہے جو چارہفتوں کے لئے دی جاتی ہیں۔ لائبریری میں تقریباًسولہ کمپیوٹر پڑے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ میں ہرروز ایک سو بیس منٹ یعنی دوگھنٹے انٹرنیٹ مفت استعمال کرسکتا ہوں۔ سب سے زیادہ حیرت کتابوں کے اجرا پر ہوئی۔ ہرممبر پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ کتابیں ایشو کرانے کے لیے کاونٹر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کتابیں ایک خاص قسم کی خودکار مشین کے سامنے رکھ دیں۔ مشین میں لائبریری کے ممبر شپ کارڈ کو ایسے SWIPEکریں جیسے دکاندار کریڈٹ کارڈ کو کرتے ہیں۔ ساری کتابوں کے نام لکھے ہوئے سامنے آجائیں گے۔ پھر ایک بٹن دبانے سے رسید باہر نکلے گی اس پر کتابوں کے نام اور واپسی کی تاریخ درج ہوگی۔ دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں جو آپ کو چیک کرے۔ کتابیں واپس کرنے کے لیے بھی کائونٹر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ لیٹربکس کے سوراخ کی طرح ایک بڑا سا سوراخ دیوار میں بنا ہے۔ اس کے اندر کتابیں ڈال دیجئے ۔ بس واپس ہوگئیں۔ اگر کوئی کتاب کسی اور ممبر نے جاری کروا رکھی ہے تو آپ ای میل کے ذریعے اپنے لیے محفوظ کراسکتے ہیں۔ نئی کتاب تجویز کریں تو وہ بھی خرید کر باقاعدہ مطلع کرتے ہیں۔ بوڑھے معذور اور بیمار ممبروں کے لیے لائبریری کی گاڑی، جس میں بہت سی کتابیں ہوتی ہیں، ان کے گھروں میں جاتی ہے، اور وہ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے، یا بیٹھے بیٹھے ، کتابیں پسند کرتے ہیں۔ واپسی کے لئے بھی لائبریری کا ملازم (یا رضا کار) گھر پر آتا ہے۔
یورپ اور امریکہ کے کئی چھوٹے قصبوں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ ہرجگہ لائبریری قریب تھی۔ امریکی لائبریریاں یورپ کی لائبریریوں سے بڑی ہیں۔ اپنے ہاں ’’پاکستان کونسل‘‘ کی لائبریری ہرشہر میں تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب مرحوم ہوگئیں۔ امریکن سنٹر اور برٹش کونسل لائبریریاں طالب علموں اور مطالعہ کے شائقین کے لیے بہت بڑی نعمت تھیں۔ اسلام آباد میں میلوڈی سینما کی بغل میں برٹش کونسل کی لائبریری ہروقت پڑھنے والوں اور کتابیں جاری کرانے والوں سے اٹی رہتی تھی۔ بچوں کے لیے کتابیں عجیب خود کار نظام کے تحت کام کرتی تھیں ۔کچھ کی پشت سفید رنگ کی تھی۔ کچھ کی سرخ رنگ کی، کچھ کی زرد رنگ کی اور کچھ کی سیاہ رنگ کی۔ ہررنگ مختلف سطح کے لیے تھا اور نئے الفاظ کی تعداد رنگوں کے لحاظ سے بڑھتی تھی ۔ کوئی بچہ سفید پشت کی کتابیں کافی تعداد میں پڑھ لیتا تھا تو اس سے اگلے مرحلے، مثلاً سرخ رنگ کی پشت والی، کتابیں اسے خود بخود سمجھ میں آجاتی تھیں اور اس کا زبان کا علم ترقی کرتا جاتا تھا۔ اس کالم نگار کے بچوں نے یہ ساری کتابیں سلسلہ وار پڑھیں اور طالب علمی ہی کے زمانے میں ان کے انگریزی مضامین اور نظمیں انگریزی اخبارات وجرائد میں شائع ہونے لگیں۔
پھر بدقسمتی کا بادل موسلا دھار برسا۔ ہرطرف ایسا جل تھل ہوا کہ یہ سب لائبریریاں غائب ہوگئیں۔ اب کسی شہر میں شاید ہی کوئی لائبریری ہو (سوائے یونیورسٹیوں کالجوں کی اپنی لائبریریوں کے)۔ اسلام آباد میں ایک نیشنل لائبریری ہے جو وزیراعظم کے دفتر کے بغل میں ہے۔ یعنی وہاں کوئی نہیں جاسکتا۔ سیکٹروں اور محلوں میں کسی لائبریری کی موجودگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس سے بھی بڑی بدبختی یہ ہوئی کہ کتاب فروش بھی دکانیں بڑھا گئے۔ جہاں شہر میں پچاس کتاب فروش تھے، وہاں پانچ رہ گئے۔ مجھے یاد ہے جب ستر کی دہائی میں کراچی سے ملازمت کا آغاز کیا تو صرف الفنسٹن سٹریٹ پر ہی کئی دکانیں تھیں۔’’کتاب محل‘‘ میں اردو کی ساری ادبی کتابیں میسر تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے الفنسٹن سٹریٹ کا نام زیب النساپڑگیا اور اس قومی ’’شعور‘‘ کے ساتھ ساتھ کتابوں کی دکانیں غائب ہوگئیں، آخری بڑی دکان امریکن بک کمپنی تھی جس کی وفات چند سال پہلے ہوگئی۔ پھر دومعروف دکانیں رہ گئیں۔ ایک ریگل چوک پر جس کا نام ’’تھامس اینڈ تھامس‘‘ تھا اور جس کے پاس زیادہ تر کتابیں پرانی تھیں۔ دوسری دکان زیب النسا سٹریٹ کے دوسرے کنارے، زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے تھی۔ اس کا نام الماس بک ڈپو تھا۔ مالک ایک بزرگ پارسی تھا۔ اس کے پاس ایران کی مطبوعہ تازہ ترین فارسی کی ادبی کتابیں ہوتی تھیں۔ میں جب بھی کراچی جاتا، اس کے پاس ضرور جاتا۔ اپنی زنگ آلود فارسی گفتگو کو تازہ کرتا اور فارسی شاعری کی کچھ کتابیں خریدتا۔ 2010ء کے شروع میں کراچی جانا ہوا تو حسب معمول وہاں پہنچا۔ دکان بند تھی۔ بورڈ غائب تھا اور بند دروازے کے سامنے پان والا بیٹھا تھا۔ اس سے پوچھا کہ یہاں ایک کتابوں کی دکان تھی۔ کہنے لگا وہ تو بند ہوگئی اور دکان بک گئی ۔ اور مالک؟ علی اصغر فرزانہ۔؟‘‘ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا، کہنے لگا، اس کا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اسی شام کو میری واپسی تھی۔ میں کئی دن اس دکان کی وفات پر اداس رہا اور ایک ماتمی مضمون لکھا جو چارفروری 2010ء کے انگریزی معاصر’’ڈیلی نیوز‘‘ میں شائع ہوا۔
فارسی کتابوں کا ذکر چھڑا ہے تو یہ بات بھی ہوجائے کہ ایران کی چھپی ہوئی خوبصورت کتابیں افغان مہاجرین کی آمد یعنی 1980ء کے بعد آسانی سے ملنا شروع ہوئیں، وہ بھی پشاور میں۔ کم ازکم مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کہاں دستیاب تھیں۔ ہمارے آبائی کتب خانے میں کلاسیکل فارسی ادب کی تمام کتابیں موجود تھیںلیکن ساری کلکتہ یا دہلی کی چھپی ہوئی۔ ان کا سائز بڑا ہوتا تھا اور کاغذ اعلیٰ نہیں ہوتا تھا۔ ان میں سے اکثر اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ لیکن ایران کی چھپی ہوئی کتابوں کا اپنا ہی نشہ ہے۔ دیدہ زیب طباعت، اعلیٰ دبیز کاغذ اور ہرلحاظ سے خوبصورت۔ جب تک والد گرامی مرحوم ایران جاتے رہے، میرے لیے لاتے رہے، فروغ فرح زاد، نیمانشیج، نادر نادر پور اور دوسرے جدید شعرا کے مجموعہ ہائے کلام بھی لائے اور دیوان حافظ، گلستان سعدی اور شاہنامہ فردوسی کے نسخے بھی۔ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پشاور میں ایران کی مطبوعہ کتابوں کا بڑا مرکز ایک چھوٹی سی دکان ’’کتاب فروشیء خاور ‘‘ رہی ہے جو یونیورسٹی کے پولیس اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی تنگ گلی میں واقع ہے۔ کئی سال تک اس کے پاس جاکر بیٹھنا، قہوہ پینا، اپنی زنگ آلود فارسی کو صاف کرنا، اور کچھ کتابیں خریدنا، معمول رہا۔ نظامی کا خمسہ، منوچہردامغانی کا دیوان، بیدل کا دیوان اور کئی دوسری کتابیں وہاں سے ہاتھ آئیں۔ دیوان ابوسعید ابی الخیر کا جو نسخہ میرے خاندانی کتب خانے میں تھا، وہ دہلی کا مطبوعہ تھا اور بوسیدہ ہوچکا تھا۔ کتاب فروشی ٔ خاور‘‘ سے اس کا نیا ایڈیشن مل گیا جس میں عظیم ایرانی محقق استاد سعید نفیسی کا طویل مقدمہ بھی ہے۔ ان کتابوں کا دوسرا بڑا منبع کوئٹہ کی علمدار روڈ رہی ہے جس پر فارسی بولنے والے ہزارہ کی کتابوں کی دکانیں ہیں۔ جب بھی کوئٹہ جانا ہوا، زیادہ وقت ان دکانوں پر گزرا۔ عراقی اور انوری کے دواوین یہیں سے خریدے۔ اب جو کوئٹہ کے احوال ہیں، خاص طورپر ہزارہ کے حوالے سے، ان کے پیش نظر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ۔ یاراں فراموش کردند عشق!
کتابوں کا ایک اور منبع پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے سربراہ، دوست گرامی، پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کی ذات بابرکات بھی ہے۔ جب بھی کوئی کتاب میسر نہ آئی، اس صاحب اسلوب شاعر نے پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری سے نکلوا کر فوٹو کاپی کرائی اور پھر جلد کروا کر عنایت کی۔ کلیات فیضی ، اخلاق جلالی کا انگریزی ترجمہ، بہارستان جامی اور کئی اور نایاب کتابیں جو اس وقت فقیر کے کتب خانے میں موجود ہیں، نظامی صاحب کی محبت اور دریا دلی کی بدولت ہیں۔
بات لائبریریوں سے چلی تھی۔ ماتم یہ ہورہا تھا کہ اپنے وطن میں اب لائبریریاں عنقا ہیں۔ لاہور میں جس دن ایک ’’درآمدشدہ‘‘ جدید فاسٹ فوڈ کھلا تھا تو پہلے دن 35ہزار شائقین برگر تناول فرمانے تشریف لائے تھے۔ خوراک کی ضرورت ہمارے دماغوں کو نہیں معدوں کو ہے۔ ہم تو جاگیرداروں‘ سرداروں‘ چودھریوں اور خانوں کی قوم ہیں۔ یہ لائبریریاں اور یونیورسٹیاں کمی کمین لوگوں کے مشغلے ہیں۔ یہ جاپان یورپ اور امریکہ ہی کو مبارک ہوں، یہ کمی کمین ہی ہمارے لیے کاریں، کمپیوٹر، موبائل فون اور علاج معالجے کی مشینیں بھی بناتے ہیں۔ جب پڑھنے والے اور ایجادات کرنے والے موجود ہیں تو ہمیں سرکھپانے کی کیا ضرورت ہے؟