معاف کیجیے گا۔ یہ 2014ء ہے۔ بارھویں تیرھویں صدی کا عہد تاریک نہیں کہ دوسرے ملک کے اختیارات پر قبضہ کر لیا جائے۔ شرق اوسط کے ایک ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے روکا جائے۔ ہم اہل پاکستان اس زیادتی پر احتجاج کرتے ہیں اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر تاریخ کے‘ کیا کہنہ اور کیا نئے‘ اوراق بے شک چھان لیے جائیں‘ ثابت یہی ہو گا کہ یہ اعزاز کسی اور ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ہم واحد ایٹمی قوت ہیں اور یوں ایک اعتبار سے پورے عالم اسلام کے انچارج۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی دنیا ہم چلا رہے ہیں۔ عراق اور شام میں ہمارے لوگ برسر پیکار ہیں۔ افغانستان میں ہمارا عمل دخل ہے۔ طالبان کی پیدائش اور پرورش پر ہمارا دعویٰ ہے۔ خوست اور قندھار کے مسلمان، پاکستان میں ایک قدم دھرے بغیر، پاکستانی دستاویزات کی بنیاد پر حج کر آتے ہیں۔ چیچنیا سے لے کر بوسنیا تک، معاملات ہم نے سنبھالے۔ مغربی ملکوں میں قائم مدارس کو، جہاں شلوار قمیض کا ’’اسلامی لباس‘‘ پہننا لازمی ہے‘ ہم چلا اور چلوا رہے ہیں۔
جب یہ طے ہے کہ اسلامی دنیا کے مدارالمہام ہم ہیں تو سعودی عرب کے مفتی اعظم کون ہیں یہ فتویٰ دینے والے کہ چھٹی لینے کے لیے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ دینا اور لینا ناجائز اور گناہ ہے اور یہ کہ وہ ڈاکٹر جو اس طرح کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں اور جو ملازمین اس کے لیے درخواستیں دیتے ہیں دونوں گناہ گار ہیں۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہمارا پورا نظام تلپٹ کر کے رکھ دیں‘ ہمارا تو پورا سسٹم جھوٹی دستاویزات پر چل رہا ہے۔ کل کو مفتی صاحب یہ فتویٰ بھی دے دیں گے کہ مضروب اور مقتول کے بارے میں جو میڈیکل رپورٹیں پولیس والے عدالتوں میں داخل کرتے ہیں، اگر وہ جھوٹی ہیں تو وہ بھی گناہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہی مفتی صاحب نے یہ فتویٰ دیا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا بڑا گناہ ہے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کی جان لینا ارتکاب قتل ہے۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ہمارے حکمران سب سے پہلے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی خود کرتے ہیں اور اس کے بعد شاہراہوں پر گاڑیاں چلانے والوںکی اکثریت اس خلاف ورزی کا ڈنکے کی چوٹ پر ارتکاب کرتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پورے عالم اسلام کے ٹھیکیدار، عظیم پاکستانی، گناہ گار قرار دیے جائیں؟
کوئی ہے جو ان مفتی صاحب کو روکے۔ کل کو وہ یہ فتویٰ بھی دیں گے کہ ملاوٹ حرام ہے۔ جعلی ادویات بنانا گناہ ہے۔ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ پرسوں وہ یہ کہیں گے کہ فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے والی زمینوں پر قبضہ کرنے والے تاجر حرام خوری میں مبتلا ہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ پاکستانی اہل تجارت کی بھاری اکثریت مذہبی اور تبلیغی گروہوں سے وابستہ ہے۔ یہی تو وہ جاں نثار ہیں جو علماء کرام کی خدمت کرتے ہیں۔ انہیں ملبوسات پیش کرتے ہیں۔ گاڑیاں سواری کے لیے مہیا کرتے ہیں۔ وہ مہمان بن کر گھر اتریں تو بڑے بڑے ریفریجریٹر کوکا کولا اور سیون اپ سے بھر دیتے ہیں۔ یہی تو وہ تاجر ہیں جو چندے دیتے ہیں۔ حج اور عمرے کراتے ہیں۔ ختم پڑھواتے ہیں۔ قالین صفیں خرید کر بچھاتے ہیں۔ اگر ہمارے علما کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر، جھوٹی میڈیکل دستاویزات پر، ملاوٹ پر، ناجائز تجاوزات پر، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانے پر کوئی اعتراض نہیں تو دوسرے ملکوں کے مفتیان کرام کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا کیا حق ہے؟
مفتی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اسلامی معاملات میں خود کفیل ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسرے ملکوں کے مفتیان کرام کی پیروی کریں، دنیائے اسلام کو ہمارے علماء کرام کی اطاعت کرنی چاہیے۔ دنیا کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے علماء کرام کے ذہن کس قدر تخلیقی ہیں۔ ہمارے بعض علماء تو یہ بھی کرتے ہیں کہ اپنے ادارے ہی میں ایک کمرے کا نام کراچی رکھ دیتے ہیں اور دوسرے کا لاہور۔ پھر کوئی انہیں ملنے آتا ہے تو خدام عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کراچی گئے ہیں یا لاہور تشریف لے گئے ہیں۔ پھر یہ تخلیقی کارنامہ قومی اخبارات میں شائع ہو کر قبولیت عامہ حاصل کرتا ہے۔ کیا کسی دوسرے اسلامی ملک کے مذہبی رہنما ایسا کارنامہ پیش کر سکتے ہیں؟
ہم ادب و احترام کی خاطر خاموش رہتے ہیں‘ ورنہ ہم اہل پاکستان تو مسجدوں کے حوالے سے اس طریق کار کو بھی غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں جو سعودی عرب، کویت، یو اے ای، ترکی، مصر اور ملائشیا میں رائج ہے۔ اگر جھوٹے میڈیکل سرٹیفکیٹ کا استعمال ناجائز ہے اور اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی حرام ہے تو پھر یہ بھی سن لیجیے کہ مسجدوں کو ریاست کی تحویل میں دینا ہمیں بھی پسند نہیں! صحیح اسلامی طریقہ وہ ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ اگر ایک مسجد کا امام یا خطیب دنیائے دوں کو چھوڑ کر خلد آشیانی ہوتا ہے تو مسجد اس کے فرزند کی وراثت ہے۔ یہ سوال کہ فرزند اگر اہل نہیں تو کیا ہو گا، غیر اسلامی سوال ہے۔ ہر مسجد ایک خاندان کی تحویل میں ہونی چاہیے۔ باپ مرے تو بیٹا اس کا وارث ہو۔ بیٹا نہ ہو تو پوتا، ورنہ پڑپوتا۔ مفتی صاحب کو چاہیے کہ یہ نظام جو ہم پاکستان میں، جو اسلام کا قلعہ ہے، کامیابی سے چلا رہے ہیں‘ پورے عالم اسلام میں رائج کرائیں۔
کل کو خدانخواستہ اگر کوئی عالم دین یہ فتویٰ دے دے کہ دوسرے ملکوں سے سرمایہ کاری کو دعوت دینا اور خود، اپنا سرمایہ، سمندر پار رکھنا، منافقت ہے تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل کیسے رہیں گے؟ خود ہمارے ہاں ایک بار حافظ سعید صاحب عدالت میں چلے گئے کہ ہمارے حکمرانوں کا طرز رہائش اور معیار زندگی اسلام کے حوالے سے درست نہیں ہے۔ مثال میں حافظ صاحب کے وکیل نے برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش کی مثال دی جو مختصر ہے اور مثالی ہے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ مقدمے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور قبلہ حافظ صاحب بھی اس مقدمے کو منطقی انجام تک نہ لے جا سکے۔ کل کو اگر کسی نے فتویٰ دے دیا کہ محلات میں رہنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے تو ہمارے ہزاروں ایکڑوں کی شاہی رہائش گاہوں کا کیا ہو گا؟
نہیں! مفتی صاحب! نہیں! آپ ان معاملات میں نہ پڑیں۔ یوں بھی خود کش دھماکوں کے خلاف فتویٰ دے کر آپ ہمارے اہل علم اور اہل تقویٰ کے دل دکھا چکے ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔