جب قہقہے بکھیرنے والے بھی رونے رُلانے پر آجائیں تو سمجھیں کہ آخری حد آن پہنچی ہے۔ یوں بھی بتایا جارہا ہے کہ پاکستانی نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔ پہروں سی این جی سٹیشنوں پر انتظار کرنا، کبھی یوپی ایس کی بیٹریوں کو تلاش کرنا، کبھی جنریٹروں کی قیمتیں معلوم کرنا ، ہرآنے والے مہینے زیادہ سے زیادہ مہنگی ہوتی اشیائے روزمرہ سے گتکا کھیلنا کہ کون سی لی جائے اور کس کے بغیر گزارہ کرنا سیکھا جائے اور کون سی کتنی لی جائے۔ گھروں میں مالی معاملات پر جھگڑے ،بیوی بچوں کے اخراجات اور مطالبات۔ نتیجہ خودکشی یا چڑچڑے پن کی شکل میں۔ رہی سہی کسر اس خوف نے پوری کردی ہے کہ گاڑی یا موٹرسائیکل نہ چوری ہوجائے، بھتے کی پرچی نہ ملنی شروع ہوجائے اور خاندان کے کسی فرد کو اغوا کرنے والے نہ لے جائیں۔
ظریفانہ شاعری کے بادشاہ خالد مسعود نے، جسے اس کی افتاد طبع نے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹیں چھڑکنے کے کام پر لگایا ہوا ہے، اب لوگوں کو ڈرانے پر مامور نظرآتا ہے۔ خالد نے لکھا ہے کہ ملتان جیسے شہر میں بھی (جواس کے بقول بہت بڑا شہر نہیں ہے ) بھتہ خوری عام ہوگئی ہے۔ ’’لازمی‘‘ چندے کے نام پر بھتے کی پرچیاں تقسیم ہورہی ہیں۔ تاجروں کی سٹی گم ہورہی ہے کہ ابھی تو اتنی رقم کا مطالبہ ہے جودی جاسکتی ہے، کل کو ظاہر ہے یہ رقم پھولتے غبارے کی طرح زیادہ ہوجائے گی اور پھر استطاعت سے باہر چلی جائے گی۔ لیکن بزنس کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ رقم نہیں ہے، اصل مسئلہ وہ
عزتِ نفس ہے جو ہربار ذبح ہوتی ہے اور ملک کے آزاد شہریوں کی گردنوں میں رسیاں ڈالی جارہی ہیں۔ ان رسیوں کے دوسرے سرے کن پراسرار ہاتھوں میں ہیں ؟ یہ بات پولیس کو معلوم ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو معلوم ہے۔ اگر پولیس حکومت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ پھر تاجر ہی حکومت ہوں گے۔ یعنی حکومت اپنی جان بچانے کے لیے بھتے دیتی پھر رہی ہے، لیکن خالد مسعود نے ایک بات ایسی لکھ دی ہے کہ اگر پنجاب میں حکومت نام کی کوئی جنس ہوتی تو چلوبھر پانی ڈھونڈنے کے لیے راوی کا رخ کرچکی ہوتی۔ خالد نے لکھا ہے کہ ایک طرف تو پشتون برادری پنجاب کے طول وعرض اور اطراف واکناف میں کاروبار کررہی ہے، شہرتو شہر پنجاب کا کوئی قصبہ کوئی گائوں ایسا نہیں جہاں یہ برادری موجود نہ ہو، دوسری طرف اسی پشتون برادری کے بھائی پنجابیوں کو دھڑا دھڑ اغواکرکے وزیرستان کی ’’آزاد‘‘ سرزمین میں لے جارہے ہیں، سینکڑوں کے حساب سے گاڑیاں چُراکر اسی دیار جہاد میں جارہی ہیں، اغوا شدہ لوگوں کے اعزہ واقارب وزیرستان یا دوسرے قبائلی علاقوں ہی کا رخ کرتے ہیں۔ کاروں کے مالکان بھی وہیں طلب کیے جاتے ہیں۔ نمازیں ادا کرنے کے بعد اسلام کے سپوت، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کے غلام نہیں رہے اور ہمیشہ ’’آزاد‘‘ رہے ہیں، مغویوں کے
اور کاروں کے ’’سودے ‘‘ طے کرتے ہیں۔ کروڑوں روپے پنجاب سے ’’آزاد‘‘ علاقوں میں ٹرانسفر ہوتے ہیں ،یوں خوش قسمت مغوی زندہ واپس آتے ہیں اور گاڑیاں مالکان کے ’’حوالے ‘‘ کی جاتی ہیں، لیکن سب مغوی خوش قسمت ہوتے ہیں نہ سارے کاروں کے مالکان۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم پنجابیوں کی شہرت اور تھی ۔ غالباً میردردؔ نے کہا تھا ؎
چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
لیکن اب ہم پنجابی خود لوٹے جارہے ہیں ۔یوں بھی ہم پنجابی ہمیشہ سے صلح جُو اور امن پسند رہے ہیں۔ گن کر دیکھ لیجیے، درہ خیبر سے جو حملہ آور آیا، پنجاب سے اس طرح محفوظ گزرا جیسے بتیس دانتوں میں زبان محفوظ ہوتی ہے۔ پانی پت سے پہلے کبھی کوئی روک ٹوک نہ ہوئی بلکہ ہم پنجابی ’’مہمان نوازی‘‘ کے صدقے حملہ آوروں کے ہم رکاب ہوجاتے تھے۔ یہ صلح جوئی اور امن پسندی اب بھی اسی طرح جاری ہے۔ پنجاب کے دریا خشک ہو گئے لیکن ’’برداشت‘‘ اور ’’وسیع القلبی‘‘ کے چشمے اسی طرح فیض ابل رہے ہیں۔ ایک طرف اہل پنجاب نے اپنے بازاروں ،منڈیوں ،مارکیٹوں کے دروازے اپنے ان بھائیوں کے لیے کھول دیئے ہیں جو اٹک پار سے جوق درجوق ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں آرہے ہیں، آکر ہنسی خوشی آباد ہورہے ہیں اور کامیاب کاروبار کررہے ہیں، دوسری طرف ہم اہل پنجاب نے اپنے پیاروں کو اغوا کے لیے حاضر کردیا ہے ،تیسری طرف مانگ تانگ کر، برادری سے چندے کرکے، لاکھوں کروڑوں روپے تھیلوں میں ڈال کر قبائلی علاقوں میں خود بہ نفس نفیس حاضر ہوکر نذرانوں کی صورت میں نمازی پختون بھائیوں کو دے رہے ہیں تاکہ ان کے بچوں کی ’’محنت‘‘ٹھکانے لگے اور اغوا شدہ انسانوں اور چوری شدہ گاڑیوں کے مناسب دام انہیں ملتے رہیں۔ اس سارے کھکھیڑمیں اگر آپ پنجاب حکومت کو تلاش کررہے ہیں تو آپ احمق ہیں یا سادہ دل۔ پنجاب حکومت میٹروبس چلانے کی فکر میں ہے۔ چین کا دورہ ہویا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کی زیارت ، چھوٹے میاں صاحب بڑے میاں صاحب کے پہلو ہی میں پائے جاتے ہیں، شعرا تو غم دوراں سے نمٹنے کے لیے چند لمحے غم جاناں سے بھی چرا لیتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎
تو ذرا چند گھڑی پار افق پرسستا
میں ذرا دن سے نمٹ کر شب تار! آتا ہوں
مگر بھائی بھائی سے ایک لمحہ بھی جدا نہیں ہوسکتا۔ کاش بڑے میاں صاحب کو بھائی کے ساتھ ساتھ کوئی دوست بھی مل جاتا۔ لیکن یہ قصہ بھی الطاف حسین حالیؔ تمام کرچکے ہیں ؎
آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
بہرطور، یہ اب طے ہے کہ پنجاب حکومت کو بھتہ خوروں یا اغواکاروں سے کوئی دشمنی نہیں ہے، بلکہ جہاں تک بھتہ خوروں اور اغواکنندگان کا تعلق ہے، پنجاب حکومت کا وجود ہی کوئی نہیں۔ پنجاب حکومت رعایا کا معیار زندگی بلند کرنے کی فکر میں ہے۔ یعنی اس رعایا کا جو بھتہ خوروں اور اغواکنندگان سے بچ جائے گی۔ معیار زندگی بلند کرنے کے لیے میٹروبس اور بلٹ ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ ہم اس ضمن میں یہ مشورہ دیں گے کہ بھتہ خوروں اور اغواکنندگان کو ان بسوں اور ٹرینوں میں رعایتی نرخوں پر ٹکٹ دیئے جائیں تاکہ پنجاب بھر میں ’’کاروبار‘‘ کرنا ان کے لیے مزید سہل ہوجائے۔ رہے پنجاب کے عوام تو وہ اپنی حفاظت کا بندوبست خود کریں۔ مثلاً جب تک اغوا کا سلسلہ بند نہیں ہوتا، اہل پنجاب حفظ ماتقدم کے لیے ان لوگوں کے کاروبار کا بائی کاٹ کردیں جن کے بھائی بند اغوا کے کام میں ملوث ہیں۔
پس نوشت: تازہ ترین اطلاع کے مطابق راولپنڈی کے مشہور نرنکاری بازار کے تاجروں کو ’’محبت نامے‘‘ موصول ہوچکے ہیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_07_01_archive.html
“