کہتے ہیں کسی ملک کا بادشاہ مر گیا اور اس ملک کا عجیب قانون تھا بادشاہ کے مرنے کے بعد جو شخص سب سے پہلے محل میں داخل ہوتا اس کو بادشاہ بنا دیا جاتا یعنی اس کی قابلیت محض سب سے پہلے محل میں داخل ہونا تھی اتفاق سے جس دن بادشاہ مرا دوسری صبح ایک حلوائی بادشاہ کے محل میں داخل ہوا لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا اب آپ ہمارے بادشاہ ہیں اس نے بہتیرا کہا بھائی میں ایک حلوائی ہوں مجھے بادشائی کے کام نہیں آتے لیکن لوگوں نے نہ مانا الغرض اس حلوائی کو بادشاہ بنا دیا گیا بادشاہ بننے کے بعد اس نے پہلا آڈر پاس کیا کے شاہی لنگر میں حلوے کو بطور خاص ڈش کا درجہ دیا جائے حکم کی تعمیل ہوئی حلوہ خاص ڈش بن گیا.
کچھ وقت گزار دوسرے ملک کے بادشاہ کو خبر ہوئی کہ ساتھ والے ملک کا پہلا بادشاہ مر گیا ہے اس لیے اس نے اس ملک پر حملے کا پروگرام بنایا. خیر درباریوں نے آکے کر بادشاہ سلامت کو++
خبر دی کہ پڑوسی ملک کا بادشاہ حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے تو اس بادشاہ نے حکم دیا پکاؤ حلوا تے کھاؤ حلوا. لوگ ایسا ہی کرنے لگے کچھ وقت کے بعد بادشاہ کو خبر دی گئی کے حملہ آور ملک میں داخل ہو چکے ہیں. آپ کا کیا حکم ہے تو اس بادشاہ نے پھر سے کہا پکاؤ حلوہ تے کھاؤ حلوا چند دن بعد خبر دی گئی کے حملہ آور بس محل میں داخل ہونے والے ہیں تو یہ خبر سن کر حلوائی بادشاہ نے اپنی پوٹلی اٹھائی اور کہا ہم تو جا رہے ہیں البتہ آنے والے بادشاہ کو بھی حلوا کھلا دینا.
یہ تو تھی ایک فرضی کہانی لیکن ملک پاکستان کی کہانی بھی اس سے بہت ملتی جلتی ہے 73 سالوں میں ہم نے بادشاہوں سے لے کر وزیروں تک امپورٹ ہی کیے ہیں. پاکستان کے اکثریت سیاستدان سیاست پاکستان میں کرتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں میں ہیں یہی حال دوسرے اداروں کا بھی ہے وہ جنرل ہوں جج ہوں بیوروکریٹ ہوں یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں کام پاکستان میں کریں گے لیکن رٹائرمینٹ کے بعد دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں پاکستان کے 22 کروڑ غریب عوام کو چند ہزار اشرافیہ نے اپنا غلام بنایا ہوا ہے جن سے ہو صرف نعرے مرواتے ہیں دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا
بھٹو زندہ ہے روک سکتے ہو تو روک لو تبدیلی سرکار کم پیش یہی حال ہماری مزہبی جماعتوں کا بھی ہے ہم غریب عوام ان لیڈروں اور اشرفیہ کے لیے ایک دوسرے کو قتل تک کرتے ہیں رشتے داروں کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ لوگ کچھ عرصہ ہمارے اوپر حکمرانی کرنے کے بعد مزے سے باہر کی دنیا میں نکل جاتے ہیں اور ہم پھر کسی نئے شکاری کے ہاتھ لگ جاتے ہیں افسوس آج تک ہم نے اپنے اصل دشمنوں کو نہیں پہچانا جو ہم کو جذباتی بلیک میل کر کے اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کے ان لوگوں کی خاطر گالیاں بدتمیزی اور پتا نہیں کیا کیا کرتے ہیں دنیا ان لوگوں نے خراب کی اور اپنی آخرت ہم خود انہی لوگوں کے لیے خراب کر رہے ہیں محب وطن کا چورن بیچا جاتا ہے تو کہیں اسلام کا لبادہ اوڑھ جاتا ہے مداری ہیں سب اور ہم ناچنے والے بندر سے زیادہ کچھ نہیں. پاکستان کے قانون میں یہ لکھ دینا چاہیے کوئی بھی اعلیٰ عہدے پر رہنے والی یا سیاستدان جو وزیر رہ چکا ہو باہر رہائش نہیں رکھا سکتا کوئی جج کوئی جنرل کوئی بیوروکریٹ کوئی صحافی دانشور جو ملک میں اعلی عہدے پر رہ چکا ہو باہر رہائش نہیں رکھ سکتا اگر رہائش رکھے تو اس کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اس کی آنے والی نسلوں پر بھی پابندی لگا دی جائے کے کوئی اس کے بعد کسی اعلی عہدے پر یا سیاست نہیں کر سکے گا پھر دیکھنا ہمارا ملک کیسے ترقی نہیں کرتا ہمارے ہسپتال کیسے ٹھیک نہیں ہوتے سکول کالج الغرض ہر شعبہ مختصر مدت میں ہی درست ہو جائے گا اس سب کے لیے ہم کو پارٹی بازی اور نام نہاد محب وطنی سے نکل کر سوچنا ہو گا اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچنا ہو گا اور سب کو سٹرکوں پر انا ہو گا بنا کسی پارٹی یا ادارے کی حمایت صرف اور صرف اپنی نسلوں کے لیے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ان لوگوں کی نسلوں کی غلامی کریں گی. دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے آمین ثم آمین