::: " ہاولویں کا تہوار، تاریخ ، ثقافت اور مذھب کے تناظر میں "::
" ہالوویں (Halloween) مغربی معاشرے کا معروف تہوار ہے۔ جو اب کچھ ایشائی ، لاطینی امریک اور افریقی ممالک میں بھی ایک حد تک " تفریحی" طور پر منایا جاتا ھے۔
اکتوبر کی آخری شام کو امریکہ بھر میں ہالووین کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر گھروں اور عوامی مقامات کو بھوت پریت، چڑیلیوں کے ڈراؤنے ڈھانچوں سے سجایا جاتا ہے 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہوناشر وع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کردیتے ہیں۔
ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔ ہالووین مغربی تہذیب کا تہوار ہے جس کا آغاز آئرلینڈ کے قبائل نے کیا۔ ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے تہوار منانا اسلام میں جائز نہیں بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرام ہے۔ لیکن مشترک معاشرے اور مغربی دنیا میں رہتے ہوئے مسلمان ایسے تہواروں میں بطور مہمان شریک ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے غلط فہمیوں اور باہمی نفرت و کھچاؤ کی فضاء کے خاتمے میں مدد ملے گی اور اسلام کے تصورِ رواداری کو فروغ ملے گا۔ ایسی صورت میں تہوار کی مبارکباد یا تحفہ وغیرہ دینا جائز ہے، بشرطیکہ دل میں ان تہواروں کی عظمت ہرگز نہ ہو۔ہالو وین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ موسم گرما کے اختتام کے ساتھ یعنی31اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور امریکہ میں تو25اکتوبر سے شروع ہوجاتا ہے ان کے خیال میں بھوتوں کے جو لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور وہ فعل کی روح زمین کا دورہ کریں گے ہالو وین کی ڈرائونی روایت اس ترقی یافتہ دور میں بھی منائی جاتی ہے اور یورپ و امریکہ میں اس دن کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کدو کے پیٹ سے بیج نکال کر اس میں دیئے رکھ کر روشنی کی جاتی ہے کدو ہی کو مختلف اشکال میں ڈھالا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ امریکہ میں اس کی ابتدا1921ء میں شمالی ریاست مینسوٹا سے ہوئی، پھر اسی سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا، پھر آہستہ آہستہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا، پھر اس نے کاروباری سطح پر بھی کامیابی حاصل کرلی۔ انیسویں صدی کے آخر تک امریکہ میں ہالو وین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے۔ ان پارٹیوں میں کھانے کے علاوہ چہرے پر خوفناک ماسک چڑھائے جاتے، اب بھی یہ تہوار زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹس، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈرائونے چہروں اور خوفناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر کدو پیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈرائونے ڈھانچے کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ جب ان کے قریب سے گزریں تو خوفناک دل دہلانے والا قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ کہا جائے کہ اس تہوار کو خوف و ہراس سے منسوب کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، بھلے اس کاروباری قسم کے تہوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں، مگر بھوت کا بہروپ کئی کمزور حضرات کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔ گھر گھر سویٹ مانگنے جانے والے لوگ اس بہروپ میں چور، ڈاکو بھی ہوسکتے ہیں اور آج کل برطانیہ میں اسی سلسلے میں ایک خبر بھی گشت کررہی ہے کہ کوئی کلون امریکہ سے آئے گا اور کئی لوگوں کو قتل یا دوسرا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ہیبت ناک قسم کی سچویشن سوٹ نہیں کرتی، اسے عام طریقے سے منایا جائے تو بہتر ہے۔
۔امریکہ میں جیس کپ اوپر کہا گیا ہالووین کی ابتدا 1921ء میں شمالی ریاست منیسوٹا سے ہوئی اور اس سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا۔ پھر رفتہ رفتہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا اور پھر اس نے قومی سطح کے بڑے تہوار اور ایک بہت بڑی کاروباری سرگرمی کی شکل اختیار کرلی۔ امریکہ میں اس تہوار کو آئرش میاجریں نے روشناس کروایا۔ پاکستاں ہندوستان میں مغرب کی دیکھا دیکھی میں ہالویں کا تہوار منایا جاتا ھے۔ لیکن اسلام کی رو علمائے دین کا کہنا ھے " ایسے تمام افعال اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے پھوٹتے ہوں اور ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں، ان کو بطور تہوار منانا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
من تشبه بقوم فهو منهم
’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
(ابوداؤد)
لیکن ایسے اعمال جن کا تعلق کسی مذہب و تہذیب سے خاص نہ ہو بلکہ مختلف قومیں بلاتخصیص ان کو انجام دیتی ہوں، ان کا کرنا مباح ہے۔"۔۔۔ جرمنی کےشہر بیمبرگ کے اسقف اعظم لودویگ شیک (Ludwig Schick) نے اس تہوار کے بارے میں کہا کہ "ہالووین تہوار میں شیطان پرستی، جن اور بری روحوں سے تعلق کی وجہ سے ہماری اقدار ضائع ہورہی ہیں۔ ہمیں یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ شیطان پرستی کے ذریعے ہماری مسیحی تہذیب پامال ہو۔ میں تمام افراد بالخصوص اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس تہوار کا راستہ روکیں۔ مسیحیت میں قدیسین کا تہوار منایا جاتا تھا جس سے کرامت، انسان کی ابدیت، موت اور قیامت وغیرہ کا درس ملتا تھا۔ یہ اعمال انسان کے دل سے خوف مرگ کو ختم کرنے کا سبب بنتے تھے مگر ہالووین ایک شیطانی فکر ہے جس سے ہماری تہذیب نابودی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے"۔
اسی طرح پولینڈ کے کیتھولک کلیسا نے بھی ہالووین کو شیطانی تہوار گردانتے ہوئے اپنی ویب سائٹ میں لکھا، "ہالووین کی ترویج جوانوں کو فساد کی طرف بلاتی ہے۔ جدید شیطان پرستی کا موجد اینتھون لاوی، ہالووین کی رات کو شیطان پرستی کی سب سے بڑی رات شمار کرتا تھا اور ہمیں چاہئے کہ اس تہوار کے شیطانی آداب و رسوم سے ہوشیار رہیں"۔
گذشتہ زمانے میں یہ جشن اس لیے منایا جاتا تھا تاکہ مرجانے والوں کی پاک روحیں اپنے اہل خانہ سے رابطہ بناسکیں مگر شیطان پرستی کا رسوخ بڑھنے کے بعد اب دینی مظاہر کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور بری روحوں اور شیاطین و اجنہ سے رابطہ بنانے کا جشن منایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس تہوار میں ایسے کپڑوں اور اشیاء سے استفادہ کیا جاتا ہے کہ جو نفسیاتی اور روحانی مشکلات رکھنے والے افراد سے متعلق ہیں جس کی وجہ سے ایسے افراد کا مذاق بنتا ہے۔ انہیں تمام باتوں کی وجہ سے مغربی سرزمین پر اس طرح کے تہوار کے خلاف مخالفت ایک لہر چل پڑی ہے اور نمایاں شخصیتیں ایسے تہواروں پر تنقیدیں کرتی رہتی ہیں۔ ہر امعیک صدر وائٹ ہاوس میں ہالوویں کا تہوار کو بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں اور یہاں بچوں کو مدعو کیا جاتا ھے ۔ اور صدر امریکہ اور خاتون اول بچوں کو اپنے ہاتھوں سے ٹافیاں دیتی ہیں۔ ہالوویں کے اس تہوار کو ہندوستان میں " میٹھی، ڈراونی دیوالی" بھی کہا جاتا ھے۔ میری یہ تصاویر میرے دوست کے گھر کی ہیں۔ میں ان کی دعوت پر ان کا یہ ہالویں کا ڈیکوریش دیکھنے گیا تو انھوں نے مجھے لذید میٹھی " پمکن "{پیٹھے} کی "پائی"{PIE} کھلائی۔ اور سیب اور دال چینی کی شہد سے بنائی ہوئی میٹھی گرما گرم چائے بھی پیش کی۔ ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔