جناب سیدھی سی بات ہے کہ ہم نے آج تک گھسیٹا خان کا حلیم کبھی نہیں کھایا البتہ اپنے والد اور دادا سے اس کا نام ضرور سنا تھا۔ پھر جب کبھی صدر جانا ہوتا تو یہ گھسیٹاخان کے حلیم کا بورڈ بھی نظر آجاتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا مشہور و معروف ہونے کے باوجود گھسیٹا خان بلکہ اب تو حاجی گھسیٹا خان کا حلیم اپنی قدیم جگہ تک ہی محدود ہے۔
ہماری والدہ صاحبہ ہمیشہ ہمیں باہر کھڑے ہو کر کچھ بھی کھانے پینے سے سختی سے منع کرتی تھیں۔ اور بازار کا حلیم تو قطعی ممنوع تھا۔
البتہ اسکول میں ہم چنا چاٹ دہی بڑوں والی بہت شوق سے کھاتے تھے اور اب بھی یہ ہماری پسندیدہ ہے۔ جی جناب کالج کے باہر کی چنا چاٹ تو ایک فینٹیسی ہے۔ گورنمنٹ کالج فار بوائز ناظم آباد غالب لائبریری کے ساتھ ۔ اف وہ دن اور دوستوں کے ساتھ چنا چاٹ میں ایکسٹرا پیاز ڈلوا کر کھانا۔
کوئ لوٹا دے وہ بیتے ہوئے دن
کراچی کی پوش مارکیٹوں میں یہ چنا چاٹ پاپڑی دہی بڑے اور خوب ساری پیاز اور ہری مرچ کے ساتھ جب ایک مخصوص مصالحہ چھڑک کر کھائ جاتی ہے تو واللہ لطف ہی آجاتا ہے۔ وہ مخصوص مصالحہ ہی دراصل بازار کے دہی بڑے اور چنا چاٹ کی جان ہے۔ ہر کسی کو یہ ڈارک برائون رنگ کا مصالحہ بنانا نہیں آتا۔
بہادر آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں البتہ ہم نے حلیم کھایا ہے جو مزیدار تھا۔ اسی طرح گلبرگ میں واقع مزیدار حلیم والے کا بھی حلیم کھایا ہے جو بلاشبہ انتہائ مزیدار ہوتا ہے۔ اب تو ٹن پیک میں بھی دستیاب ہے۔
حلیم کا اصل لطف اس کے ساتھ موجود لوازمات کے ساتھ ہی آتا ہے۔ جب تک حلیم کے ساتھ خوب ساری کرکری برائون پیاز، لیموں، ادرک اور ہری مرچ کی ہوائیاں نہ ہوں میں تو حلیم نہیں کھاتا۔
اگر آپ نے دیکھا ہو کہ مزار قائد کے عقب میں ایک کاسموپولیٹن کلب ہے وہاں ہر سال دعوت حلیم ہوتی تھی۔ کیا ہی ذائقہ دار حلیم ہوتا تھا۔
ویسے بازاری حلیم ہوتا مشکوک ہی ہے۔ پاکستان میں حلیم کا کوٹا محرم الحرام میں پورا کرلیا جاتا ہے۔ محرم میں اتنا حلیم کھانے کو ملتا ہے کہ کم از کم چھ ماہ تو پھر حلیم کھانے کی اشتہا ہی نہیں رہتی۔ پھر اگر کبھی موڈ ہوتو گھر میں شان حلیم کے پیکٹ کی مدد سے حلیم تیار کرلیا جاتا ہے لیکن ہم اس میں تھوڑے سے جو اور گیہوں اپنی طرف سے ایکسٹرا بھی ڈالتے ہیں جس سے حلیم کے سوندھے پن میں اضافہ ہوجاتا ہے اور بہت زیادہ چٹپٹا پن بھی ختم ہوجاتا ہے۔
جناب یہ تو لکھ لیجئے کہ ساڑھے چھ سو روپے کلو والا گوشت بازاری حلیم والے خواہ کتنے ہی مشہور اور ریپوٹیشن والے ہوں نہیں ڈال سکتے کہ پھر حلیم کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ حلیم میں بازار والے سری کلے اور دیگر ردی گوشت کا استعمال ہی کرتے ہیں جو شاید قصاب ان کو ڈیڑھ دو سو روپے کلو فروخت کردیتا ہوگا یا شاید اس سے بھی کم۔ جو ظاہر سی بات ہے کہ گھٹ جاتا ہے۔
میں نے قصاب کی دکان پر وہ جو چھیچھڑے اور گوشت بناتے وقت کترنیں اور ردی کاٹ کر الگ کی جاتی ہے کا الگ سے ڈھیر لگتے دیکھا ہے جو سارا دن ایک جگہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ دن بھر اس پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔ شام کو تین چار بجے قصاب اس پر پانی کا چھینٹا مار کر باریک قیمہ مشین سے نکال دیتے ہیں۔ سموسے والے ان کے مستقل گاھک ہیں جو اس ملغوبے سے قیمے کے خستہ کرارے سموسے بناتے ہیں۔ بس چٹپٹے مصالحے اور ہری مرچ اجوائن وغیرہ اس کی بو اور بھکراند کو کم یا ختم کردیتے ہیں۔ بھلا سوچئے کہ چار پانچ سو روپے کلو کے قیمے سے کتنے سموسے بن سکتے ہیں اور پھر ایک سموسے کی قیمت کیا ہوگی۔
حلیم تو خیر چھوڑئے لیکن بازاری قیمے کا سموسہ کبھی بھول کر بھی نہ کھائیے گا۔ یقین کیجئے کہ اس میں ایسی عجیب بساند اور کچا پن ہوتا ہے کہ جس نے اس کا قیمہ دیکھا ہے وہ اس کا ایک بائٹ تک نہیں لے سکتا۔ اگر لے گا تو کھایا پیا سب باہر۔ اس سلسلے میں کسی بڑی سے بڑی دکان پر بھی بھروسہ نہ کیجئے گا۔
امریکہ سے ہمارے انتہائ محترم بزرگ دوست جناب مسعود قاضی جو ماضی کے کراچی کی رگ رگ سے واقف ہیں لکھتے ہیں کہ،
گھسیٹا خان…
گھسیٹا خان کی لذیذ حلیم…. دو آنے کی پلیٹ…… اس زمانے میں پیٹ بھر کر کھائ جاتی تھی
یہ شاید کسی کو علم نہیں کہ اس حلیم میں کیا کیاڈالا جاتا تھا…
زرا غور کریں…..
محلہ محلہ گھوم کر بھوسی ٹکڑے خریدنے والے لوگ ان ٹکڑوں کا کیا کرتے تھے……….خیر.. رھنے دیں
اگر بتا دوں تو آپکی بھوک مرجائے گی
…
جیکب لائینز میں صدر دواخانہ کے کمپاؤنڈ کے پیچھے کچی پکی. جھونپڑیون کا سلسلہ تھا…..
ان جھونپڑیوں کے آگے ایک دو ایکڑ کا کھلا میدان تھا..
یہاں اکثر و بیشتر خانہ بدوش لوگ اپنا ڈیرہ جمائے رکھتے تھے.
اس میدان میں کٰئ چولھے مستقل گڑے ہوئے ہوتے تھے
جس میں بڑی بڑی دیگوں پر رات. پھر حلیم پکتی اور صبح سویرے گھوٹی جاتی تھی..
گوشت کا نظام یہ تھا کہ جیکب لائنز کی نرسری کے عقب میں ایک قصائ پاڑہ تھا جس میں زیادہ تر بھینس کے گوشت فروخت کرنے والے قصاب تھے…. انکے ہاں کا بچا کھچا گوشت لوتھڑوں کی شکل میں چارپائیوں پر بھنکتی ہوئ مکھیوں کے زیر سایہ, کئ گھنٹے پڑا رھتا. پھر دھو دھلا کر دیگوں میں پکایا جاتا.
. البتہ مصالحے زبردست چٹخارے والے ہوتے تھے…
صبح جب حلیم گھٹ جاتی تو پھیری والے… لائین لگا کر اپنی.اپنی حسب استطاعت. اور. حسب ِضرورت …ایک ڈونگہ …دو ڈونگہ حلیم اپنے ریڑھی پر سجی ھوئ ، چم چم چمکیلی صاف شفاف دیگوں میں ڈلوالیتے
البتہ …نمک مرچ اور پیاز لیموں ان کے اپنے ہوتے.تھے
بعد وہ پھیری والے دیگ کے نیچے اپلے جلا کر… اسکولوں کا رخ کرتے جہاں بھوک کے مارے بچے انکے منتظر ہوتے