ہر شخص کی نوجوانی میں ایک ایسا وقت یا ایسا لمحہ ضرور آتا ہے، جب نوجوان لڑکے، لڑکیوں میں جذباتیت عروج پر ہونے کی وجہ سے، وہ ہر چیز کو محض جذبات کی نظر سے ہی دیکھنے کے قائل ہوتے ہیں، وہ اپنی پڑھائی یا ابتدائی کاموں میں فیل ہونے، ناکام ہونے یا ہارنے جیسے نتائج سے کامیابی کا فارمولا کشید کرنے کی بجائے اپنی زندگی کے خاتمے کے متعلق سوچنے لگ جاتے ہیں.
وہ ہر بات پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ رد عمل بنا سوچے سمجھے ہوتا ہے، ردعمل دینا بہت آسان ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات کے متعلق کبھی سوچتے ہی نہیں کہ ہمارا ردعمل کسی عمل کا فوری نتیجہ تھا، یا وجوہات جاننے کے بعد سوچا سمجھا تھا؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ، دکھوں اور مصیبتوں کی آزمائش میں مبتلا ایسی ہی ایک لڑکی نے، اپنے والد سے شکایت کے انداز میں کہا کہ، اس کی زندگی دکھوں سے اس قدر بھر چکی ہے کہ، وہ بے بس ہوکر سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ، اسے حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے، زندگی سے فرار ہوجانا چاہیے، اور یہی سب سے آسان کام ہے ، وہ نہیں جانتی کہ زندگی کیسے گزرے گی، جیسے ہی ایک مسئلہ حل ہوتا تھا تو، جلد ہی کوئی دوسرا مسئلہ پیدا ہوجاتا تھا، اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ہر وقت مسائل سے لڑتے لڑتے تھک چکی تھی۔
اس کے والد، باورچی تھے ، اس نے اپنی بیٹی کی تمام باتیں تحمل سے سنی اور اس کے بعد اسے باورچی خانے میں لے گئے۔ وہاں اس نے تین برتنوں کو پانی سے بھرا، چولہے میں آگ جلائی، اور ہر ایک برتن کو الگ الگ تیز آنچ پر رکھ دیا۔ جب تینوں برتنوں میں پانی ابلنے لگا، تو اس نے ایک برتن میں آلو، دوسرے برتن میں انڈے اور تیسرے برتن میں کافی کے بیج ڈال دیے ۔
پھر اس نے خاموشی سے اپنی بیٹی سے ایک لفظ کہے بغیر اسے بیٹھنے کو کہا، اور مختلف برتنوں میں مختلف اشیاء کو ابلنے دیا۔ بیٹی، بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتی اور سوچتی رہی کہ اس کا والد، کوئی حل بتانے کی بجائے یہ سب کیا کر رہا ہے۔
چند منٹ گزرنے کے بعد، اس نے تمام چولہے بند کر دیے. پھر ایک برتن سے آلو نکال کر ایک پیالے میں رکھ دیے۔ دوسرے برتن سے ابلے ہوئے انڈوں کو نکال کر ایک پیالے میں رکھ دیا۔
اس کے بعد اس نے کافی والے برتن کو چولہے سے اتارا، کھولتے ہوئے پانی کو ایک کپ میں ڈال کر بیٹی کے سامنے رکھ دیا، اور اسکی طرف متوجہ ہو کر پوچھا۔
’’بیٹی، کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘
’’آلو، انڈے اور کافی،‘‘ اس نے عجلت سے جواب دیا۔
اس کے والد نے کہا، ‘قریب آؤ اور غور سے دیکھو، آلو کو چھو کر دیکھو ۔’ اس نے ایسا ہی کیا اور دیکھا کہ وہ نرم ہوچکا ہے ۔ اس کے بعد اس نے اسے ایک انڈا اٹھا کر، اسے توڑنے کو کہا، چھلکا اتارنے کے بعد، اندر سے نکلنے والے سخت ابلے ہوئے انڈے کا مشاہدہ کیا۔ آخر کار اس کے والد نے اسے کافی کا گھونٹ بھرنے کو کہا۔ کافی کا ذائقہ اور بھرپور خوشبو اس کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئی۔
’’ابا جان ، میں کچھ سمجھ نہیں پائی، اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
لڑکی کے والد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آلو، انڈے اور کافی کے بیج، ان میں سے ہر ایک کو ایک جیسی مصیبت اور ایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا یعنی بھڑکتی ہوئی آگ پر رکھا ہوا ابلتا ہوا پانی۔
تاہم، ایک جیسی مصیبت کے باوجود، ہر ایک نے مختلف طریقے سے ردعمل ظاہر کیا.
سختی جھیلنے کے بعد، آلو جو دیکھنے میں سخت اور مضبوط لگتا تھا، بظاہر جس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ اپنے اندر لچک نہیں رکھتا، وہ ابلتے ہوئے پانی میں نرم اور کمزور ہو گیا۔
انڈا نازک تھا، ہلکی سی چوٹ اسے توڑنے کے لیے کافی تھی، پتلا بیرونی خول اس کے اندرونی مائع حصے کی حفاظت کرتا تھا، جب تک کہ اسے ابلتے ہوئے پانی میں نہ ڈالا جائے۔ پھر انڈے کا اندرونی حصہ تبدیل ہوکر سخت ہو گیا۔
تاہم، کافی کے بیج سب سے منفرد نکلے ۔ کھولتے ہوئے پانی کا سامنا کرنے کے بعد، بیجوں نے سارا منظر نامہ اس طرح تبدیل کردیا کہ اسی ابلتے ہوئے پانی کو ایک نئی چیز میں ڈھال دیا ۔
’’تمہیں خود سے سوال کرنا چاہیے، کہ تم کون ہو؟‘‘ اس نے اپنی بیٹی سے پوچھا۔ ‘جب تکلیف دہ وقت آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے، تو آپ کیسے جواب دیتے ہیں؟ کیا آپ آلو، انڈا یا پھر کافی کے بیج ہیں؟
ہم میں سے ہر کوئی ہر وقت کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے، ہمارے ارد گرد یا ہمارے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ انہونی ہوتی رہتی ہے، وقت کے تیز رو دھارے میں بہنا ہے یا وقت کے دھارے کو ازسر نو تبدیل کرنا ہے ، یہ سب ہمارے اختیار میں رہتا ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں پر ردعمل کیا دیتے ہیں اور اس ردعمل پر برتاؤ کیسا کرتے ہیں، یاد رکھنا، ہماری جہدوجہد ہمیشہ مثبت اور درست سمت میں ہونی چاہیے، ہمیں سیکھنا ہے کہ ہم اپنے اچھے برے تجربات میں سے ہمیشہ بہترین چیز کیا اخذ کرسکتے ہیں.
انگریزی ادب سے ماخوذ
آزاد اردو ترجمہ : توقیر بُھملہ
نشر مکرر
توقیر بُھملہ
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...