ایک لمحے کے لیے رک جائیں اور کسی بھی زاتی پسند نا پسند کو پس پشت ڈالتے ہوے ایک بار وزیراعظم عمران خان کی بطور اپوزیشن رہنما کنٹینر پر کی جانے والی تقاریر یاد کریں ۔ ہر بات عوامی امنگوں کی ترجمانی کررہی تھی ۔پٹرول کی قیمت اس لیئے بڑھتی ہے کہ مافیا کی حکومت ہے ۔بجلی کے بلوں میں اضافہ منظور نہیں لہذا میں اپنے بل جلانے لگا ہوں پس اے عوام آپ بھی سول نافرمانی کرتے ہوئے بل ادا مت کریں اور اورسیز پاکستانیوں آپ بینکوں کے زریعہ اپنی رقم مت بھیجیں ، اگر قرض لینا پڑے تو میں خودکشی کو ترجیح دوں گا، نوجوانوں بے فکر رہو تمہارے لیے ایک کروڑ نوکریاں لارہا ہوں، غریب لوگو تمہارے لیئے پچاس لاکھ گھر بنائیں گے ۔سب کا احتساب ہوگا امیر اور غریب میں فرق نہیں ہوگا، پہلے سو دنوں میں جنوبی پجاب صوبہ اور اس کے علاوہ بھی وہ بہت کچھ کنٹینر پر کھڑے ہو کرکہا گیا جو عام شہری سننا چاہتا تھا۔
اس کے بعد انتخابات ہوئے اور کپتان بنی گالہ سے وزیراعظم ہاوس پہنچا تو امتحان شروع ہوگیا۔وعدوں کو عملی جامہ پہنانا تھا ایک نئے سفر کو شروع کرنا تھا نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی تھی۔اب اس تین سالہ دور کو یاد کریں ۔ہر وعدہ ہر عہد اور ہر دعویٰ ریت کا گھروندہ ثابت ہوا۔آٹا ، چینی ، انسانی زندگی بچانے والی ادویات ، پٹرول ، بجلی ، گیس ، ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر اور بے رحم احتساب کے زریعے ملکی دولت کی واپسی کے وعدے سوائے جھوٹ کے کچھ نا تھے۔کچھ بھی تو نہیں ہواکوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ستم تو یہ ہے کہ کسی بات پر پشیمانی بھی نہیں ہے ہر وعدہ خلافی پر سو طرح کی دلیلیں ہیں ۔وزیر مشیر سارا دن میڈیا پر بیٹھ کر ترقی کے دعوے کرتے ہیں اپنی بہترین پرفارمنس کا احوال دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے
عام آدمی کو دو وقت کی روٹی چاہیے یہ سادہ سی بات کیوں کسی کو سمجھ نہیں آتی۔یہ کیسی طرز حکمرانی ہے کہ قرض لیئے جاو اور ملک چلائے جاو ۔پہلے بھی یہی کچھ ہوتا تھا تو اب بھی وہی ہورہا ہے ۔تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ ماضی کے حکمرانوں سے بہتر کیسے ہوئے ۔چلو اب تک جو ہوا سو ہوا ستم تو یہ ہے کہ منی لانڈرنگ بھی رک گئی اور کرپشن کا تو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے پھر ملک کے مالی حالات کیوں خراب ہیں جبکہ ٹیکس بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ جمع ہورہا ہے مگر اس کے باوجود غیر ملکی مالیاتی اداروں کا ہم پر قرضہ 118 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے ۔حالت یہ ہےکہ وزیرخزانہ شوکت ترین امریکہ روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے نئے قرض کی بات کریں گے جبکہ آئی ایم ایف نے 6ارب ڈالر کے قرض کے لیے ایک پیکج تیار کیا ہوا ہے
اب یہ پیکج کیا ہے مطلب کن شرائط پر قرض ملے گا تو زرائع کے مطابق 6 ارب ڈالر کے پیکج کے لیے تین شرائط رکھی گئی ہیں پہلی شرط کہ قدرتی گیس پر سبسڈی ختم کرنا ہوگی اور قدرتی گیس کی قیمت 35 فیصد تک بڑھانا ہوگا،دوسری شرط یہ کہ بجلی کے ٹیرف میں مزید 2 روپے فی یونٹ اضافہ کرنا ہوگا اور تیسری شرط یہ کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 160 روپے لیٹر تک بڑھانی ہوں گی ۔ اب اگر ان شرائط پر حکومت قرض لیتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہےکہ ملک میں مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔جبکہ عالمی مالیاتی ادارے مزید مہنگائی کی پیش گوئی کرچکے ہیں ۔یہ ہے اس تبدیلی سرکار کی معاشی کارکردگی جس کا اقتدار میں آنے سے پہلے دعویٰ تھا کہ اس کے پاس 100 معاشی ماہرین کی ٹیم موجود ہے
چلیں معیشت ایک مشکل کام تھا ٹھیک نا ہوسکی کوئی بات نہیں ۔توشہ خانہ پر اپنا مذاق بنوانے کی کیا ضرورت تھی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر تحفے کو پبلک کرنے پر پابندی کیوں ہے؟اور دوسروں ملکوں سے ملنے والے تحاف کی تفصیلات بتانے سے حکومت کیوں شرما رہی ہے۔اس کے بعد حکومت نے وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کو افشاں کرنے کی مہلت مانگ لی جس کو عدالت نے منظورکرتے ہوئے سماعت ملتوئی کردی۔اب تحائف کو افشاں کرتے ہیں تو مصیبت اگر نہیں کرتے تو پھر مصیبت مطلب ہر دو صورتوں میں جان نہیں چھوٹنے والی اور اپوزیشن نے مزید تماشہ لگانا ہے
تماشہ تو حکومت نے ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹی فیکشن کو بروقت جاری نا کرکے بھی کیا ہے ۔ایک تعیناتی جس پر مشاورت ہوچکی تھی اس کے بعد بھی محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر اس معاملے کو لٹکائے رکھنا کہاں کی دانشمندی ہے ۔اب حکومتی فیس سیونگ کی خاطر تین نام جناب وزیراعظم کو بھجوائے جارہے ہیں جن میں سے وہ کسی ایک کا انتخاب کریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس نام کاانتخاب کرتے ہیں ۔اگر تو وہی نام ہے جو پہلے دن سے لیا جارہا ہے تو کیا فیس سیونگ ہوجائے گی۔اور اگر وزیراعظم اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے کوئی اور نام سلیکٹ کرتے ہیں تو بلاول بھٹو زرداری کا لگایا گیا سلیکٹڈ کا الزام دھل جائے گا۔
کون سمجھائے کے حکومتیں اہم اداروں کی تعیناتیوں کا اس طرح مذاق نہیں بناتیں یہی کام خاموشی اور خوش اسلوبی سے بھی ہوسکتا تھا مگر نہیں ہوا اور فیس سیونگ مانگی گئی ۔چلیں یہاں تو فیس سیونگ مل گئی مگر آئندہ عام انتخابات میں جن وعدوں پر عمل نہیں کیا اس پر عوام سے کیسے فیس سیونگ ملے گی ۔بدترین مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری کے بعد عوام سے خیر کی امید رکھنا سوائے خوش فہمی کے کچھ نہیں۔کپتان کو اگر فیس سیونگ چاہیے تو فی الفور مہنگائی ختم کرئے ، عوام کو نوکریاں دے، بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی کرئے پٹرول کے نرخ گھٹائے اور یہ کپتان کا عوام پر احسان نہیں ہے بلکہ وہ وعدئے ہیں جس کی بنا پر تبدیلی سرکار اقتدار میں آئی ہے
تحریر: ملک سراج احمد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...