حکومت کرے تو کیا کرے؟
سنا ہے حکومتی رٹ اسلام آباد میں بھکاری بنکر ڈنڈے والوں سے بھیک مانگتی نظر آرہی ہے،اس کے چہرے پر اس بھیک کے نتیجے میں تھپڑ پڑ رہے ہیں ،حکومتی رٹ لباس سے بے لباس ہوچکی ہے یعنی ننگا رقص کرتی نظر آرہی ہے ،لیکن اس پر کوئی رحم کرنے کو تیار نہیں ،سب ہی شہر اقتدار میں اس پر ہنس رہے ہیں ۔حکومتی رٹ کو دھچکوں پر دھچکے لگ رہے ہیں ،سامنے عدالت کا کنواں ہے ،پیچھے دھڑنے والوں کی ہٹ دھڑمی کی کھائی ہے ،حکومت بھی حکومتی رٹ کی مدد کرنے سے کترا رہی ہے ،حکومت نے حکومتی رٹ کو سمجھایا ہے کہ اگر ڈنڈہ اٹھالیا گیا تو حالات خراب ہو جائیں گے جس پر حکومتی رٹ نے روتے ہوئے کہا ہے کہ ظالمو مجھے کپڑے تو لادو تاکہ میرے ننگ کو ہر ایرہ غیرہ نہ دیکھ سکے ۔لیکن یہ مدد بھی نہیں کی گئئ۔جسٹس شوکت صدیقی بھائی عرف اسلام آباد ہائی کورٹ والے نے حکومت کو ایک اور ڈیڈلائن دے دی ہے ،یہ ڈیڈ لائن 23 اکتوبر تک دی گئی ہے ۔کہا گیا ہے کہ اس ڈیڈلائن تک دھڑنا ختم کرایا جائے ورنہ ،جی ورنہ وہی ہوگا جو ورنہ کے ساتھ ہوا تھا ۔حکومت بیچاری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہاں سے زخم کھائے اور کہاں سے نہ کھائے اور کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھے ،کیونکہ سب ہی اس حکومت کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔حکومت کو دھڑنے والے گالیاں دے رہے ہیں ،میڈیا والے گالیاں دے رہے ہیں ،سیاستدان گالیاں دے رہے ہیں ،طاقتور حلقے حکومت کے ساتھ کیا کررہے ہیں ،اس بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں ۔البتہ یہ معلوم ہے کہ دھڑنے میں مولوی ،علماٗ اور مشائخ حضرات پاکیزہ گالیوں سے نواز رہے ہیں تاکہ مرنے کے بعد بیچاری حکومت کی بخشش ہو سکے ۔ادھر سے اسلام آباد اور پنڈی کے لاکھوں انسان دھڑنے والوں کے ساتھ ساتھ اب حکومت کو بھی جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں ،کم از کم عوام برابری کا سلوک کررہے ہیں ۔میڈیا تماشا بھی کررہا ہے اور تماش بینی کا مظاہرہ بھی کرتا نظر آرہا ہے ۔سیاسی پارٹیاں طنز اور تنقید کررہی ہیں اور ساتھ ساتھ دھڑنے والی فلم کو بھی انجوائے کررہی ہیں ۔ایک بات میڈیا ،سیاستدانوں اور طاقتوروں میں ایک جیسی ہے وہ یہ کہ یہ سب چاہتے ہیں کہ جلدی لاٹھی چلے ،تماشا ہو ،وہ فائدہ اٹھائیں ۔البتہ سنا ہے جمہوریت آسمان پر چلی گئی ہے اور نیچے زمین پر جو جمہوریت پسند ہیں انہیں لعنتوں سے نواز رہی ہے ۔سیاستدان اور میڈیا والے ایک بات جان لیں کہ اگر لاٹھی چل گئی ،حکومت گر گئی تو یاد رکھیں پھر یہ لاٹھی سب پر چلے گی ۔یہ لاٹھی کسی کی رشتہ دار نہیں ہوتی ۔حکومت کے پاس اب دو ہی راستے ہیں مزاکرات یا طاقت کا استعمال ۔اس وقت حکومت طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتی اور یہ دھڑنے والے بھی جانتے ہیں اس لئے وہ حکومت کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے جارہے ہیں ۔بھیا عباسی صاحب کی حکومت آسمان سے چاند اور ستارے بھی لے آئے تو دھڑنے والے راضی نہیں ہوں گے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ دھڑنے میں اب صرف مولوی نہیں ،علماٗ اور مشائخ بھی آگئے ہیں ۔ویسے اسلام آباد ہائی کورٹ بھی باکمال باتیں لاجواب انداز میں کررہی ہے،عدالت کہہ رہی ہے ان کو کیوں نہیں اٹھاتے ،احسن اقبال بیچارے نے جواب دیا یہ دھڑنا بیرونی سازش ہے ،بیچارہ اب ہائی کورٹ کے سامنے کیسے کہہ دیتا یہ اندرونی سازش ہے؟حکومت کی طرف سے 48 گھنٹوں کا مزید وقت دھڑنے والوں کو دیا گیا ،کہا گیا ہے کہ وہ کھل کر گالیاں دیں ،علمامشائخ اجلاس پر اجلاس کئے جارہے ہیں ،اجلاسوں کے بعد ایک ہی بات کہہ دی جاتی ہے کہ وزیر قانون مستعفی ہوجائیں ،بھیا کیسے مستعفی ہوجائیں ،اس سے تو حکومت جو پہلے ہی بدنامی کی زندگی گزار رہی ہے ،مزید بدنام ہوگی ۔پھر کوئی اور آجائیں گے وہ دھڑنا دیں گے کہیں گے کہ اب عباسی صاحب استعفی دیں ؟پھر کیا جو دھڑنا دے ،کسی وزیر مشیر یا وزیر اعظم کا استعفی مانگ لے تو کیا اس طرح حکومت سر نیچے کرکے تمام مطالبات مانتی جائے ۔آج سولھواں دن ہوگیا ،عوام زلیل و خوار ہیں ،وزیر داخلہ دھڑنے کو بیرونی سازش کہہ رہے ہیں ،چھوٹا سا ایشو بحران بن گیا ہے ،حکومتی رٹ لہولہان ہے ۔اپوزیشن جی وہی اپوزیشن جس نے انتخابی بل منظور کیا تھا تماشا انجوائے کررہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ لال مسجد واقعے کہ بعد کونسی ایسی سویلین حکومت ہوگی جو طاقت کا استعمال کرے گی؟دھڑنے والے بڑے سمجھدار لوگ ہیں وہ اس دھڑنے کو 2018 کے انتخابات کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ،انہیں معلوم ہے کہ اس دھڑنے کو بحران نہ بنایا گیا تو 2018 کے انتخابات میں ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہو جائیں گی۔دھڑنے والوں کو صرف لاشوں کی ضرورت ہے ۔انہیں لاشیں چاہیئے ،حکومت مزاکرات چاہتی ہے ،اس لئے تباہی تو حکومتی رٹ کا مقدر ہے ؟اب بیچارے عوام یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح اس سارے ایشو کو ختم کیا جائے ۔حکومت شکاریوں کے لئے وہ شکار ہے جسے تھکانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کب تک ایک نہتا شکار طاقتور شکاریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟کچھ لوگ اس سارے ایشو کو سویلین ملٹری ایشو کے طور پر دیکھ رہے ہیں؟میں بھی انہی میں سے ایک ہوں ،لیکن اس بارے میں کچھ بتاوں گا نہیں ۔بھائی فوج کے دس پندرہ کمانڈوز اس دھڑنے کو ختم کرسکتے ہیں ،حکومت کو چاہیئے کہ وہ فوج سے مدد طلب کرلے۔نوازشریف کا مارچ گجرانوالہ میں ختم ہوسکتا ہے ،طاہر القادری کا دھڑنا ختم ہو سکتا ہے ،عمران کا دھڑنا ٹھس ہو سکتا ہے تو یہ دھڑنا کیوں ختم نہیں کیا جاسکتا ،یقینا جو میں کہنا چاہتا ہوں ،سب سمجھ گے ہوں گے؟اسلام آباد ہائی کورٹ چاہے تو عدالتی احکامات دیکر فوج کے زریعے اس دھڑنے کا دھڑنا تختا کرسکتی ہے ؟یہ بھی ایک آئینی طریقہ کار ہے ۔ایک بات حکومت یاد رکھے کہ دھڑنے والوں کا مقصد واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور فائدہ اٹھا کر ہی دم لیں گے ۔اور پھر اسی فائدے کو الیکشن کمپین کے لئے استعمال کریں گے۔یہ سب منافقت کا کھیل ہے اور کچھ نہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔