عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں
پاکستان:قصہ صدی گزشت
31جنوری 1922
جنوری1922کے اختتام تک مولانا جوہرعلی،مولاناشوکت علی اور ان کی والدہ سمیت علمائے ہندوستان کی بھرپورقیادت و حمایت کے نتیجے میں تحریک خلافت کو عوام کی زبردست حمایت حاصل ہو چکی تھی۔دراصل انگریزکی آمدکے بعد گورے سامراج نے جو ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اور ہندوستان میں تمام بڑے بڑے شہروں میں جس طرح مسلمان راہنماؤں کو بے دریغ پکڑ پکڑ کر بغیرکسی انتظامی تحقیقات کے اوربناکسی عدالتی کاروائی کے میلوں درازسڑکوں کے طرفین درختوں سے پھانسیوں پر لٹکایاگیااورچوک چوراہوں پر سرعام گولیوں کانشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتاردیاگیا،توپوں سے باندھ کر گولے چلادیے گئے،شہروں کی سڑکیں انسانی خون سے نہاگئیں جس سے بے تحاشاخوف پھیل گیاتھااور ہندوستان کے عوام بری طرح گھبراسے گئے تھے،کیونکہ سرزمین ہندوستان نے مسلمانوں کے کم و بیش ایک ہزارسالہ دوراقتدارمیں امن و امان،فراوانی رزق اور باہمی پیارومحبت کے سوا کچھ نہ دیکھاتھا۔جب کہ اس سیکولربدیسی تاج برطانیہ نے یہاں قدم جماتے ہی کشتوں کے پشتے لگادیے اور جلیاں والے باغ سمیت متعدد ایسے واقعات میں ننگ انسانیت اورظلم و ستم کے خوگر ایک انگریزافسرکے سفاکانہ حکم پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعدادمیں قتل عام کیاگیاتھا۔دوتین نسلوں تک دبائے ہوئے جذبات کو تحریک خلافت کی جرات مندقیادت نے نکال باہر کیاتھااور آج کی نسل ظالم و فاسق و فاجرحکمرانوں سے اپنے ماضی کاانتقام بھی لینے کو تیارتھی۔گزشتہ پون صدی تک کا غبارجب نکلاتو گویا انسانی شعائرسے عاری انگریزکے خلاف ایک طوفان بن گیااور ہندوستان کے طول و عرض کوگویااس آتش فشاں نے اپنی لپیٹ میں لے لیااور حکومت کے لیے حالات پر قابوپانااور عوام کے جذبات کو لگام دیناممکن نہ رہاتھا۔
30,31جنوری کو گجرات کے ایک شہر”سورت“میں آل انڈیاخلافت کانفرنس کاایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس کی صدارت ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم راہنما،حکیم وطبیب اور مصنف و شاعر و ادیب جناب حکیم اجمل خان مرحوم(1868-1927)نے کی۔یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہم تھاکہ اس میں مسلمانوں کی جملہ سیاسی و مذہبی قیادت کے علاوہ کانگریس کی ہندوقیادت نے بھی شرکت کی۔دودنوں کے اس اجلاس میں طویل گفت و شنیدہوئی اور ہندومسلم اتحاد کے خوگروداعی مہاتماگاندھی نے بھی زیرغور معاملات پر سیرحاصل بات چیت اور تقاریر بھی کیں۔اس اجلاس کا ایک اہم پس منظریہ بھی تھاکہ حکومتی عہدیداروں سے کی گئی اب تک کی تمام ملاقاتیں بے سود ثابت ہوچکی تھیں کیونکہ پہلی جنگ عظیم کی فتح کانشہ انگریزکے سرچڑھ کربول رہاتھااور وہ کسی قیمت پر ہندوستانی عوام پر کسی طرح کارحم کھانے کوتیار نہ تھا۔فرعونیت نے انگریزکے رویے میں گھرکرلیاتھااور اپنی غلام قوم کی جمہوری حیثیت اس کے نزدیک پر کاہ کے برابر بھی نہ تھی۔کیونکہ دوہفتے قبل 14جنوری1922کو بمبئی میں ایک اجلاس ہواتھاجس میں گاندھی جی سمیت تحریک ترک موالات کے چیدہ چیدہ راہنماؤں نے بھی شرکت کی اور پرتشددواقعات کی روک تھام کے لیے فیصلہ کیاگیاکہ حکومت وقت کے ساتھ ایک گول میزکانفرنس کاانتظام کیاجائے اور کوئی مصالحت کی صورت نکال لی جائے۔اس اجلاس کے منتظمین کو تحریک کی طرف سے پندہ دن کی مہلت مل گئی اوراس مدت کے دوران مظاہرے بھی بندکردیے گئے۔طویل تگ و دوکے بعد28جنوری1922کو وائسرائے ہندسے ملاقات کاوقت طے ہوااور اس کے سامنے اصلاح احوال اورریاستی امن عامہ کے لیے مذکورہ اجلاس کی تجاویزرکھی گئیں۔لیکن اس وقت ان مصالحت پسندلوگوں کی امیدوں پر گھڑوں پانی پھرگیاجب ولایتی آمرنے ان تمام کاوشوں کوپاؤں کی ٹھوکرپررکھااوریہ وفداپناسامنہ لے کرناکام و نامرادلوٹ آیا۔گویاتاریخ مصردہرائی گئی اور فرائین وقت نے اپنی غلام قوم کوبنیادی انسانی حقوق کے قابل بھی نہ جانا۔لیکن افسوس کامقام ہے کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیزپر بھی امت مسلمہ کی قیادت اپنے مطالبات کوکاسہ گدائی میں دھرے یہودونصاری کے سامنے پیش کرتی نظرآتی ہے۔تاج برطانیہ کے نمائندے سے پس انکار 30,31جنوری1922کے اس اجلاس نے طویل غوروحوض کے بعدمہاتماگاندھی کو اپنا مشترکہ اعتماد(مینڈیٹ) دیاکہ وہ حکومت کے خلاف عوامی جدوجہدکی قیادت کریں۔ایک ہندورپنڈت پر اعتمادکرلینا،یہ مسلمانوں کی سادہ لوحی تھی یا تقاضائے وقت تھایا دانادشمن کی چال تھی یاحالات کی ستم ظریفی تھی یامسلمانوں کوتحریک پاکستان سے قبل بروقت مشیت ایزدی کی طرف سے راہنمائی کی خاطرسبق سکھانے کاایک رحیمانہ سبب تھا،بہرحال جوبھی تھابعدکے حالات نے بہت جلداس کی قلعی کھول دی تھی اوردوقومی نظریہ کی حقانیت بالآخرنوشتہ دیوارثابت ہوئی۔
یکم فروری 1922ء کومہاتماگاندھی نے حکومت وقت کو آخری حدبندی(الٹی میٹم)دینے کااعلان کردیا،جس میں سات دن کے اندراندر اپنے جاری ظالمانہ منصوبے کوواپس لینے کااوربصورت دیگر عوامی ردعمل کے طورپر عام نافرنی کی تحریک شروع کردینے کی دھمکی دے دی گئی تھی۔ہندوقانون دان،ماہرتعلیم اور دانشور”میکنڈ رام راؤ جیکار“جوبعدمیں مہاراشٹرکے شہر”ساوتری بائی پھلے“میں قائم ہندؤں کی ”جامعہ پونم“کے سربراہ بنے،ان کی درخواست پر مہاتماگاندھی نے اس آخری حدبندی میں تین دن کی توسیع کردی۔حکومت وقت نے اس اطلاعیے کے جواب میں 6فروری1922کوایک فرمان جاری کیاجس میں کہاگیاکہ آخری حدبندی کایہ اطلاعیہ کھلم کھلا ریاست کے اندر خلاف قانون سرگرمیوں کوجاری رکھ کراورقانون کوہاتھ میں لے کر نقص امن کاباعث بنے گا جسے کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔اس کے جواب میں 7فروری 1922ء کو گاندھی جی نے ”بارڈولی“ گجرات کے قصبے سے ایک جوابی اطلاعیہ حکومت وقت کوارسال کیا جس میں اپنے پہلے حدبندی والے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہاگیاتھا کہ کاروائی شہریوں کے آئینی حقوق کے تحت حکومتی جبرکے خلاف کی جارہی ہے جو کہ جمہوری حدود کے اندر ہے۔مہاتماگاندھی اورحکومت کے درمیان ابھی یہ کاغذی کشمکش جاری تھی اور اخبارات اس کی روزانہ کی بنیادپر کاروائیاں شائع کررہے تھے کہ اس دوران ایک بہت بڑاسانحہ نماواقعہ رونماہوچکا۔4فروری1922ء کواترپردیش کے ضلع گورکھپور کے ایک چھوٹے شہر”چوری چورا“میں تحریک ترک موالات کے مظاہرین اور گاؤں کے لوگوں کے ایک بہت بڑے مجمعے نے ایک تھانے کوآگ لگادی اور اس میں اکیس سپاہی مارے گئے۔اس وقت کی اخباری اطلاعات کے مطابق کم و بیش پانچ ہزارافرادکے گروہ نے تھانے کاگھراؤ کیا،پہلے توپولیس نے ہوامیں گولیاں چلائیں اور پھر عوام پر بھی بندوقوں کے دہانے کھول دیے۔جب تک گولیاں چلتی رہیں عوام نے اپنی بچت کاسامان کیے رکھالیکن جب پولیس والے گولیاں ختم ہونے پر مزیدکے لیے تھانے کی طرف پلٹے توعوام نے انہیں گھیرلیا اورتھانے کوآگ لگادی۔مظاہرین نے چوری چورااور گورکھپورکے درمیان ریلوے کی پٹری اور مواصلاتی تاروں کوبھی نقصان پہنچایا۔حکومت وقت نے اس وقت کے آئی جی سے اس وقعے کی تحقیقات کرائیں۔اس واقعے کے اگلے دن بریلی شہر میں بھی مظاہرین نے اسی طرح کی کاروائیاں دہرائیں۔
انقلابات کی تواریخ میں اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں تھے۔قیادت کو چاہیے تھاکہ اس واقعے کوبنیادبناکر حکومت وقت کوباورکراتی کہ اگراقتدارکے ایوانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تویہ آگ پوری مملکت میں بھڑک سکتی ہے،اس طرح اپنی باتیں زیادہ زوروشدت سے منواتی اوراپنی قوم کے لیے نفع کاسودا کرتی۔لیکن ہندوقیادت نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی پیٹھ میں چھراگھونپااور اس واقعے کو بنیادبناکرتحریک کے اختتام کااعلان کردیا۔وجہ صاف ظاہر تھی اس تحریک کی کامیابی سے خلافت اسلامیہ کی تاسیس نووابسطہ تھی جوہندو،مسلمانوں کے ازلی دشمن،کو کسی طورقبول نہیں تھی۔اس سے قبل بھی ایک ہزارسالہ اقتدارمیں ہندوملل چوری کھانے والے مجنوں بنی رہیں لیکن 1857میں مکھن سے بال کی طرح حالات سے نکل گئے اورساراملبہ بڑی ہوشیاری سے مسلمانوں پرڈال دیاجس کے نتیجے میں انگریزنے مسلمانوں سے جم کرانتقام لیا۔چوری چوراواقعے کے بعدجگت جیون لعل نے گورکھپورضلع میں ترک موالات کی تحریک فوراََ بندکرادی،کڈوانی نے گاندھی جی کوتارمیں پیغام بھیجاکہ تحریک بندکردیں وگرنہ اس طرح کے مزیدواقعات کے لیے تیارہوجائیں اوراس طرح کے تاروالے پیغامات دیگربعض مقامات سے بھی گاندھی جی کوموصول ہوئے۔آخری حدبندی کی میعاداگرچہ 12فروری کوختم ہونی اوراس کے بعد تحریک کاآغازنوہوناتھالیکن گاندھی جی نے اس تاریخ سے پہلے ہی حکومت کوبھیجاہوااپنا تحدیدی اطلاعیہ واپس لے لیا۔اس سے قبل ہر اجلاس میں گاندھی جی تقریریں کیاکرتے تھے کہ آخری حدتک جاناہوگااورراست اقدام کرناہوگااور بدیسی حکمرانوں سے ٹکراناہوگاوغیرہ لیکن باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں آتے ہی فوراََ ہزیمت اختیارکرلی اور پہلی آزمائش میں ہی مسلمانوں کے لیے بزدل،پست ہمت اوردورخی قیادت ثابت ہوئے کہ اکیس اموات توبرداشت نہ کیں اور تقسیم ہندکے وقت مشرقی پنجاب میں خون سے لکھی تاریخ رقم کردی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...