شخصی ہجوئوں سے قطع نظر”تضحیک روزگار“ سودا کا مشہور ہجویہ قصیدہ ہے۔ جس میں بظاہر ایک گھوڑے کی ہجوکی گئی ہے۔ لیکن اس کا مقصد مغل سلطنت اور بالخصوص اس کے عسکری نظام کی کمزوریوں پر طنز ہے۔ سودا نے یہ قصیدہ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے ( 1750ءسے قبل) میں کہا۔ جس کی شہادت یہ ہے کہ نکات الشعراءمیں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس وقت تک انہوں نے وہ تمام مشہور قصیدے اور ہجویات نہیں لکھی تھیں جن کی بناءپر سودا کو بعد کے زمانے میں شہرت ملی۔ لیکن اس پہلے دور کے ہجویہ قصیدے میں ، سودا نے جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے خود سودا کی دوسری ہجوئوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
گھوڑا اور تلوار ، مغل عسکری نظام کے دو بنیادی حوالے ہیں ۔ خصوصاً گھوڑاجس کی قوت پر پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے مقامی فوجوں کی شکست دی تھی اور جو اس کے بعد بھی طویل عرصہ تک فوجی خدمات میں مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ مغل سلطنت کے سےاسی و تہذیبی زوال کے نتیجہ میں ان کا عسکری نظام کمزور ہو کر منتشر ہو نا شروع ہوا، افواج بکھر گئیں ، درباروں سے منسلک افواج کو تنخواہ دینے کے لئے شاہی خزانے میں روپیہ نہیں رہا۔ سپاہیوں نے تنگ آکر تلواریں کھول ڈالیں اور رزق کی تلاش میں دوسرے کاموں میں لگ گئے ۔ جہاں نواب کے پاس خود رزق کا کوئی معقول ذریعہ نہ بچا ہو وہاں وہ گھوڑ ے کو کیا کھلا سکتا تھا ۔نتیجتاً طاقت و شوکت کے ضامن گھوڑے کی حالت بھوک سے لاغری کے سبب خستہ ہو گئی ۔ سودا نے قوت و جلال کے اسی بھوک سے نڈھال لاغر اور خستہ حال نشان کو اپنی ہجو کا موضوع بنایا ہے۔
اس ہجو کا گھوڑا دراصل آخری دور کا استعارہ ہے۔ جو اس دور کی سیاسی اور معاشی بدحالی کا ترجمان ہے۔ قصیدے کے آغاز میں سودا بتاتے ہیں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے جن امراءکے پاس عراقی اور عربی نسل کے گھوڑے تھے۔ اب ان کا یہ حال ہے کہ بچاروں کے پاس جوتیاں مرمت کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں ۔ موچی سے ادھار مرمت کراتے ہیں ۔ اس سے مغل امراءکی تباہ حالی معلوم ہوتی ہے کہ عوام ہی نہیں خواص بھی سیاسی و معاشی انتشار کا شکار ہو چکے تھے۔
اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے
موچی سے کفشِ پا کو گھٹاتے ہیں وہ ادہار
اس کے بعد وہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ایک مہربان دوست بھی ہیں جو سرکار سے سو روپیہ پاتے ہیں ۔ ان کے پاس ایک گھوڑا ہے۔ مگر اس کی حالت ناگفتہ ہے۔ گھوڑے کے کھانے کے لئے دانہ اور گھاس نہیں ہے اور رکھوالی کے لئے سائیس موجود نہیں ۔ خوراک نہ ملنے سے وہ زمین پر بیٹھنے اور اُٹھنے کے قابل نہیں۔ اس کے فاقوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔ اگر گھوڑا لے کر بازار سے گزریں تو قصائی پوچھتا ہے کہ ہمیں کب یا د کرو گے۔ فاقوں کی کثرت ہی سے گھوڑا اتناناتواں ہو چکا ہے۔ کہ اس میں ہنہنانے کی طاقت بھی نہیں ہے۔ اس ناتوانی کے باعث اب ہوا بھی اسے اڑا کے لے جا سکتی ہے۔ اس کے جسم پر زخم ہیں ۔ جن پر جابجا مکھیاں بیٹھتی ہیں۔ خلق خدا گھوڑے کی اس حالت پر دعا کرتی ہے کہ یہ گھوڑا گم ہو جائے یا مرجائے یا اسے چور لے جائیں۔
ناطاقتی کا اس کے کہاں تک کروں بیاں
فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار
فاقوں سے ہنہنانے کی طاقت نہیں رہی
گھوڑی کو دیکھتا ہے تو پاد ے ہے بار بار
قصاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد
امید وار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں چمار
اس کے بعد سودا بتاتے ہیں کہ ایک روز مجھے کہیں جانے کے لئے گھوڑے کی ضرورت پڑی ۔ میں اسی مہربان کے پاس پہنچا انہوں نے عزت سے فرمایا کہ یہ گھوڑا اب سواری کے قابل نہیں رہا۔ یہ تو گدھے سے بدتر ہے۔ زمین پر میخ کی طرح قائم ہے۔ یعنی ہلنے کی طاقت نہیں رہی ہے۔ اسکے تمام دانت اڑ گئے ہیں ۔ یہ گھوڑا بہت بوڑھا ہے۔ شیطان جنت سے اسی پر سوار ہو کر نکلا تھا۔ اب اس کی حالت کمزوری کی وجہ سے اسپ خانہ شطرنج کی ہو چکی ہے کہ کسی مدد کے بغیر نہیں چل سکتا۔
اب گھوڑا میدان جنگ کے لئے نکلتا ہے۔ وہ امیر بتاتا ہے کہ جس دن مرہٹوں نے دہلی پر حملہ کیا ۔ تو مجھے نقیب نے اطلاع دی کہ گھر میں کوڑیاں بہت کھیل چکے ہو۔ اب وقت ِ کارزار ہے۔ باہر میدان میں پہنچو۔ اس بیان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں امراءجنگی مشقوں کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر تفریح کے لئے کوڑیاں کھیلا کرتے تھے ۔ گھوڑے نے امیر کی بہت سبکی کرائی ۔ گھوڑا ایک دم آگے نہ بڑھتا گیا۔ لوگ اکھٹے ہوگئے۔ او رآواز یں کسنے لگے کہ اسے پہیے لگا لو۔ پھر چل پڑے گا۔ غرض لوگ طرح طرح کی باتیں بنانے لگے ۔
دلی تک آن پہنچا تھا جس دن کہ مرہٹا
مجھ سے کہا نقیب نے آکر ہے وقت کار
جس شکل سے سوار تھا اس دن میں کیا کہوں
دشمن کو بھی خدا نہ کرے یوں ذلیل و خوار
اس مضحکے کو دیکھ ہوئے جمع خاص و عام
اکثر مدبروں میں سے کہتے تھے یوں پکار
پہیے اس لگائو کہ تا ہوئوئے یہ رواں
یا بادبان باندھ پون کے دو اختیار
اس کے بعد سودا میدانِ جنگ میں اٹھائی جانے والی خفت کا ذکر کرتے ہیں کہ گھوڑے کے ہاتھوں ذلت اُٹھا کر بھاگنے کی ضرورت پیش آئی ،
دست دعا اُٹھا کے میں پھر وقت جنگ میں
کہنے لگا جناب الٰہی میں یوں پکار
پہلا ہی گولا چھوٹتے اس گھوڑے کے لگے
ایسا لگے یہ تیر کہ ہووے جگر کے پار
گھوڑا کہ بس کے لاغر و پست و ضعیف و خشک
کرتا یوں خفیف مجھے وقتِ کارزار
جب دیکھا میں کہ جنگ اب یاں بندھی ہے مشکل
لے جوتیوں کو ہاتھ میں گھوڑا بغل میں مار
دھر دھمکا واں سے لڑتا ہوا شہر کی طرف
القصہ گھر میں آن کے میں نے کیا قرار
ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اس ہجو کے بارے میں فرماتے ہیں۔
” سودا کی غیر شخصی ہجوئوں میں سب سے کامیاب اور پر لطف قصدہ ”تضحیک روزگار ‘ ‘ ہے ۔ جو اگرچہ ایک بخیل امیر کے فاقہ زدہ گھوڑے کی ہجو ہے۔ لیکن اس دور کے فوجی نظام کی خرابی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ مبالغہ ظرافت نے اس ہجو کو دلچسپ بنا دیا ہے
یہ اور اس قسم کی دوسری نظمیں یوں پہلی نظر میں تفریحی معلوم ہوتی ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دورِ آخر کے زوال و انحطاط کی دکھ بری داستانیں ہیں ۔ جن سے ایک زوال پذیر اور سیاسی انتظامی اعتبار سے تباہ شدہ اور ناکارہ قوم کی تباہی اور بد نظمی کا منظر بڑے دلچسپ مگر خوفناک انداز میں پیش کرتی رہیں گی۔