آپ مسلمانوں کی بدقسمتی کا اندازہ لگایئے کہ ”ملی یکجہتی کونسل“ کے زیراہتمام منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی ”عالمی اتحاد امت کانفرنس“ میں عالم اسلام کو درپیش مسائل میں سے کسی مسئلے پر غور نہیں کیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ان معزز حضرات کو ان مسائل کا ادراک ہی نہ تھا!
کانفرنس کے شرکا کو دیکھ کر کئی سوالات ذہن میں اٹھے۔ بین الاقوامی اتحاد کا بیڑہ اٹھانے والے اندرون ملک اتنا اتحاد بھی پیدا نہ کر سکے کہ کانفرنس میں دو دن کے لیے ہی تمام مکاتب فکر کے نمائندے مل کر بیٹھ جاتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اکثریت بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کی ہے۔ اس مکتب فکر کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی تنظیم سُنّی تحریک ہے جس کے سربراہ ثروت قادری صاحب ہیں۔ انہیں اس کانفرنس میں یا تو بلایا نہیں گیا یا انہوں نے شریک ہونا پسند نہ کیا۔ اسی طرح سُنّی اتحاد کونسل کے حاجی فضل کریم‘ جو مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں میں بہت فعال ہیں‘ کانفرنس میں نہیں دیکھے گئے۔ مولانا سمیع الحق بھی غیر حاضر تھے۔ اہل تشیع میں سے مولانا ساجد نقوی موجود تھے لیکن علامہ موسوی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔
مشترکہ اعلامیہ کا سب سے بڑا نکتہ یہ تھا کہ توہین رسالت کے قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم کو مسترد کر دیا جائے گا۔ تعجب کی بات اس میں یہ ہے کہ اس قانون میں ترمیم کا دور دور تک کوئی امکان نہیں‘ نہ ہی کسی نے ایسی جرات کی ہے۔ کوئی ایسی افواہ بھی سننے میں نہیں آئی کہ خدانخواستہ کسی ترمیم کا سوچا جا رہا ہے۔
اخبارات میں اس کانفرنس کی جو روداد شائع ہوئی‘ اسے پڑھ کر مندوبین کی ذہانت اور مبلغ علم پر حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً قاضی حسین احمد نے ارشاد فرمایا :”ہمیں چاہئے کہ وسیع تر مفادات کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔ اگر تمام تنظیمیں اکٹھی ہو جائیں تو کسی کی جرات نہیں کہ وہ دینی مدارس پر چھاپے مارے اور طلبا کو ہراساں کرے۔“
گویا تمام تنظیموں کے اتحاد کا مقصد یہ ہے کہ دینی مدارس پر چھاپے نہ مارے جائیں۔ یوں لگتا ہے کہ کانفرنس دینی مدارس سے باہر نہیں دیکھنا چاہتی اور اسے ان لاکھوں کروڑوں مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں جو کالجوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن نے ارشاد فرمایا : ”امت مسلمہ میں اتنی قوت ہے کہ اگر انہیں شعور دیا جائے اور مقاصد متعین کیے جائیں تو صرف اشارہ کی ضرورت ہے۔ وہ ہر طرح کے لیے تیار ہیں۔“
گویا سید منور حسن صاحب کے نزدیک پوری امت مسلمہ شعور سے محروم ہے! یہ تو ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ شعور کیسے پیدا کیا جائے گا؟ اگر وہ یہ بھی بتا دیتے کہ امت اشارہ پانے کے بعد کیا کچھ کرنے کے لیے تیار ہے تو لوگوں کے علم میں اضافہ ہو جاتا!
ایک غیر ملکی مندوب نے مطالبہ کیا : ”امت مسلمہ کو سپر پاور بنانے کے لیے دنیا کے 60 اسلامی ممالک میں اسلامی انقلاب لایا جائے اور تمام ممالک کا ایک امیر مقرر کیا جائے۔“
اس مطالبے سے کانفرنس کی ”سنجیدگی“ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے! یعنی جو ممالک پہلے ہی اسلامی ہیں ان میں اسلامی انقلاب لایا جائے! اموی سلطنت کے خاتمے کے بعد، آج تک، ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ تمام عالم اسلام کا ایک امیر مقرر ہوا ہو! نہ جانے یہ ”مطالبہ“ کس سے کیا گیا ہے؟
سب سے زیادہ دلچسپ تقریر ایک ایسے مذہبی رہنما کی تھی جو میدان سیاست کے معروف اور تجربہ کار کھلاڑی ہیں اور انہیں اس ضمن میں از حد ذہین قرار دیا جاتا ہے! ان کی تقریر کے دو نکات اہم تھے۔ اول: اسلامی دنیا کے حکمران امت مسلمہ کی ترجمانی نہیں کر رہے! دوم: اسلامی دنیا کے تمام حکمران امریکہ کے سامنے سرنگوں نظر آتے ہیں!
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ مذہبی سیاسی رہنما خود ایک طویل عرصہ سے حکمرانوں کی صف میں شامل ہیں۔ آج بھی ان کا عہدہ وزیر کے منصب کے برابر ہے اور مراعات بھی ماشاءاللہ اسی حساب سے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کے سامنے سرنگوں ہونے کا تعلق ہے تو وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ ان مولانا صاحب نے امریکی سفیر سے استدعا کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح انہیں پاکستان کا وزیراعظم بنوایا جائے۔ آپ نے امریکی سفیر کو یہ تسلی بھی دی تھی کہ پارلیمنٹ کو وہ خود سنبھال لیں گے!
”اتحاد“ کا ایک اور عبرت ناک مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں ایم ایم اے کا احیا کیا ہے اور جماعت اسلامی کو اس میں شامل نہیں ہونے دیا (یا جماعت اسلامی نے خود احتراز کیا)۔ اس احیا کے بعد ایک طرف جماعت کے امیر اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اور ان کے رفقا کے درمیان مخالفانہ بیانات کا گولہ بارود وسیع پیمانے پر چلتا رہا۔ کانفرنس کے دوسرے روز تقریباً تمام اخبارات میں ایک تصویر نمایاں انداز میں شائع ہوئی۔ اس تصویر میں سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمن مصافحہ کر رہے ہیں اور دونوں کے درمیان قاضی حسین احمد مسکراتے نظر آ رہے ہیں! اس تصویر سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان مخاصمت ختم ہو گئی ہے لیکن اس کے ٹھیک ایک دن بعد سید منور حسن کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ…. ”ایم ایم اے کا باب ختم ہو گیا ہے۔“انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایم ایم اے کی بحالی کا پیغام لانے والوں سے انہوں نے یعنی منور حسن صاحب نے، دوسرے نکات کے علاوہ ”پیپلزپارٹی اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے درمیان فاصلے“ کا نکتہ بھی پیش کیا!!
”ملی یکجہتی کونسل“ کی قیادت، بذات خود مجموعہء اضداد ہے۔ اس کے صدر قاضی حسین احمد ہیں جو بائیس سال جماعت کے امیر رہے اور اب کسی فورم کی تلاش میں ہیں۔ جنرل سیکرٹری حافظ حسین احمد ہیں جو اپنی جماعت، جمعیت علماءاسلام (ف) سے برگشتہ ہیں۔ گویا احمد فراز کے بقول
اپنے اپنے بے وفاﺅں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا!!
عالم اسلام کو آج دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک یہ کہ تعلیم کے میدان میں مسلمان افسوس ناک حد تک پیچھے ہیں۔ گزشتہ پانچ چھ سو سال کے دوران عالم اسلام نے کسی دریافت، کسی ایجاد کا سہرا اپنے سر نہیں باندھا۔ مسلمانوں کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ جتنی کتابیں پورے عالم اسلام میں ایک سال میں چھپتی ہیں، اتنی صرف برطانیہ یا صرف فرانس یا صرف امریکہ میں چھپ جاتی ہیں۔ کوئی ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں جو آکسفورڈ، کیمبرج یا ہارورڈ کے معیار کی ہو۔ رہے مدارس تو ان کا نصاب تین سو سال سے تبدیل نہیں ہوا۔ برّصغیر پاک و ہند کے مدارس سے فارغ التحصیل علما اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھ سکتے ہیں نہ تقریر کر سکتے ہیں۔ الا ماشاءاللہ۔ دوسرا بڑا مسئلہ مسلمان ملکوں میں قانون کی پامالی کا ہے۔ رول آف لا شاید ہی کہیں ہو۔ اکثر ملکوں میں آمریت اور شہنشاہیت کا راج ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مسلمان ان ملکوں سے ہجرت کرکے غیر مسلم مغربی ممالک میں آباد ہو گئے ہیں اور کروڑوں آباد ہونے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر مسلمان ملکوں میں رول آنف لا ہو تو لوگوں کو اپنی اہلیت کے حساب سے روزگار مل سکتا ہے اور شخصی آزادی میسر آ سکتی ہے۔ لیکن روزگار اور شخصی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں مسلمان مغربی دنیا کا رخ کر رہے ہیں۔
”ملی یکجہتی کونسل“ کی کانفرنس کے شرکا کو ان مسائل کا ادراک ہی نہ تھا۔ ان کی بلندیفکر مدارس پر پڑنے والے چھاپوں سے آگے نہ جا سکی۔ یہ فقرہ خوب خوب دہرایا گیا کہ عالم اسلام میں اتحاد ہونا چاہئے۔ کس طرح ہونا چاہئے؟ لائحہ عمل کیا ہوگا؟ طریق کار کیسے طے ہوگا؟ کون کون سے عوامل اتحاد کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور یہ رکاوٹیں کیسے دور کی جائیں گی؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب تو دور کی بات ہے، ان خطوط پر سوچا تک نہ گیا‘ نہ ہی بحث مباحثہ یا مکالمہ ہوا۔
اقبال نے کہا تھا
عیدِ آزادان شکوہِ مُلک و دین
عیدِ محکومان ہجومِ مومنین!
تو یہ کانفرنس بھی ہجومِ مومنین تھا!
http://columns.izharulhaq.net/2012_11_01_archive.html
“