حج
حج – لفظ حج کا عربی لغت کی رو سے مطلب ھے وہ اجتماع جہاں پر لوگ دلیل اور حجت کی رو سے زیربحث اور زیر غور معاملات کا تصفیہ (حل) تلاش کیا جاے۔
اسلام چونکہ انفرادی نہی بلکہ اجتماعی نظام زندگی کا نام ہے اور اس نظام کا قانونی مرکز ہے قران ،
وہ مقام جس کو قران نے امت کا الناس کا مرکز قرار دیا اور کہا جہاں پر نمائندگان حکومت مل کر باہمی مشاورت سے اپنے معاملات کا حل قرانی اصولوں اور قوانین کی روشنئ میں تلاش کریں ، اس مقام پر اس مقصد کے لیے اکھٹے ھونا کا نام حج ہے ۔ مقصد انفرادی بخش یا پرستش نہی بلکہ الباس کی بہبود اور بہتری کے لیے مل بیٹھ کر معاملات کا حل تلاش کرنا ۔
حج-اج کے دور مئں اسے مسلمان عالم کا سالانہ اجلاس کہ سکتے ہیں جہاں پر مسلمان ملکوں کے نمائیندہ جماعتیں مل لر امت کو درپیش مسایل کا حل اور امت کی بھبود کے کاموں پر مشاورت کی جاے ۔
جب اس اجتماع کا مقصد امت کو در پیش مسائل اور معاملات کا حل ڈھونڈنا ہے تو پھر یہ ہر شخص کا انفرادی فریضہ نہی ھو سکتا بلکہ حکومت جو قرانی نظام زندگی کی بنیاد پر قائم ھو گئ وہ اپنی ریاست سے ایک جماعت چنے گی اور اس پر ایک امیر مقرر ھو گا جو اس اجلاس کی صدارت کرے گا اور اس طرح یہ جماعتیں اس مرکز میں جسکو قبلہ یا مسجد الحرام کہا وھاں مل بیٹھیں گیں ۔
ان وفود کو ارباب ریاست منتخب کریں گے ان لوگوں پر جن کا شعور قران کا علم اور عقل و فھم بہتر ھو گا ۔
قران نے ایک نظام دیا ہے زندگی گزارنے کا ، جس کی ابتداء كی کہ اپنی زندگیوں میں قوانین الہی کا مسلسل اتباع (الصلواة ) كا نظام قائم کرو اور پھر اسکے اندر انسانوں کی نشو نما کے لیے اللہ کے قوانین کے مطابق زکوة كا نظام يعنى منصفانه معاشى نظام قائم کرو جس میں کوئی شحص بھوکا نا رہے اور ھر کسی کی ضرویارت زندگی پوری ھوتی رہے ۔
اس کے بعد جب زندگی کی بنیادی ضرویات پوری ھو گیں اس ریاست میں تو کہا تم تو امن میں اگیے مگر ھو سکتا ہے بیرونی قویتں تمھارے امن کو برباد کرنے کے لیے تم پر حملہ اور ھوتی رہیں اس کی روک تھام کے لیے تمھارے اوپر جنگ ( قتال) کو بھی فرض قراو دے دیا ۔ تم یونہی ھاتھ پر ھاتھ دھرے مت بیٹھے رھو بلکہ اپنے دفاع کے لیے بھی اور جہاں پر بھی انسانوں پر ظلم ھو ان کی مدد کے لیے بھی اللہ کی راہ میں نکلو اور قتال جنگ کرو ۔
اب اس جنگ کے لیے جنگی تربیت بھی ھونی چاھیے ورنہ بغیر تربیت کے کوئی کیسے لڑ سکتا ہے یا تلوار کا استعمال نا اتا ھو تو ھتیار کےسے اٹھاے گا ۔ پھر جنگ میں سفر بھی کرنا پڑے گا اور وقتا فوقتا بھوکے پیاسے بھی رھنا پڑے گا ۔ گھروں اور ائل خانہ سے دور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور بھت ساری باتیں جو انسان روز مرہ کی زندگی میں کرتا ہے اس دوران جنگ انسان کو ان باتوں سے پرہیز کرنا ھو گا اس کے کیے اپنے اوپر کچھ وقتی پابندیاں لگانا ھوں گی ، جو اگر انسان ان پابندیوں کا خوگر نہی ھو گا ۔ اسکی زات کی تربیت ان پابندیوں کے اندر رہتے ھوے نہی گوی ھو گی تو انسان کے لیے مشکل ھو گا کہ وہ اللہ کے نظام پر چلتے ہوے اپنا مشن مکمل کرے ، اس تربیت کے کہا ،” اے ایام والو تم پر صیام فرض کیا گیا، ( تم پر کچی ہابندیاں لاگوشکر دی گیں ، تم اپنے اوپر روک لگا لو ، پابندی لگا لو ) “-
“صیام – مطلب روک ، پابندی ۔ کسی کام سے باز اجانا۔ اس سے رک جانا ۔”
صوم کے بنیادی معانی ھوتے ہیں ، ظبط نفس کرنا یعنی اپنے اپ کو روکے رکھنا اپنے اپکو حدود الہی کے اندر رکھنا ۔
صائم کے معانی اپنے اپکو غلط راستوں سے روکنے والا ۔
صوم میں اپنے اپ پر پابندی لگا کر اپنے اپکو ان کاموں سے روک لینا جو انسان عام حالات میں کرتا ہے اور اپنے اپکو ان جنگی مشقوں اور اپنی زات کی تربیت کر کے تیار کرنا تاکہ ضرورت کے وقت جنگ کے موقع پر لڑا جا سکے اور دوسرا اپن زات کی تربیت کر کے اللہ کے احکام پر چلا جاے اور وہ مشن جو اللہ نے ہمارے زمہ لگایا اسے پورا کیا جا سکے ۔
وہ مقصد ہے ،” روزوں سے مقصود یہ ہے کہ تم میں فرایض کئ ادائیگی کی عادت پیدا ھو جاے،2/183- تم میں ایسی صلاحیت پیدا ھو جاے کہ تم دنیا میں نظام الہی کو بلند و بالا کر سکو ، اللہ کی کبرئیائی قائم کر سکو ،2/185-
یہ کبرئیائی وہ نہی جسے مذہب نے اللہ بڑائی کہا اور اسکا طریقہ کہا عید والے دن تکبیریات پڑھو بااواز بلند ۔ بھلا ایسا کرنے سے اللہ ے قوانین کا اقتدار قائم گو سکتا ہے ؟
کبرئیائی ھوتی ہے اللہ کا اقتدار اعلئ مانا جاے اور اس زمین پر حق حکومت اللہ کا تسلیم کیا جاے جس کی عملی شکل گو گی کہ حکومت ریاست قران کے قوانین اور اصولوں پر قائم کی جاے۔
اب یہ کرنے کے لیے جماعت مومنین کو گھروں سے باہر نکلنا پڑے گا دشمن کے ساتھ نبردازما ھونا پڑے گا لڑائیاں اور قتال کرنا ھو گا جس کے لیے تربیت کی ضرورت ھو گی اور اس تربیت کے دورانیہ کو ماہ صیام کہا ۔ یعنی اپنے اپکو روزمرۂ کے کاموں سے روک کر اپنے اوپر پابندیاں عائد کر کے اس تربیت میں حصہ لو ۔
کیونکہ صوم کے فورا بعد اگلی ایات میں ہی قتال کا حکم ا گیا اور کہا “ تم پر قتال کو فرض قرار دے دیا “
اس کے بعد قتال ہی ہر مسلہ کا حل نہی اس لیے اس قتال کو روک کر کچھ مہینے یعنی کچھ عرصہ کو حرمت کا سمجھ کر اس میں جنگ مت کرو لیکن اگر دشمن ان مہینوں یعنی اس دوران تم پر حملہ کرے تو پھر تم بھی لڑو ۔
مقصد اس دورانیہ میں لڑائی نا کرنے کا یہ بتایا قران نے کہ اس دوران تم مل بیٹھ کر صلاح مشورہ کرو ۔ بین شوری کرو ، جو معاملات امت کو اور انسانیت کو در پیش ہیں اس کے حل کے لیے قران کی دلیل اور حجت کے زریعے معاملات کی تہ تک پہنچو ۔ اس مقصد کو حج کہا ۔
چونکہ اس مقصد کے لیے جمع ھونے کا مقام کعبہ مسجدالحرام چنا ھو کہ اللہ کے نسم پر وائم ھونے والا پہلا مقام گھر جو الناس کی بھتری اور بہبود کے لیے بنایا گیا اسے چنا ۔ اور یہاں اکٹھے ھونے کےطلیے وفود کو جماعت کو دور دراز سے سفر کر کے انا ھو گا اس لیے کہا اس دورانیہ میں جنگ ممنوع ھے تاکہ لوگ اسانی سے سفر کر سکیں باحفاظت ۔
دوسرا یہ کہ “ اگر اس دوران جنگ نا روکی گئی تو یہ جو الناس کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ یہاں پر ا کر اپنی انکھوں سے دیکھیں ک یہاں سے الناس کی منعفت کے لیے کیا کام کیے ھا رہیں “ وہ مشکل ھو جائیں گے ۔
جنگ رکے تو دشمن یا دوسرے لوگ ا کر ائک جگہ بیٹھ کر دیکھ سکیں گے ۔ بات کر کے اختلاف دور کر سکیں ۔ جنگ کی حالت میں سوچنے سمجھنے اور عقل و فھم سے معاملات درست کرنے کا وقت نہی ھوتا ۔
اس لیے کہا کہ اس مقام پر اکھٹے ھو کر ایک دوسرے سے تعارف کرو ( عرفات) وھاں ایک دوسرے کو ملو اور اپس میں تبادلہ خیالات کرو ۔ امیر سالار وھاں پر تعارفی خطاب کرے اس کے بعد گروپوں اور جماعتوں میں بیٹھ کر منی اور مذدلفہ میں پھر اپنے معاملات پر باھمی شوری بین ھم کرو اور معاملات پر غور ع فکر ھو ۔
اس وادی بے اب و گیان میں پانی اور خوراک کی کمی ھو گی اس لیے جو جانور اپنے ساتھ لاے ھو سواری اور دوسرے کاموں کے لیے ان کو اس بیت العتیق کے پاس پہنچ کر اللہ کے نام پر زبح کرو ۔ خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو ۔
اس دوران امت میں یک اہنگی قائم کرنے کے لیے کچھ شعار اللہ یعنئ اللہ کی نشانیان ہیں ان کو بھی کرو تاکہ تم۔ سب ایک وقت میں ایک امت دکھائی دو ۔ان مناسک کو شعایر اللہ کو کرنے کا موصد یہ ہے کہ اجتماع میں نظم وضبط رہے اور امت میں وحدت نظر اے نا کہ انتشار ۔
ہر مملکت یا قوم کا ایک علامتی نشان اور مقام ہوتا ہے ، اسلام میں اس مرکز اس مقام کو کعبہ کہا گیا اور یہاں پر سالانہ اکٹھے ھونے والے وفود کا حجاج اور اس مقصد کو حج کہا تاکہ تم یہاں ا کر باہمی مشاورت سے قرانی دلیل اور حجت سے اپنے معاملات کا حل نکالو ۔ کہا پھر واپس جا کر ان پر عمل درامد کرو ۔ جو فیصلے ئہاں ھوے اپنے شہروں ملکوں میں جا کر ان کی عملی تنفیذ کرو اس عمل کو حج کہا اور اس عمل کے چھوٹے چھوٹ ھنگامی اجلاس جو مشاورت کی ضرورت کے تحت سال کے مختکف دنوں میں منعقد کیے جائیں ان کو عمرہ کہا ۔
قران نے کہا ۔ “ تم جئاں کہیں بھی ھو اپنا نصب العین اپنا قبلہ یعنہ اطاعت الہی کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو ، اسکو قران نے (تحویل کعبہ ) کہا
حج کے سلسلہ میں قرانی احکامات ۔
“ تعمیر کعبہ امت کے امام ابرہیم علیہ سلام کے ھاتوں عمل میں ائی اور ان سے کہا گیا کہ “ اعلان کر دو الناس میں ( لوگوں ) میں کہ وہ یہاں ائیں اور (حج) دلیل اور حجت کی رو سے اپنی انکھوں سے مشاہدہ کریں کہ یہ امت ان کی ( نوع انسانی ) کی منعفت کے لیے کیا کہ رہی ہے “ 22/27to 28–
یہاں پر دعوت ساری انسانیت کو دی ھا رہی ہے ۔
“ یہ دعوت تمام نوع انسان کے لیے جو بھی وھاں تک پہچنے کہ راہ پا لے اس میں شرکت کر سکتا ہے” 3/96.
یہاں پھر تمام الناس کو دعوت ہے کہ او اور دیکھو ۔
یہ اب دیکھنے کے لیے ہے کہ وہ دیکھیں کہ اس مقام سے الناس اور امت کی فلاح کے لئے کیا اقدمات کیے جا رہے ہیں ۔ ضروری نہی کہ یہ سارے اس حج یعنی اس دلیل و برھان پر مبنی اجلاس میں مشورہ بھی کریں گے ۔ یہ صرف شرکت کریں گے اور سنیں گے ، دیکھیں گے۔
ساتھ ہی کہا اس شرکت کا مقصد” اللہ کے لیے ھو “ 2/196-
“ مکہ کے اندر اور باہر کے رہنے والوں کے لیے اسکے دروازے یکساں طور پر کھلے ہیں “ 22/25
“ جو یہاں پر ظلم اور الحاد فساد كى نيت سے اگے اور اس اجلاس کا نظام درہم برھم کرے گا اسے سخت سزا دی جاے گی” 22/25
فٹح مکہ کے بعد چونکہ مشرکیں عرب جنہوں نے اس نظام کی سخت مخالفت کی تھی اور بعد میں اس مرکز اس نصب العین کے خلاف تھے ان کے لیے کہا ،چونکہ وہ اس نظام پر یقین نہی رکھتے ان کا نصب العین مسلمانوں سے مختلف ہے اور وہ کبھی بھی دل سے اس نظام کو نہی اپنائیں گے اس لیے وہ کبھی بھی اس پر عمل پیرا نہی ھوں گے اس لئے ،” ان کو یہاں انے کی اجازت نہں “ 9/3 یعنی یہ اس کے انتظام اور بندوبست میں شریک نہی کیے جا سکتے۔
دوسری اہم بات قران نے کہی کہ ،” حج کے مہینے سب کو معلوم ھونے چاہیں ، یعنی ان کا اعلان کرنا چاہیے “ 2/189
اسکا مطلب یہ جو ہم نے زالحج کو ہی حج جا مہنیہ بنالیا یہ درست نہی ۔ حج کا کوئی بھی مہینہ ھو سکتا ہے جو امیر ریاست امام وقت باہمی مشاورت سے اعلان کر سکتا ہے ریاست مملکت میں ۔
" حج كا مقصد يه تھا کہ انسانیت اپنے پاوں پر کھڑی ھونے کی قابل ھو جاے” 5/2-“
جو اس گھر میں داخل ھو گیا یعنی اس نظام میں داخل ھو گیا اس کے ساے نیچے ا گیا اسے امن کی ظمانت مل گئی” 3/96-
یہ ہیں وہ اہم نقات جو قران حج کے ضمن میں دیتا ہے ۔ اب اگر اس مقام پر اور موجودہ مروجہ حج سے یہ فائدے اور مقصد نہی پورے ھو رہے تو سوچنے کی بست ہے کہ اللہ کے وعدے تو کبھی جوٹھے نہی ھو سکتے ، اس کا مطلب ہے کہ جسے ہم حج کہ رہے ہیں اللہ کا بتایا حج نہی بلکہ انسانوں نے مذہب کے نام ہر چند رسوم و مناسک کی ادائیگی کو حج نام دے دیا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔