حاجی صاحب !
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
ساتویں قسط:
منہ سے نکلی بات کیسے واپس آسکتی تھی,خادم حسین کو دکھ تھا کہ اس نے حاجی صاحب کو کیوں سب کے سامنے رسوا کر دیا تھا,حالانکہ نکاح کوئی رسوائی تو تھی نہیں,دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلے,زندگی کا ہر سکھ نورین کو حاجی صاحب نے دیا تھا اور بدلے میں اس کی قربت کے دلنشین لمحے ہی تو چاہتے تھے,وہ بھی بچوں کی وجہ سے مختصر ہوتے,حاجی صاحب کی وارفتگی کا تو یہ عالم تھا کہ ایک لمحے کے لئے اس سے دور نہ ہو نا چاہتے,مگر اپنی اور نورین کی مجبوریاں آڑے آجاتیں,چاند پڑھائی میں کمزور نکلا,آٹھویں جماعت سے آگے نہ جا سکا تو حاجی صاحب نے اسے اپنی فیکٹری میں لگوا دیا کہ کام سیکھ لے تو پھر سپروائزر بنا دوں گا,اسی فیکٹری میں پہلے سے خادم حسین کا بڑابیٹا دلاور بھی کام کرتا تھا,چاند مرضی سے کام پر آتا جاتا,اسے پیسے بھی زیادہ ملتے,کھانا بھی الگ سے اچھا دیا جاتا,وہ حاجی صاحب کا منظور نظر تھا,دلاور چاند سے بہت جلتا اور خار کھاتا,پھر دوسرے لوگ بھی آگ کو بھڑکاتے.کہتے تم بھی اسی طرح ڈرائيور کے بیٹے ہو جس طرح چاند ہے,مگر تمھیں کھانے میں ورکرز کے ساتھ دال سبزی ملتی یے اور وہ مرغِ مسلم پھاڑتا ہے,دلاور اور بھی چڑ جاتا,چاند کی سج دھج اور لباس کو دیکھ کر احساس ِ کمتری کا شکار ہو جاتا,اب تو حاجی صاحب نے چاند کو موٹرسائيکل بھی لے دی تھی,دلاور کی چاند سے نفرت اور بھی بڑھ گئی تھی.ایک دن کسی معمولی سی تکرار پر دلاور نے چاند کو سب ورکرز کے سامنے زوردار تھپڑ ماردیا,بات مینجر سے حاجی صاحب تک پہنچی,سب الزام دلاور کے سردے رہے تھے.حاجی صاحب نے مینیجر کو کہا کہ دلاور کا حساب کر کے اسے فارغ کر دے.مینجر نے جب دلاور کی چھٹی کی تو وہ اس سے بھی الجھ پڑا,مینیجر نے کہا کہ حاجی صاحب کا حکم ہے,جوان خون تھاحاجی صاحب کے پاس جا پہنچا,حاجی صاحب بزنس میٹنگ میں مصروف تھے.گارڈز کو چکمہ دے کر کہ مجھے حاجی صاحب نے بلایا ہے دلاور میٹنگ روم میں پہنچ گیا اور چلانے لگا کہ چاند آپ کی منظور نظر کا بیٹا ہے اسی لئے آپ نے مجھے نکال باہر پھینکا ہے.حاجی صاحب کے لئے ساری سچؤئیشن بہت عجیب و غریب تھی,گارڈز دلاور کو پکڑکر لے جانے لگےتو تب بھی وہ بہت زور سے چلا رہا تھاچاند کے ساتھ ساتھ سب فیکٹری ورکر بھی اس کی باتیں سن رہے تھے,چاند کو کھڑا دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ چیخنے لگا تھا,تیری ماں کا خصم ہے حاجی صاحب اس لئے تمھارے تھپڑ کی بہت تکلیف ہوئی ہے,اور جو تمھیں موٹرسائیکل لے کر دی ہے نا وہ بھی تمھاری ماں کی قیمت ہے.میں بھی ان کے ڈرائيور کا بیٹا ہوں مجھ سے ایسی ہمدردی کیوں نہیں,میرا باپ تمھارے گھر کے باہر کھڑا ہو ہو کر چوبيس چوبیس گھنٹے ڈیوٹیاں دیتا ہے,پھر بھی آج مجھے نکال رہے ہیں,اس رات ماں باپ کی لڑائی کے بعد دلاور نے حاجی صاحب سے نورین کے نکاح کی بات سن لی تھی,اور اس دن سے اس کے دل ودماغ میں یہ بات بس گئی تھی,اور آج وہ زہر اگل رہا تھا,دلاور تو چلا گیا تھا مگر چاند سمیت بہت سے ذہنوں میں کئی سوالات چھوڑگیا تھا,حاجی صاحب بھی اکیلے کمرے میں سر تھا مے بیٹھے تھے.برسوں کی بنائی ہوئی عزت سر راہ نیلام ہو گئی تھی.
شیخ صاحب کا ایمان بہک ہی گیا
دیکھ کر حسنِِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے
لُٹ گئی پارسائی مزاآگیا
جاری ہے
“