حاجی صاحب !
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
چھٹی قسط :
نورین اب نورین افضل ہو چکی تھی.وہ اپنی قسمت پر جتنا بھی رشک کرتی کم تھا,ادھر حاجی صاحب کی بھی کیفیت مختلف نہ تھی.ً انہیں لگتا کہ وہ ابھی جوانی کے گھوڑے پر سوار ہو ئے ہیں,نورین کو پیار دینا بھی آتا تھا اور لینا بھی,وہ جتنا نورین کے وجود سے سیراب ہو تے تشنگی اور بھی بڑھ جاتی.
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا بزمِ رنداں میں ساغر کھنکھنے لگے,مے کدے میں برسنے لگیں مستیاں جب گھٹا گِھر کے چھائی مزاآگیا
نورین کے وجود میں عجب کشش ,جادو اور انوکھا سرور تھا.حاجی صاحب کی خوابیدہ حسرتیں انگڑائیاں لے کر جاگ اٹھیں تھیں.اب حاجی صاحب رات گھر دیر سے لوٹتے اور صبح دوبارہ حُسن کے دربار پر حاضری لگاتے,چاند اور زارا دن میں سکول ہوتے اور رات میں نورین انہیں جلدی سُلا دیتی,حاجی صاحب نے شادی کے تحفے میں قیمتی زیورات اور تحائف کے ساتھ ساتھ نورین سے صرف ایک وعدہ مانگا تھا کہ وہ تمام عمر اس نکاح کا بھید نہیں کھولے گی,اور نورین نے حاجی صاحب کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائی تھی کہ وہ ان کی عزت اور پارسائی وقار اور مقام کا ہر صورت خیال رکھے گی.ادھر زیب النسا کے سینے پر شک کے ناگ ڈس مارنے لگے تھے,عورت اپنے شوہر کی چال ڈھال سے اس کے دل کا احوال جان لیتی ہے,حاجی صاحب کب وہ پہلے والے حاجی صاحب رہے تھے,رات کے کھانے پر نہ پہنچتے,صبح انہیں گھر سے جانے کی جلدی ہوتی,گھر کے کسی معاملات میں انہیں دلچسبی نہ ہوتی,بے دلی سے گفتگو کرتے,اتنے برسوں کا ساتھ تھا.بھلا کیسے نہ چونکتی,مگر اس کی رسائی گھر سے باہر نہیں تھی,اب بیٹوں کو کس منہ سے کہتی کہ باپ پر نظر رکھو,اندر ہی اندر گھلنے لگی,شوگر بڑھ گئی,بلڈپریشر ہائی رہنے لگا.بیمار بیوی سے شوہر بہت جلدی اکتا جاتا ہے اور پھر حاجی صاحب کی زندگی میں تو ایک جوان حور پری آچکی تھی,جو انہیں ٹوٹ کر چاہتی تھی,نورین نے عشق کا مفہوم پہلی بار جانا تھا,نذیر اور اس کا ساتھ تو روٹی پانی رونے دھونے اور لڑائی جھگڑے کا تھا,وہ جس طرح حاجی صاحب سے اپنے والہانہ پن کا اظہار کرتی وہ اور بھی اس کے گرویدہ ہو جاتے,مرد عورت کے صرف پیار کا ہی تو بھوکا ہوتا ہے,وہ دونوں عشق کی سر مستی میں مدہوش تھے اور ادھر آگ صرف زیب النسا کے سینے میں نہیں دہک رہی تھی خادم حسین کے گھر میں بھی بھانبھڑ جل رہے تھے.حاجی صاحب رات ایک ایک بجے تک نورین کے گھر رکتے تو خادم حسین بے چارہ گاڑی میں انتظار کرتا,صبح پھر صاحب کا حکم ہوتا کہ نو بجے لینے آجانا,غریب آدمی تھا,نوکری نہیں چھوڑ سکتا تھا.تنخواہ کے علاوہ بھی حاجی صاحب اس کی مُٹھی گرم کرتے,مگر زیتون یہ بات نہیں سمجھتی تھی,اس سے روز لیٹ آنے پر خوب لڑتی,اس پر شک کرتی کہ وہ کوٹھے پر گندی عورتوں کے پاس جاتا ہے.روز ہی گھر میں مار کٹائی ہوتی,بچے روتے,اب خادم حسین لاکھ بیوی کو سمجھاتا کہ حاجی صاحب کے ساتھ تھا,وہ نہ مانتی,بھلا کبھی دو بجے تک بھی کوئی دفتر کھولے بیٹھا رہتا ہے,ایک رات گھمسان کی لڑائی کے بعد جب بچے بھی لڑتے مرتے ماں باپ کو دیکھ کر رونے لگے تو خادم حسین چیخ چیخ کر کہنے لگا ہاں سن لو تم حاجی صاحب نے نذیرے ڈرائيور کی بیوی سے نکاح کر لیا ہے اور وہ آدھی آدھی رات اور دن نو سے ایک تک وہیں ہوتے ہیں,میں باہر گلی میں گاڑی میں بیٹھ کر ان کا چوکیدارہ کرتا ہوں,آگئی سمجھ,کیا کروں ڈرائيور ہوں ان کا,روزی رزاق ہیں وہ,نوکری چھوڑدوں تو تم لوگ بھوکے مرو گے.کیا بولوں گھر جانا ہے مجھے دس بجے,بتا بول…بول نا,وہ چیخ رہا تھا اور زیتون حیران پریشان رونا دھونا بھول کر شوہر کا منہ دیکھ رہی تھی.
جاری ہے
ارم ملک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=228541330929714&id=100013215466399
“