حاجی صاحب !
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
پانچویں قسط :
نیا گھر بہت خوبصورت اور صاف ستھرا تھا,بچے کشادہ گھر میں آکر بہت خوش تھے اور نورین کو تو یہ سب خواب لگ رہا تھا.اسے لگتا کہ آج تک اس نے اپنی عمر ایک ڈربے میں رہ کر گزار دی تھی,وہ اپنے بچوں کے کِھلے ہوئے چہرے دیکھ کر بہت شاداں تھی.لیکن ادھر حاجی صاحب عجیب شش و پنج کا شکار تھے.وہ نورین کو اس محلے سے تو نکال لائے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ نئی جگہہ پر بھی کچھ عرصے بعد سوال اٹھنے لگیں گے,اور اس سے بھی بڑھ کر اب ان کو اپنے دل پر اختیار نہیں رہا تھا.وہ اب خود کو نورین سے دور نہیں رکھ پا رہے تھے.ادھر گناہ سے بھی ڈرتے تھے,ساری عمر کی ایمان کی کمائی ڈوبنے کا ڈر دامن گیر تھا اور آخرت بھی خراب نہیں کرنا چاہتے تھے.تفسیر کھول کر بیٹھ گئے.محرم نا محرم پر لکھے کتابی مضمون پڑھنے لگے,احادیث ڈھو نڈنے لگے,دل اور دماغ میں جنگ جاری تھی.بہت مجبور ہوئے تو بہت قریی دو دوستوں کو شریک کار کیا,دونوں نے سمجھایا کہ جوان اولاد کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کا نہ سوچیں مگر انہیں ان کا مشورہ ناگوار گزرا,بیوہ سے نکاح کا تو بہت اجر وثواب ہے,دل دلیلیں دینے لگا,سوچا نورین سے بھی بات کر لوں,کیا خبر وہ راضی ہو نا ہو,اوائل بہار کے دن تھے.چاند اور زارا سکول تھے.حاجی صاحب کی آمد پر اب نورین شرمائی شرمائی اور سمٹی سمٹی رہتی.نہ جانے دن میں کتنی بار حاجی صاحب کا بے اختیار گلے لگانا یاد آتا تو آنکھوں میں نشہ سا چھا جاتا اور دل میں گھنٹیاں سی بجنے لگتیں,نذیر کے بعد پہلی بار کسی مرد نے اسے چھوا تھا,نورین کی ابھی عمر ہی کیا تھی,سولہویں سال میں ہی تو باپ نے بیاہ دیا تھا.ماں تو بچپن سے ہی نہیں تھی,نورین کی شادی کے بعد ابا نے بھی اپنا گھر بسا لیا اور اپنی جورو کا ہو کر رہ گیاتھا,نورین کے جذبات بھی پھر سے جاگ اٹھے تھے,وہ ساری ساری رات حاجی صاحب کی اسی خوشبو کو اپنے ارد گرد محسوس کرتی تھی جو اس دن اس نے سونگھی تھی. جب حاجی صاحب نے اس کا ہاتھ تھام کر اس کا ہمیشہ کے لئے ساتھ مانگا تھا.حاجی صاحب چاہتے تو اس کی مجبوری کا بنا نکاح کئے بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے.نورین کے لئے تو یہ حاجی صاحب کا بڑاپن تھا,ان کے سوال پر نورین نے شرما کر دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیا تھا.اور حاجی صاحب اس کی اس ادا پر مر مٹے تھے.
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر
سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ
ایسے گردن جھکائی مزا آگیا
کورٹ میرج کا واحد گواہ خادم حسین ہی تھا جس کے ساتھ
نورین اور حاجی صاحب گئے تھے,ایجاب و قبول کے بعد کاغذی کاروائی مکمل کروا کر جب دونوں واپس لوٹے تو دل کی دنیا بدل چکی تھی.گاڑی میں حاجی صاحب کے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھی نورین خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت عورت سمجھ رہی تھی.کہاں حاجی صاحب جیسی معتبر شخصيت اور کہاں ایک غریب بے بس لاچار تین بچوں کی ماں اور بیوہ عورت.
جاری ہے
ارم ملک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=228395620944285&id=100013215466399
“