حاجی صاحب !
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
چوتھی قسط :
محبت تو نام ہی عنایت کا ہے,اپنا سب کچھ محبوب کے قدموں میں دان کر دینے کا نام,تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں نے محبت میں تخت و تاج کو ٹھوکر یں مار دیں تھیں,حاجی صاحب بھی بنا حساب کتاب کے نورین پر نوازشیں کر رہے تھے اور محبت میں حساب کتاب کا کھاتہ ہی کہاں ہو تا ہے,چاند اور زارا دونوں سکول جاتے تھے,چھوٹی کشف نورین کے پاس ہوتی,حاجی صاحب ہفتے دو ہفتے بعد آتے تو ڈرائيور دو چار چکر گاڑی سے سامان اٹھا کر گھر کے اندر رکھتا,حاجی صاحب نورین کی دید کے بھوکے تھے.اور نورین حاجی صاحب کی مہربانیوں کے بوجھ تلے دبی جا رہی تھی.وہ انہیں اپنا ان داتا سمجھتی تھی,کیا کچھ نہیں کر رہے تھے وہ اس کے لئے,نذیر کے بعد تو کسی نے اس کا حال تک نہ پو چھا تھا.اچھی خوراک اور فکر نہ فاقے سے نورین کی صحت بہت اچھی ہو گئی تھی اور وہ نکھر کر کلی سے گلاب بنتی جا رہی تھی,حاجی صاحب کے لائے ہوئے برانڈز کے جوڑے پہن کر وہ میم کی طرح لگتی.حاجی صاحب یہی تو چاہتے تھے.اب وہ ان سے جھجھکتی بھی نہیں تھی.حاجی صاحب نے اسے موبائل فون بھی لے دیا تھا اور اس میں احطیاطا صرف اپنا نمبر سیو کر کے دیا تھا,جب وہ ہنس ہنس کر باتیں کرتی تو حاجی صاحب کا دل لوٹ لیتی,جب اس کے پاس سے ہو کر جاتے تو گھنٹوں مسرور رہتے.دل کی دنیا آباد ہو جائے تو یہ کائنات مسکرا اٹھتی ہے,خادم حسین بھی اپنی جہاندیدہ نگاہ سے اپنے مالک کی اک پرانے ڈرائيور کی بیوہ پر بڑھتی عنایتوں کو دیکھ اور سمجھ رہا تھا مگر مالک کے ہر حکم پر سر جھکانا اس کا فرض تھا,مگر دنیا والوں کا منہ بند کرنا آسان کام نہیں,لوگ نورین پر تہمتیں لگانے لگے تھے,عورتیں اسے دیکھ کر سر گوشی میں باتیں کرتیں,گلی محلے والوں نے ملنا جلنا چھوڑدیا,بچے اس کے بچوں سے کھیلنا چھوڑگئے تھے,نورین اس صورتحال سے پر یشان تھی,مگر حاجی صاحب سے تزکرہ نہیں کیا,کہ وہ شریف النفس انسان کیا سوچیں گے,انہوں نے تو کبھی بھی اس سےکچھ ایسی بات نہیں کی جو اخلاق کے دائرے سے باہر ہو,اس دن تو حد ہو گئی,مالک مکان نے محلے والوں کی شکایت پر تین دن کے اندر اندر گھر خالی کرنے کا نوٹس بھجوا دیا,نورین کو نذیر اسی گھر میں بیاہ کر لایا تھا,اتنے سالوں کا ساتھ تھا,اب وہ یہاں سے کہاں جائے گی,کدھر کرائے کاگھر ڈھونڈے گی,سامان کون اٹھائے گا,وہ روہانسی ہو گئی.حاجی صاحب کو شام ڈھلے پریشان حال نورین کا فون آیا تو وہ گھر جانے جانے کے بجائے نورین کی طرف آگئے,روئی روئی سی آنکھوں سے نورین نے جلدی سے دروازہ کھولا,بجے سو چکے تھے.حاجی صاحب کو صورتحال کا بالکل اندازہ نہیں تھا.نورین نے روتے ہو ئے انہیں تمام بات بتائی کہ کس طرح محلے والے اس کے اور ان کے کردار پر کیچڑ اچھال رہے ہیں,اور اب اس محلے سے بھی نکال رہے ہیں,اب وہ کہاں جائے گی.نورین پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی,حاجی صاحب سے اس کے آنسو برداشت نہیں ہو رہے تھے,پہلے تو وہ اسے زبانی کلامی تسلی دیتے رہے جب اس سے بھی معاملات حل نہ ہو ئے تو انہوں نے آگے بڑھ کر اس کے نازک آبگینے جیسے سسکتے وجود کو اپنے سینے میں سمو لیا,ایک تو رات کی تنہائی,صحن میں چٹکتی چاندنی کا عکس دوسرا عشق آتش.
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزاآگیا,
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا تونے ایسی پلائی مزاآگیا
حاجی صاحب کو یوں لگا کہ سب ریاضتوں کے بدلے جنت اسی دنیا میں مل گئی ہے,اور حاجی صاحب کے سینے سے لگی نورین کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خود کو ان مہربان بانہوں کو سونپ دے یا خود کو چھڑوا لے,وہ ایک تنہا عورت تھی اور تنہا عورت پانی کی لہر پر بہتے ایک تنکے سے بھی زیادہ کمزور ہوتی ہے,اور اس شخص نے تو اسے ساری دنیا کی گندی نگاہ سے بچا کر رکھا تھا,اس کے لئے اور اس کے بچوں کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا لوگوں کی انگلیاں تہمت کے لئے تو اٹھ جاتی ہیں مدد کے لئے ہاتھ نہیں بڑھتے,حاجی صاحب کے وجود سے اٹھتی خوشبو نورین کی سانسوں میں شامل ہو رہی تھی,چاند بالکونی سے جھانکنے لگا تھا.وہ قربت کا لمحہ آکر جا چکا تھا جس کا خواب مہینوں حاجی صاحب کی آنکھ نے دیکھا تھا,حاجی صاحب کی بانہوں کی گرفت سے نورین آزاد ہو گئی تھی لیکن تمام عمر کے لئے ایک نئے رشتے کی زنجیر میں قید ہو گئی تھی,گھر لینا حاجی صاحب کے لئے مسلہ نہیں تھا اور شفٹنگ بھی مشکل نہ تھی,نورین تو صرف بچوں کی انگلیاں تھام کر نکلی تھی سارا کام تو حاجی صاحب کے بھیجے ہو ئے بندوں نے کیا تھا,حاجی صاحب تو بس قربت کے اس حسیں لمحے کی قید میں تھے جب نورین کی سانسوں کا ردھم ان کے دل کے بہت قریب تھا,وہ تنہائی میں بھی مسکرا رہے تھے.دنیا کا سب سے خوب صورت جذبہ محبت ہے.اور جو اس جذبے کا اسیر ہو جائے وہ کہیں کا نہیں رہتا.
جاری ہے
ارم ملک
https://www.facebook.com/errum.malik.5/posts/228162527634261
“