حاجی صاحب !
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
تیسری قسط :
ڈرائیور نے تنگ و تاریک گلی کے شروع میں ہی گاڑی کھڑی کی اور مستعدی سے نیچے اتر کر حاجی صاحب کا دروازہ کھولا.پاس کھیلتے بچے کھیل بھول کر لش لش چمچماتی گاڑی کو شوق سے دیکھنے لگے,کیا حکم ہے میں بچے کو بلا لاوں?خادم حسین نے مودبانہ انداز میں پوچھا.نہیں تمھارا جانا مناسب نہیں تم یہیں رکو,حاجی صاحب نے نظریں جھکائے جھکائے کہا,اور آگے بڑھے,نذیر کی وفات پر تو یہیں اسی کچی زمیں پر ٹینٹ لگے تھے مگر نذیر کا گھر دوسری منزل پر تھا,لوہے کی تنگ سیڑھیاں حاجی صاحب کے قدموں کی منتظیر تھیں,سیڑھیوں پر پانی اور قدرے کیچڑ بھی تھا,حاجی صاحب سنبھل سنبھل کر پاوں دھرتے یوں آگے بڑھے جیسے کسی دریا میں اتر آئے ہوں . عشق بھی کسی دریا سے کم نہیں,اپنے اندر اترنے والوں کو اکثر نگل لیتا ہے,مگر عاشق کب دشت,صحرا یا سمندر وں سے ڈرے ہیں.سامنے ہی ایک دروازہ تھا.جس کا رنگ جگہ جگہ سے اترا ہواتھا.دروازے پر نذیر احمد کے نام کی مُنی سی تختی آویزاں تھی.حاجی صاحب کا دل یوں دھک دھک کر رہا تھا کہ جیسے کوئی چوری کرنے آئے ہوں,حقیقت بھی یہی تھی ہوش سنبھالا تو والد صاحب نے دو اور دو چار کے چکر میں ڈال دیا,کاروبار میں پھنس کر جوانی کہیں راہ میں دھری رہ گئی,ماموں کی بیٹی زیب النسا سے عمر کے بائیسویں سال میں ہی بیاہ دیا گیا,وہ بھی کاروباری باپ کی بیٹی تھی,رومانس سے زیادہ پیسے کا حساب رکھنے والی,پھر اوپر نیچے کے پانچ بچے,جب طلب ہوتی تو وہ میسر نہ ہوتی,ساری زندگی خواہشات کو دبانے میں گزر گئی,دل موج مستی کو چاہتا بھی تو اللہ کا خوف ,خاندانی شرافت اور حسب نسب آڑے آجاتا,الحاج اکرم کا بیٹا بھلا عورتوں کو تاڑتااچھا لگتا ہے,لیکن دل کے کسی کو نے میں ایک خواہش کا ننھا دیا جلتا تھا.کسی پیار بھرے نازک لمس کی حسرت باقی تھی.اور اس دن نورین کو دیکھ کر انہیں یوں لگا ہاں تم ہی تھی وہ,لیکن کہاں تھی تم?
دروازے پر گھنٹی تو نہیں تھی,مجبورادروازہ بجانا پڑا,ایک دستک دو دستک کے بعد آواز آئی آجاو چاند دروازہ کھلا ہے,وہ کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر زور لگا کر دروازہ کھولا,دروازہ چوں چوں کا شور مچاتے ہوئے یوں کھلا جیسےانجان مہمان کے آنے پر احتجاج کر رہا ہو,حاجی صاحب نے دروازے کے سامنے ٹنگا ملگجا سا پردہ ہٹایا تو سامنے ہی نورین شلوار ٹخنوں سے اوپر کئے ڈوپٹےسے بے نیاز. جھاڑو پکڑ کر فرش دھو رہی تھی,پاس ہی لوہے کی بالٹی رکھی تھی,آ بھی جاو چاند.گھنٹے لگا دیتے ہو وہ سر جھکائے ہوے اپنی دھن میں بولی,حاجی صاحب نے کھنکار کر گلہ صاف کیاتو نورین حیرت سے آنے والے کو پاوں سے لے کر سر تک دیکھنے لگی,اچانک اسکے اوسان بحال ہوئے تو بھاگ کر پاس پڑی چارپائی سے اپنی اوڑھنی اٹھا کر سینے اور سر پر لپیٹتی ہوئی بولی اسلام علیکم حاجی صاحب آپ آئیں نا,اور چارپائی پر بکھری بچوں کی کتابیں سمیٹ کر دو سُوتی چادر درست کی اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا.حاجی صاحب دھیرے دھیرے آگے بڑھے اور چارپائی کے کنارےپر بیٹھ گئے. اتنی دیر میں چاند بھی پانی سے بھرا ہوا ڈول اٹھائے گیلے چپلوں سے شڑپ شڑپ کرتا ہوا آگیا,حاجی صاحب کو بیٹھا دیکھ کر وہ ٹھٹھک سا گیا.حاجی صاحب نے اسے پیار سے پاس بلایا,کچھ دیر اس سے باتیں کرتے رہے .نذیر کی منجھلی بیٹی زارا بھی ان کے پاس آگئی,نورین نے اشارے سے چاند کو بلایا اور گلی کی نکڑ کی دوکان سے چاند کو بسکٹ لانے کے لئے دوڑایا اور خود اپنا لباس درست کر کے پاس رکھے موڑھے پر آبیٹھی.چاند بتا رہا یے کہ اس کا ایڈمیشن نہیں ہوا اس سکول میں,حاجی صاحب نے سوال کیا.جی وہ کہتے ہیں غیر حاضری زیادہ ہو گئی ہے,اب بچہ نہیں چل سکتا.اب اگلے سال داخل کرانا یا ایک جماعت پیچھے بٹھائیں,وہ ادب سے نظریں جھکائے بولی,اس طرح تو اس کا ایک سال ضائع ہو جائے گا,وہ بو لے,جی جی یہی تو دکھ ہے,وہ جلدی سے بولی,اب بھلا نورین کو کوئی دکھ ہو اور حاجی صاحب چین سے بیٹھ جائیں,کیسے یو سکتا ہے,فورا موبائل نکالا اور کسی سے بات کرنے لگے,درمیان میں نورین سے چاند کی کلاس بھی پو چھی,فون بند کر کے بولے .چاند کا سال ضائع نہیں ہو گا میرے بہت اچھے دوست ہیں سجاد صاحب.پرنسپل ہیں دارِارقم کے.دینی اور دنیاوی دونوں تعلیم کا مرکز ہے ان کا.آپ صبح نو بجے چلے جانا.نورین بہت ممنون تھی,اور چائے لے آئی تھی,حاجی صاحب کا یہ چائے پینے کا ٹائم نہیں تھا لیکن چائے جن ہاتھوں نے بنائی تھی ان ہاتھوں کی چاہ میں وہ بھی پی لی,اس دوران خاموشی رہی.حاجی صاحب کی نظریں جھکی رہیں اور نورین کے گورے چٹے پاوں جو کالے چپلوں میں اور بھی سفید اور گلابی لگ رہے تھےمیں الجھی رہیں,اٹھنے لگے تو کل سجاد صاحب کے پاس جانے کی تاکید کرتے ہوئے انہیں خیال آیا کہ کہیں نورین سجاد کے پاس جائے تو اس کا دل بھی.. اس سے آگے وہ سوچ نہ سکے اور جلدی سے بولے آپ کوقطعا وہاں جانے کی ضرورت نہیں صرف پچھلے سکول کا سرٹیفکیٹ اور برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ آپ چاند کو آٹھ بجے تیار رکھنا,میرا ڈرائیور اور پی اے آکر لے جائے گا اور ایڈمیشن کروا کےکتابیں اور یونیفارم کے ساتھ گھر چھوڑجائے گا.جی اچھا,نورین نے کہا تو حاجی صاحب کو سکون سا مل گیا,اپنی چیز دوسروں کی نظر سے بچا کر رکھنی چاہیے.آجکل تو کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا,انہوں نے داڑھی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا اور رقم کا لفافہ نورین کی طرف بڑھایا,جی اس کی کیا ضرورت ہے ابھی پہلے پیسے پڑے ہیں نورین سادگی سے بولی,نہیں یہ آپ کا حق ہے میری طرف,انہوں نے پہلی بار نورین کی خوبصورت آنکھوں میں جھانکنے کی جُرات کی اور تیزی سے باہر کی طرف بڑھ گئے.شام اور رات پھر بے قرار ہی گزری.ڈوپٹے سے بے نیاز نورین کا نازک سا وجود اور ماتھے پر بکھری بالوں کی لٹیں معصوم سا حسن اور حیرت بھری آہو نگاہوں سے انہیں دیکھنا دل میں درد اور سینے کی حدت کو بڑھاتا رہا,اور بند لبوں سے استغفار کا ورد کرتے کرتے گنگنانے لگے
بے حجابانہ وہ سامنے آگئے اورجوانی جوانی سے ٹکرا گئی,آنکھ ان کی لڑی یوں میری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آگیا
جاری ہے
ارم ملک
https://www.facebook.com/errum.malik.5/posts/228066274310553
“