حاجی صاحب
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
دوسری قسط :
شام میں دوستوں کی محفل سجتی ,دینی دنیاوی بحث وتکرار ہوتی,حاجی صاحب گفتگو میں پیش پیش ہوتے.لیکن آج طبيعت بیزار بیزار سی تھی,جلدی ہی اٹھ کر گھر کو چل دیئے,عموما دس بجے واپسی ہوتی تو کھانا چُنا جاتا,آج نو بجے ہی آگئے,لاونج میں بچھے پلنگ پر زیب النسا بیگم پاوًں, پسارے لیٹی تھیں,خادمہ پاوں داب رہی تھی,انہیں دیکھتے ہی بولی خیریت تو ہے نا آج جلدی آگئے.غلطی ہو گئی وہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھے,ماجد بھاگو حاجی صاحب کو کپڑے وغیرہ دو.زیب النسا نے خادم لڑکے کو بھگایا,رات کا کھانا سب اکھٹے کھاتے تھے,اسی بہانے سب سے ملاقات ہو جاتی تھی,باورچی قسم قسم کے کھانوں سے میز بھر دیتا,حاجی صاحب خوب دل لگا کر کھاتے,لیکن آج کسی چیز میں ذائقہ نہیں تھا,جلدی ہی اٹھ گئے,اور نماز کی تیاری کرنے لگے,رکوع تک ٹھیک رہا پھر اچانک چھم سے سامنے نورین آن کھڑی ہوئی,سجدے میں بھی روبرو تھی,نماز پڑھ کے لاحول پڑھ کر اس کے خیال کو جھٹکا,استغفار کا ورد کیا,سونے آئے تو زیب النسا آدھے سے زیادہ بیڈ پر قابض تھی,خراٹے لیتا گوشت کا پہاڑ آج انہیں بالکل نہ بھایا,ایک کونے پر ناراض سے ہو کر منہ موڑ کر انکھیں موند لیں,دل کی دنیا بدل چکی تھی,عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک تو لوگوں کو اکثر ہی آتے دیکھا ہے مگر عشق حقیقی سے عشقِ مجازی کا یہ سفر ایک کڑی شرط تھا,ایمان کی آزمائش تھی,مگر عورت کا جسم کمزور سہی اسکے وجود کی کشش سے انکار ممکن نہیں,بڑے بڑے سادھو عشق کی راہ میں منہ کے بل گرئے ہیں,بہت سے دن سرک گئے تھے ہر ملاقاتی پر حاجی صاحب کو گمان ہوتا شاید وہ آئی ہو,مگر مایوسی ملتی .جمعے کے روز پہلے ٹائم گھر ہوتے,رشتے دار دوست ملنے آتے,سارا دن ناشتہ چلتا,سہہ پہر کو دفتر جاتے,جمعہ پڑھ کر سفید براق پو شاک میں خوشبو میں بس کر گھر سے نکلے تو خادم حسین نے حاجی صاحب کی پسند نصرت فتح علی خان کی سی ڈی لگا دی,
میرے رشکِ قمر تیری پہلی نظر یوں نظر سے ملی کہ مزا آگیا ,برق سی گر گئی کام ہی کر گئی.آگ ایسی لگائی کہ مزا آگیا…..
الفاظ اور ساز کے ردھم نے ماحول سا بنا دیا.حاجی صاحب کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا,پچھلی سیٹ پر براجمان تھے.بٹن دبا کر فل شیشہ کھول دیا,ٹھنڈی ہوا کے مست جھونکے داڑھی سے ٹکرائے,دل میں گدگدی سی ہوئی,اور دل بے قرار ہوگیا,ضروری تو نہیں کہ ہر بار یار ہی چل کے آئے کبھی کبھی سو ہنے کے درشن کے لئے اپنی حاضری دینا بھی ضروری ہیے,انہوں نے سوچا.
خادم حسین نذیر ڈرائيور کے گھر چلو,وہ بولے.
جاری ہے
ارم ملک
“