::: حاجی لق لق : اردو کے مزاحیہ ادب اور صحافت کا اہم نام جن کو ہم بھلا چکے ہیں:::
============================================
حاجی لق لق پیٹی، حاجی لق لقؔ ضلع لاہور کی تحصیل قصور کے قصبہ پتےمیں ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئےآپ کی پیدائش 14 نومبر 1894 میں پیدا ھوئی ۔ حاجی لق لق اصل نام عطا محمد چشتی جب کہ قلمی نام حاجی لق لق ہے۔ آپ کے والد کا نام بندو علی تھا۔ آپ ایک عظیم صحافی، کالم نگار اور مزاح نگار کی حثیت سے جانے جاتے ہیں۔ حاجی لق لق اپنے قلمی نام ’’لق لق‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں بعض حضرات خطوں کے ذریعے میرے قلمی نام ’’لق لقؔ ‘‘ کی وجہ تسمیہ پوچھا کرتے ہیں اس لیے میں بازیابی چاہتا ہوں کہ اپنے ’’اسم گرامی ‘‘یا یوں کہیے کہ اسم’’طیوری ‘‘کی تشریح کردوں میں تقریباً پانچ (۵)سال تک عراق میں رہا ہوں۔وہاں لم ڈھینگ قسم کا ایک پرندہ ہوتا ہے جسے حاجی لق لقؔ کہتے ہیں۔حاجی اس لیے کہ ایک خاص موسم میں یہ ہجرت کرکے کہیں دوسرے ملکوں میں چلا جاتا ہے۔ اور کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس آجاتا ہے عراق والوں کا خیال ہے کہ حج کرنے کے لیے جایا کرتا ہے۔ میری ٹانگیں ذرا لمبی ہیں اور حاجی لق لق پرندے کی ٹانگیں بھی طویل ہوتی ہیں ۔اس لیے میرے عرب دوست اس رعایت سے حاجی لق لق کہا کرتے تھے ۔ جب میں نے ہندوستان آکر دنیائے صحافت میں قدم رکھا تو مجھے ظریفانہ رنگ میں لکھنے کا خیال بھی آیا۔اس کے ساتھ یہ فکر ہوئی کہ اس رنگ میں لکھنے کے لیے کوئی قلمی نام بھی ہونا چاہیے مجھے فوراً اس نام کا خیال آیا جس سے میرے عرب دوست مجھے یاد کرتے تھے یعنی حاجی لق لقؔ ۔‘ ‘
حاجی لق لق نے ابتدائی تعلیم پٹی سے حاصل کی اور پھر لاہور آگئے اور باقی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔حاجی لق لقؔ کی تعلیم انٹرنس تھی۔۔ ’’۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران میں فوج میں کلرک بھرتی ہوکر مشرق وسطیٰ میں چلے گئے۔پندرہ سولہ برس فوج کی ملازمت میں ملک سے باہر رہے۔شعر وادب کا ذوق تھا۔واپس آئے تو ادارہ ’’زمیندار‘‘سے منسلک ہوگئے ۔ابتداء میں ابو العلا چشتی کا قلمی نام اختیار کیا۔پھر حاجی لق لقؔ ہوگئے۔ایک روایت کے مطابق انھوں نے اپنی صحافت کا آغاز۱۹۳۲ء میں مولانا عبدالمجید سالک کے رسالہ ’’فانوس خیال ‘‘سے کیا۔ ان کا قلم روزنامہ ’’شہباز‘‘روزنامہ ’’انقلاب‘‘ روزنامہ ’’مغربی پاکستان ‘‘روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘روزنامہ ’’احسان‘‘اور ’’ناقوس‘‘میں بھی جولانیِ طبع کے رنگ دکھاتا رہا۔’’لقلقہ ‘‘کے نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا ۔جو زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ ’’زمیندار ‘‘کے علاوہ آپ ’’نوائے پاکستان ‘‘ ، ’’احسان‘‘،’’شہباز‘‘اور ’’مغربی پاکستان ‘‘میں بھی کالم نویسی کرتے رہے زندگی کے آخری ایام میں ’’زمیندار ‘‘میں ’’فکاہات‘‘کا کالم لکھ رہے تھے ۔ ادب کثیف ،اردو کی پہلی کتاب ،آدم اللغات ،بوتل ،پروازِلق لق ،تقدیر کشمیر،جناح اور پاکستان ، حاجی لق لق کے افسانے ،حیدر آباد دکن کے دو ہیرو، درانتی ،رفتارِ پاکستان ،مضامین لق لقؔ اور عالمی معلومات کے نام سے ان کی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اپنی کتاب ’’درانتی اور دوسرے مضامین ‘‘میں لکھتے ہیں ۔
’’جرمنی والے کی بڑی لڑائی کے ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ جب ہم انٹرنس فیل ہونے میں دوسری دفعہ کامیاب ہوئے تو خدا بہشت نصیب کرے ہمارے والد بزرگوار کوفرمانے لگے یہ تمہارے بس کا روگ نہیں بھلا ہم زمینداروں کو انگریزی سکولوں سے کیا واسطہ؟اور یہ بھی تمہاری والدہ کی ضدتھی کہ وہ تمہیں ٹکٹ کلکٹربنانا چاہتی تھی ۔ورنہ میں تو شروع ہی سے انگریزی تعلیم کو مسلمانوں کے لیے اور خصوصاًزمینداروں کے لیے حرام سمجھتا ہوں۔ انھوں نے کبھی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ حاجی لق لق نے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کی ، "لق لق" ان کا تخلص تھا۔ ان کی تحریں بچے بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ زمیندار'، 'شہباز ' اور 'احسان' سمیت کئی اھم اخبارات اور جرائد میں لکھتے رھے۔. انہوں نے ادبی سرگرمیوں کے علارہ برطانوی ہند کی فوج میں خدمات بھی سر انجام دیں. شورش کاشمیری نے انھیں "نورتن" کہا اور حاجی لق لق کو خراج عقیدت پیش کیا اور وہ ان شخصیات میں شامل تھے جنھوں نے صحافت کو ادبی مہارت اور رچاؤ کے ساتھ اردو صحافت کو نیا رنگ دیا۔. تقسیم ھند کے بعد حاجی لق لق نے آغا شورش کاشمری کے ہفتہ وار "چٹان" کے ساتھ منسلک ھو گئے اور انھوں نے شورش کاشمیری کی سوانح عمری "سرگذشت" لکھنے میں حصہ لیا۔حاجی لق لق اصل نام عطا محمد چشتی جب کہ قلمی نام حاجی لق لق ہے۔ آپ ایک عظیم صحافی، کالم نگار اور مزاح نگار کی حثیت سے جانے جاتے ہیں۔
حاجی لق لق ، مولانا نواب الدین رمدسی کے مرید بھی رھے۔ اور ایک عرصے تک اپنے نام کے ساتھ " چشتی"بھی لکھتے رھے۔
ان کی ایک نظم " آمدنی اور خرچ " ملاخطہ کریں:
کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں
کہ بزاز و خیاط کا بل چکاؤں
دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں
کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں
خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں
بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ
ادھر نل کے آب رواں کا کرایہ
بقایا ہے 'برق تپاں' کا کرایہ
زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ
ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری
کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری
شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری
یہ آدم کی ایجاد بندہ ضروری
بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں
عزیزوں کی امداد مہماں نوازی
غریبوں کو خیرات احساں طرازی
خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی
ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی
ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے
عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے
ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے
اور اک ساڑی والے کی دوکان بھی ہے
کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں
ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں
ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں
بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں
بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں
کسے داستان مصارف سناؤں
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں
ان کی شاعری میں مزاح کا عنصر غالب ہے۔انھوں نے عشق،محبت،حسن کے ساتھ معاصر سیاسی لیڈروں اور سیاسی رجحانات پر تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔ تحریف ان کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا اہم ہتھیار ہے اور معروف شعرا کی غزلیات کی پیروڈیاںان کے مجموعہ کلام’’منقار لق لق‘‘ میں شامل ہیں۔ غزلیات کے چند منتخب اشعار دیکھیے جن سے مزاح پوری طرح عیاں ہے :
وہ آئیں گھر پہ مرے مجھ کو اعتبار نہیں یہ میرا گھر ہے کسی پیر کا مزا ر نہیں
ترا مریض ہوں کسی ڈاکٹر کا گھر نہ بتا یہ درد عشق ہے ظالم کوئی بخار نہیں
حال تیرے ہجر میں کیا دیکھ دلبر ہو گیا روتے روتے میرا اوور کوٹ بھی تر ہو گیا
رات دن ہوتا ہے میرے دل کے ارمانوں کا خون دل میرا بھی شو مئی قسمت سے سکھر ہو گیا
عمر کے آخری ایاّ م میں حاجی لق لقؔ کی صحت جہاں جواب دے گئی تھی وہاں مالی پریشانیاں بھی ان کا مقدر ٹھہریں ۔جون ۱۹۴۰ء کے تقریباً وسط میں حاجی لق لق بیمار ہوئے اور آہستہ آہستہ ان کی بیماری شدت اختیار کرتی گئی۔اور بالآخرجان لیوا ثابت ہوئی اورہ بدھو‘ جی ٹی روڈ لاہورکے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ ۔جون ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۱ء تک حکومتِ پاکستان نے آپ کو ایک سوروپیہ ماہوار کے حساب سے وظیفہ دیا۔ اس کے علاوہ بیماری کے ایاّ م میں رائٹر گلڈکی جانب سے آپ کو امداد کے طور پرپانچ سو روپے کی رقم دی گئی اور اس ادارہ کی جانب سے مرحوم کی تجہیز وتففین کے لیے ورثاء کو دو سوروپے بھی دئیے گئے۔
حاجی لق لق کی وفات 28 ستمبر 1961 مین لاھور، پاکستان میں ھوئی ۔ ’’حاجی لق لقؔ شاعر تھے۔لیکن نام پایا تو مزاحیہ کالم نویسی میں ۔یہ مسلمہ بات ہے کہ سالکؔ اور حسرتؔ کے بعد قیام پاکستان سے پہلے اگر کسی نے جاندار مزاحیہ کالم لکھے تو حاجی لق لق تھے۔ انھوں نے مختلف اخباروں میں کام کیا۔لیکن زیادہ عرصہ زمیندار میں گزارا۔ان کے مزاح میں ادبی رنگ نمایاں تھا۔ اس چیز کوبعد میں مجید لاہوری نے بھرپور انداز میں اختیار کیا ۔اس کا آغاز حاجی لق لقؔ کے ہاتھوں ہوا۔‘‘
مخلوقِ خدا کو ہنسانے والا یہ ظریف عوامی ادیب وشاعر جب ۲۷ستمبر ۱۹۶۱ء کو راہِ عدم کو چلا تو لق لق کے شاگرداسیرنے قطع ۂ تاریخ وفات لکھا
استاد طنز خسروِ اقلیم علم و فن
خوشیوں کو تیری موت نے رنج و الم دیا
حزن و ملالِ مرگ بلا امتیازِ غیر
اک سا دیا سبھی کو کسی کو نہ کم دیا
سونا اسیر ہو گیا مے خانۂ مزاح
اس بزم کو ہے شاعرِ لق لقؔ نے غم دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہین اختر نےاپنے مقالے" حاجی لق لق کی سوانح حیات : ایک مطالعہ میں جاجی لق لق پر دویق تحقیقی کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ شا ہین اختر
لیہ(پاکستان ) نےحا جی لق لق کی سوانح حیا ت: ایک تحقیقی مطالعہ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا ہے۔ { شعبہ اردو، اسلام آباد یونیورسٹی، پاکستان}۔
دیگر حوالے جات:
== بڑوں کا بچپن ، شیدا ،مرتبہ،کراچی، محراب ادب ، ت ن ، ص 180 – 173
== لقلقہ ،حاجی لق لق ،لاہور، اُردو اکیڈیمی ،1939ء
== سُرورِ رفتہ. امیر چند بہار،پٹنہ، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، 1998ء ص 132 (وفات 26 دسمبر)
== لاہور کا دبستان شاعری، ڈاکٹر علی محمد خاں،لاہور، نشریات، 2008ء، ص 546
== وفیات ناموران پاکستان، ڈاکٹرمحمد منیر احمد سلیچ،لاہور، اُردو سائنس بورڈ ، 2006ء، ص 247
رسائل
== ماہنامہ "ہم قلم" کراچی شمارہ 1961ء سالگرہ نمبر صفحہ 306
== ہفت روزہ "ہماری زبان" دہلی شمارہ پہلی اکتوبر 1942ء، ص 11
کِتابیات (لق لق شناسی(
== فرشتوں کا امتحاں ، حاجی لق لق ، سید خادم حسین خادم ، مُرتب، امرتسر، پنجاب ایکاڈیمی ،1937ء ،72 ص
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔