( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ )
یہ پچھلی صدی کی پچاس کی دہائی کا آغاز ہے۔ دوسری جنگ عظیم جو اصل میں یورپ کی دو متحارب طاقتوں اور ان کے مفادات کی جنگ تھی، جس میں بعد ازاں روس، امریکہ اور جاپان بھی شامل ہو گئے تھے، کو ختم ہوئے پانچ سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں انگریزی کے ولیم گولڈنگ ( William Gerald Golding ) نامی استاد نے 1951ء میں ایک ناول لکھنا شروع کیا۔ ولیم گولڈنگ اس سے قبل دوسری جنگ عظیم میں برطانوی رائل نیوی میں شامل رہا تھا اور اس نے جرمنی کے بحری جنگی جہاز ڈبونے کے علاوہ نارمنڈی پر حملے میں بھی شرکت کی تھی۔ وہ اس سے پہلے استاد تھا اور بعد میں بھی1961 تک تدریس سے وابستہ رہا۔ اسے 1980 ء میں اپنے ناول ’ Rites of Passage‘ پر ’ بُکر انعام ملا جبکہ 1983 ء میں اس کے کُل کام پر نوبل انعام برائے ادب سے بھی نوازا گیا ۔
اس ( 1911ء تا 1993ء ) نے یہ ناول ’Stranger from Within‘ کے نام سے لکھا۔ اسے ناشر نے نہ چھاپا۔ اس نے بالآخر اسے ستمبر 1953 ء میں ناشر ’فیبر اینڈ فیبر‘ کو بھیجا۔ انہوں نے اس کو پہلے تو ’Rubbish & dull. Pointless‘ قرار دیا لیکن انہی کے ایک ایڈیٹر چارلس موتیتھ (Charles Monteith)نے گولڈنگ سے اس میں کچھ تبدیلیاں کروائیں اور اس کا نام ’مکھیوں کا دیوتا ( Lord of the Flies) رکھ کر ستمبر 1954 ء میں ’فیبر اینڈ فیبر‘‘ سے ہی شائع کروایا۔ اس نے یہ نام انجیل سے اخذ کیا تھا۔
آج اس ناول کو چھپے لگ بھگ 68 برس ہو چکے ہیں اور یہ اردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ شروع میں نہ پسند کیا جانے والا یہ ناول، جس کی چند سو کاپیاں ہی بک پائی تھیں، ای ایم فوسٹر کے پسند کیے جانے پر دھڑا دھڑ بکنے لگا۔ اُس نے اِسے اُس سال کا بہترین ناول قرار دیا تھا۔ ای ایم فوسٹر نے 1962ء میں اس کے چھپنے والے ایڈیشن کا پیش لفظ بھی لکھا تھا ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ناول کیا ہے اور ناقد اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ ناول 1960 کی دہائی کے ابتدائی سالوں سے ہی انگریزی دنیا کے بہت سے سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں شامل ہے۔
یہ ناول کیا ہے؟
یہ ناو ل چھوٹے بڑے لڑکوں کے ایک گروہ کی کہانی ہے جو خود کو ایک بیابان اور سنسان جزیرے پر اکیلا پاتے ہیں۔ وہ وہاں کیسے پہنچے یہ بات بعد میں کھلتی ہے۔ وہ پہلے قواعد و ضوابط مرتب کرتے ہیں اور خود کو منظم کرنے کا نظام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چونکہ بچے ہی ہیں اور ان کے ساتھ کوئی بڑا (بالغ) نہیں، اس لیے جلد ہی یہ لڑکے تشدد پر اتر آتے ہیں اور وحشی ہو کر ظالم بن جاتے ہیں۔ ولیم گولڈنگ اس ناول کے ذریعے یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان بنیادی اور جبلی طور پر وحشی ہے۔
تنظیم
ناول کے پہلے باب ’گھونگے کی آواز‘ میں ہم دو کرداروں سے ملتے ہیں۔ یہ رالف نامی لڑکا اور موٹے شیشوں کی عینک پہنے ایک فربہ بچہ ہیں۔ یہ ساحل سمندر پر اپنے سکول کا یونیفارم پہنے چل رہے ہیں۔ ہمیں جلد ہی یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ دونوں، بچوں کے اس گروپ کا حصہ ہیں جنہیں جنگ کے دوران ان کے رہائشی علاقوں سے نکالا گیا تھا اور وہ اس ہوائی جہاز کے تباہ ہونے کے بعد زندہ بچے ہوئے بچوں میں سے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا جہاز دشمن کے حملے کی وجہ سے تباہ ہوا۔ رالف اور دوسرے بچے کو جب یہ احساس ہوتا ہے کہ آس پاس کوئی بڑا نہیں ہے تو وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح زندہ بچے ہوئے دیگر بچوں کو اپنی طرف متوجہ کریں۔ فربہ بچہ رالف کو بتاتا ہے کہ دوسرے لڑکے اسے ’پِگی‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ رالف کو ساحل پر سے سیپ کا ایک خول ملتا ہے ۔ وہ اس میں پھونک کر آواز نکالتا ہے اور وہ اس کے شور سے دوسرے لڑکوں کو اکٹھا کر لیتا ہے۔ رالف کو یقین ہے کہ انہیں جلد ہی ڈھونڈ نکالا جائے گا لیکن پِگی اس سے بحث کرتا ہے کہ انہیں منظم ہونا چاہیے، شاید انہیں کچھ عرصے تک کوئی نہ ڈھونڈ پائے۔ دوسرے بچے رالف کو اپنا رہنما چُن لیتے ہیں لیکن یہ سب بچوں کا متفقہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ دعائیہ گیت گانے والے لڑکے جن کا لیڈر جیک میریڈیو ہے، رالف کو ووٹ نہیں دیتے۔ رالف انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ شکار کرنے والا اپنا ایک گروپ بنا لیں۔ رالف جلد ہی بچوں کی ایک تنظیم کھڑی کر لیتا ہے اور اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ لڑکوں کی آزادی سلب نہ ہو، قواعد بناتا ہے۔ ان قواعد کا دائرہ ’ باہمی بقاء ‘ پر محیط ہے۔ وہ پِگی کی عینک اور لکڑیوں کی مدد سے ساحل پر آگ جلاتے ہیں تاکہ ان کی مدد کو آنے والے متوجہ ہو سکیں۔ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ جس بچے کے ہاتھ میں سیپ کا خول ہو گا اس کی بات کاٹی نہیں جائے گی اور دھیان سے سنی جائے گی۔ وہ چھوٹے بچوں کے لیے درختوں کی لکڑیوں اور پتوں سے سائبان بنانے کا بھی فیصلہ کرتے ہیں۔ رالف، جیک اور سائمن نامی لڑکا مل کرسارے جزیرے کا چپہ چپہ چھانتے ہیں اور یہ جان لیتے ہیں کہ وہاں وہ اکیلے ہیں۔ وہ وہاں پھلدار درختوں اور جنگلی سور بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ سورؤں کے بارے میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ ان کا شکار جیک اور اس کے ساتھی کریں گے۔ پِگی گو رالف کا دوست ہے لیکن باقی بچوں سے الگ تھلگ رہتا ہے۔
بد نظمی
شروع میں یوں منظم ہونا زیادہ دن نہیں نکالتا۔ آہستہ آہستہ زیادہ تر لڑکے کام کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور سونے یا کھیل کود میں وقت گزارنے لگتے ہیں۔ راتوں میں ایک خوف لڑکوں کو گھیرنے لگتا ہے کہ کوئی بھیانک عفریت یا تو درختوں سے نکل آئے گی یا پھر سمندر سے ۔۔۔ یوں ان میں افراتفری پھیلنے لگتی ہے۔ رالف بہت سمجھاتا ہے کہ بلائیں نہیں ہوتیں لیکن جیک ان کے وجود پر یقین رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی اسے ڈھونڈ کر مار ڈالیں گے۔ اس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
جیک کچھ لڑکوں کو ساتھ لے کر شکار کے لیے نکلتا ہے یوں وہ مسلسل آگ جلائے رکھنے کے فرض سے غافل ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھ جاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد ہی جزیرے کے پاس سے ایک کشتی گزرتی ہے لیکن وہ ، آگ اور اس سے اٹھتے دھوئیں کے نہ ہونے کی وجہ سے ، لڑکوں کی مدد کو نہیں آتی۔ جب جیک اور اس کے ساتھی لڑکے ایک سور کا شکار کرکے واپس لوٹتے ہیں تو رالف اور جیک میں تکرار ہوتی ہے کہ کیسے بچائے جانے کا ایک موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ جیک جانتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اوروہ رالف سے بحث نہیں کر سکتا۔ وہ اپنا غصہ پِگی پر نکالتا ہے اور اس کی عینک توڑ دیتا ہے۔
لڑکے جب سور کو آگ پر کچا پکا بھون کر کھانے لگتے ہیں تو رالف انہیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہے اور انہیں گوشت پکا کر کھانے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ اس کی بات نہیں مانتے۔ اس پر رالف پِگی کو کہتا ہے کہ وہ لڑکوں کی مزید اگوائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پِگی اسے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ یوں جیک مزید اَتھرا ہو جائے گا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے نظم و ضبط پارہ پارہ ہو چکا ہوتا ہے۔
عفریت
ایک رات جزیرے کے پاس متحارب طاقتوں کے جنگی ہوائی جہازوں کی لڑائی ہوتی ہے۔ ایک جنگی پائلٹ اپنے جہاز سے پیرا شوٹ سے باہر چھلانگ لگاتا ہے۔ وہ ہوا ہی میں دشمن کی گولیوں سے چھلنی ہو جاتا ہے۔ اس کی لاش پیرا شوٹ سے لٹکی جزیرے پر اتر کر درختوں میں پھنس جاتی ہے۔ ایک لڑکا اسے دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے عفریت کو دیکھ لیا ہے۔ جیک، رالف اور راجر نامی لڑکا عفریت کا شکار کرنے نکلتے ہیں ۔ وہ لاش دیکھ کر ، اسے عفریت سمجھ کر خوفزدہ ہوتے ہیں اور وہاں سے بھاگ اٹھتے ہیں۔
عفریت واقعی ہے، یہ سمجھ کر رالف ایک اجلاس طلب کرتا ہے۔ جیک باغی ہو جاتا ہے لیکن زیادہ تر لڑکے رالف کے خلاف ووٹ دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ جیک یہ کہتا ہوا ان سے الگ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا جتھہ جسے وہ قبیلہ کہتا ہے ، بنائے گا۔ راجر بھی اس کے ساتھ نکل جاتا ہے۔اسے دیکھ کر دعائیہ گیت گانے والے باقی لڑکے بھی جیک کے ہمراہ چل دیتے ہیں۔ وہ جنگلیوں اور وحشیوں کی طرح اپنے چہرے اور جسم رنگنے لگتے ہیں۔ ان کے برعکس رالف، پِگی اور سائمن سائبانوں میں کسی حد تک نظم و ضبط برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سائمن جسے کوئی ذہنی مسئلہ بھی ہے اکثر تنہائی کی خاطر جنگل میں اکیلا نکل جاتا ہے۔ وہ چھپ کر دیکھتا ہے کہ جیک اور اس کے ساتھی عفریت کو دور رکھنے کے لیے ایک رسم ادا کرتے ہیں اور سور کا سر کاٹ کر بطور قربانی اُسے ایک نوکدار لکڑی پر ٹانگ کر زمین میں گاڑ دیتے ہیں۔ جس پر جلد ہی مکھیاں بھنبھنانے لگتی ہیں۔ وہ واہمے کی حالت میں اس سے باتیں کرنے لگتا ہے اور اسے ’مکھیوں کا دیوتا‘ کا خطاب دیتا ہے۔ اسے سور کا سر یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ وہ بیوقوف ہے کہ اسے عفریت ایک جیتی جاگتی حقیقت لگتی ہے جبکہ اصل بلائیں تو خود لڑکے ہیں۔ مکھیوں کا دیوتا اسے یہ بھی بتاتا ہے کہ دوسرے لڑکے اسے مار دیں گے کیونکہ وہ انسانیت کی روح ہے۔
سائمن وہاں سے چل دیتا ہے اور گھومتے پھرتے ایک بار پھرپائلٹ کی لاش دیکھ کر یہ یقین کر لیتا ہے کہ عفریت یا بلا جیسی کسی شے کا وجود نہیں اور انہوں نے ایک انسانی لاش کو عفریت سمجھ لیا ہے۔ وہ جیک اور اس کے ساتھیوں کی طرف لوٹتا ہے تو وہ جنگلیوں کی طرح رقص میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ سائمن کو عفریت سمجھتے ہیں جو درختوں کے بیچ سے ان کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ خوفزدہ ہو کر اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور اسے مار دیتے ہیں۔
انتشار، بغاوت اور بازیافت
اس دوران جیک کو احساس ہوتا ہے کہ سیپ طاقت کی علامت ہے اور اصل طاقت پِگی کی عینک ہے جس سے آگ جلائی جا سکتی ہے۔ اس وقت تک اسے لڑکوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ رالف اور اس کے ساتھی بچوں پر حملہ کرکے پِگی کی عینک چھین لیتا ہے۔ رالف ہِگی اور دو جڑواں بھائیوں، سیم اور ایرک کے ہمراہ جیک کی چٹانوں میں بنی پناہ گاہ، جسے وہ چٹانی قلعہ کہتے ہیں، میں سیپ لیے جاتا ہے اور جیک سے مطالبہ کرتا ہے کہ پِگی کی عینک اسے واپس کی جائے۔ جیک کے ساتھی سیم اور ایرک کو جکڑ لیتے ہیں۔ جیک اور رالف میں لڑائی ہوتی ہے۔ پِگی خطرہ محسوس کرتے ہوئے سیپ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور لڑکوں سے مخاطب ہو کر انہیں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی تلقین کرنے لگتا ہے۔ راجر وہاں سے ہٹ کر چٹان پر جا چڑھتا ہے جس کے نیچے پِگی کھڑا ہے۔ وہ ایک لاٹھی کی مدد سے ایک بھاری پتھر پِگی پر لڑھکا دیتا ہے جس سے پِگی مر جاتا ہے اور سیپ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ رالف یہ دیکھ کر وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ جیک کے ساتھی جڑواں بھائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے جتھے میں شامل ہوجائیں۔ وہ ناچاری میں ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
جیک اپنے شکاری ساتھیوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رالف کا پیچھا کریں اور اسے مار دیں۔ وہ رالف کے سر کو عفریت کے لیے نئی بھینٹ بنانا چاہتا ہے۔ رالف جنگل میں جا چھپتا ہے۔ اسے باہر نکالنے کے لیے جیک اور اس کے ساتھی جنگل میں آگ لگا دیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے جنگل میں آگ پھیل جاتی ہے۔ رالف جان بچانے کے لیے ساحل پر دوڑتا چلا جاتا ہے۔ اسے ٹھوکر لگتی ہے اور وہ گر جاتا ہے۔ جب وہ نظریں اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کے سامنے برطانوی بحری فوج کا ایک افسر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک بحری جہاز نے جزیرے پر لگی آگ کو دیکھ لیا ہوتا ہے اور وہ جانچ کے لیے ایک کشتی میں کچھ فوجی ادھر بھیجتا ہے۔
رالف اور جیک سمیت سارے لڑکے شدید رنج و الم کے عالم رونا شروع کر دیتے ہیں۔ افسر انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور اس کے چہرے پر مایوسی کے تاثرات ابھرتے ہیں کہ کیسے برطانوی لڑکے اس بد نظمی اور وحشی پنے کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ مڑ کر اپنی کشتی کو دیکھتا ہے اورپھر اس کی نظر دور کھڑے اپنے جنگی جہاز پر جاتی ہے۔ شاید اُسے اپنے اور اپنے جیسوں کے جنگی جنون پر تشویش گھیر لیتی ہے۔
یہ خلاصہ ہے اس ناول کا جو بارہ ابواب اور لگ بھگ دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس اہم ادبی تحریر کو امریکہ کے ناقد اب تک کس طرح سے دیکھتے آئے ہیں لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ ’لارڈ آف فلائیز‘ کے چھپنے سے پہلے ایک امریکی ناول ’کیچر اِن دا رائی‘ (The Catcher in the Rye) بچوں اور بڑوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ یہ جے ڈی سلنگر (J. D. Salinger) کا ناول ہے جو 1951 ء میں سامنے آیا تھا۔ اُس کے بنیادی خیال ’انسانی احساس خوف و کرب‘جس کا بہترین اظہار ایڈوارڈ منچ اپنی پینٹنگ ’چیخ‘ (The Scream 1893) میں کرتا ہے، ’معاشرتی تنہائی‘ اور’معاشرے میں سطحیت‘ ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک سترہ سالہ نوجوان ہولڈن کالفیلڈ ہے جو اپنے بچپن کی معصومیت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ ’لارڈ آف فلائیز‘ نے شائع ہونے کے بعد اس امریکی ناول کی مقبولیت پر خاصا گہرا اثر ڈالا تھا۔
لارڈ آف فلائیز کے شائع ہونے کے بعدامریکی نقاد جیمز رابرٹ بیکر (James Robert Baker )، 1946 تا 1997 نے اپنی تحریروں میں اس بحث کا آغاز کیا کہ یہ ناول، دیگر ناولوں جیسے کہ رابنسن کروسو (1719 ء) اور ’سوئس فیملی روبنسن‘(1858 ء) کی بجائے کیونکر انسانی جبلت کے قریب تر ہے۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ یہ بیلنٹائن کے 1858 ء میں شائع ہوئے ناول ’دی کورل آئی لینڈ (The Coral Island) کی ہجو (پیروڈی) ہے۔ بیلنٹائن (Ballantyne) انسان کی اچھائیوں پر یقین رکھتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ انسان اپنی بدقسمتیوں اور مصیبتوں پر احسن اور خوش اسلوبی سے قابو پا لیتا ہے۔ اس کے برعکس گولڈنگ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ انسان جبلی طور پر وحشی ہے اور یہی وحشیانہ پن اسے وراثت میں ملتا ہے۔ بیکر کا اپنا ماننا تھا : ”جزیرے پر دکھائی گئی زندگی اس بڑے المیے کا ہی پرتو ہے جس میں جزیرے سے باہر کی دنیا میں بالغ افراد بھی مناسب خوش اسلوبی سے بنائی گئی اپنی حکومتوں کے ذریعے زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سب بھی بالآخر اسی کھیل کا شکار ہو جاتے ہیں جسے’شکار کرو اور مار ڈالو‘ کہتے ہیں۔ یوں اس کا ماننا ہے کہ گولڈنگ نے لارڈ آف فلائیز کے ذریعے ’معاشرے کی خامیوں‘ پر روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے۔
اُس وقت زیادہ تر نقاد گولڈنگ کو ایک مسیحی اخلاقیت پسند کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ بیکر ان کے اس خیال کو رد کرتا ہے اور لارڈ آف فلائیز کو مسیحت کی بجائے عقلیت کی بنیاد پر دیکھتا ہے۔ وہ یہ تو مانتا ہے کہ یہ ناول انجیل میں بیان کی گئی ’قیامت‘ کی پشین گوئی کے متوازی تو چلتا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ تاریخ بننے کا عمل اور دیومالاؤں کے بننے کا عمل اصل میں ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے مضمون ’اور کوئی راستہ کیوں نہیں؟‘ (? Why its No Go) میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے اثرات نے گولڈنگ کو یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ اس طرح کی تحریر لکھے جو وہ پہلے لکھنے کا اہل نہیں تھا۔ بیکر یہ بھی لکھتا ہے کہ گولڈنگ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ کس طرح انسانی حکمت اس سے بھی پہلے قدیم روایتی جنگوں میں ضائع ہوتی رہی۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ لارڈ آف فلائیز کا بین السطور خیال ’جنگ‘ہے اور اُس دہائی میں اور بعد کے سالوں میں نقاد اس کی کہانی کو سمجھنے کے لیے اسی طرح ’مذہب‘ کی طرف لوٹے جس طرح عام لوگ اس تباہی جوجنگ پھیلاتی ہے،کے بعد، اپنی بحالی کے لیے ’مذہب‘ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
1970 ء میں بیکر نے لکھا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ اس کی کہانی سے واقف ہیں، اپنے چھپنے کے چودہ سال بعد ہی لارڈ آف فلائیز مارکیٹ میں سب سے زیادہ مقبول ناول بن گیا تھا اور یہ ایک ماڈرن کلاسیک کا درجہ بھی پا گیا تھا لیکن 1970 ء میں اس کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ گولڈنگ کو جبکہ 1962 ء میں ’لارڈ آف دی کیمپس‘ کہا جاتا تھا (یہ سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں شامل تھا )۔ اس کے آٹھ سال بعد ہی گولڈنگ کے اس ناول کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہوا کہ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں یہ دھماکہ خیز ناول اچانک بیٹھ گیا؟ بیکر یہ دلیل دیتا ہے کہ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ مانوس اشیاء سے جلدی بیزار ہو جاتا ہے اور نئی دریافتیں اس کا ہدف بن جاتی ہیں۔ ساتھ میں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس ناول کی مقبولیت میں کمی کی اور بھی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ رہی کہ دانشور کسی اور ’avant-garde‘ کی تلاش میں لگ گئے اور یہ ناول انہیں اس اعتبار سے بیزار کرنے لگا تھا لیکن یہ وجہ بھی اتنی اہم نہ تھی جتنی 1970 ء میں ہونے والے وہ احتجاج، ہڑتالیں، بڑے جلوس ، لانگ مارچرز اور فسادات تھے جن کی مختلف سماجی، معاشرتی اور سیاسی وجوہات تھیں۔ یہ امریکی ریاست کینٹ کے وہ واقعات بھی تھے جن میں چار طلبا ء مارے گئے تھے اور درجن بھر زخمی ہوئے تھے اور دنیا بھر میں ویت نام جنگ کے باعث ایک اور طرح کی بتاہی پھیلی ہوئی تھی۔ بیکر کا ماننا ہے کہ یہ تباہی امریکیوں کی روزمرہ زندگی اس طرح متاثر کر رہی تھی کہ ان کے لیے اس ناول سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں رہا تھا کیونکہ یہ اس تباہی کے متوازی ہی بیٹھتا تھا۔ لوگوں کو یہ جنگ ویسی ہی قیامت، بلا وجہ کی اشتعال انگیزی اور ماحولیات کے حوالے سے تباہی نظر آتی تھی جیسی اس ناول میں تھی۔ یہی بنیادی وجہ تھی کہ یہ اس وقت کے مزاج کے مطابق نہ رہا تھا اور اسی لیے دانشورانہ اور سیاسی سطح پر گولڈنگ ادبی دوڑسے باہر نکال دیا گیا تھا۔ دانشور یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ لوگ اس دور سے گزر چکے ہیں جس میں وہ اس طرح رد ِ عمل دکھا سکتے ہیں جیسے جزیرے پر پھنسے لڑکوں نے دکھایا۔ ویت نامیوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ اس ناول اور اس کی کہانی کی اہمیت نہ صرف کم ہو گئی ہے بلکہ ستر کی دہائی میں یہ وقت کے ساتھ مطابقت بھی نہیں رکھتا۔
امریکی ناقدوں کا یقین تھا کہ اس دہائی کے نوجوان ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں جن کا سامنا جزیرے کے لڑکوں کو کرنا پڑا تھا۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ یہ سب ساٹھ کی دہائی میں رہائشی سکولوں اور لائبریریوں کے سبب ہوا تھا لہذٰا، بیکر کے بقول اس ناول کوتالا بند الماریوں میں رکھا جانے لگا۔ اس وقت کے دونوں، روشن خیال و دقیانوسی سیاست دانوں کا موقف تھا کہ یہ کتاب ’تخریبی اور بیہودہ‘ ہے اور گولڈنگ کا وقت گزر چکا ہے۔ اُس وقت کا تصور یہ تھا کہ شیطانیت کا در آنا غیر منظم معاشروں کی دین ہوتا ہے ناکہ یہ ہر انسان کے دماغ میں موجود ہوتی ہے۔ گولڈنگ کو ایک بار پھر سے تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا کہ وہ مسیحی تصورات سے بری طرح متاثر ہے۔یہ بات بھی کی جانے لگی کہ گولڈنگ امریکی طرز ِ زندگی میں نوجوانوں کے اعتماد کو کھوکھلا کرنا چاہتا ہے۔
یہ ساری تنقید اس خیال پر مبنی تھی کہ انسانوں میں موجود شیطانیت کو مناسب سماجی ڈھانچے اور سماجی ہم آہنگی و معاشی مطابقت کے ذریعے سے درست کیا جا سکتا ہے۔ گولڈنگ کے بارے میں بیکر کا خیال ہے: وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ سماجی و معاشی ہم آہنگی انسانی معاشرے کی اصل بیماری کا نہیں اس کے اظہاریوں کا علاج کرتا ہے۔ نظریات کا یہی ٹکراؤ موجب بنا کہ امریکہ میں گولڈنگ کے اس مشہور ناول کی پذئیرائی پس ِ پشت چلی گئی۔
1972ء سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک گولڈنگ کے اس ناول پر بہت کم تنقیدی کام ہوا۔ اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ پڑھنے والے لوگ آگے بڑھ گئے تھے۔ناول پرانا ہو چکا تھا اور ان کا خیال تھا کہ اِسے کیوں پڑھا جائے۔ بیکر کے بقول اس کی ایک وجہ اور ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اپنی روزمرہ زندگی میں شکست و ریخت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے فارغ وقت میں اس جیسی تحاریر پڑھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ اس وقت کو تفریح میں گزارنا چاہتے ہیں۔ 1972ء میں اور بعد میں بھی امریکیوں کی ذہنیت یہ تھی کہ گولڈنگ نے یہ کتاب مسیحی آدرشوں کے تحت لکھی تھی۔ اس کے برعکس ویت نام کی جنگ دیکھنے والی نسل ایسی کسی پرانی کتاب، جس میں بین السطور مذہب چھپا ہو، پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ بھی ہے: دانشوروں نے لارڈ آف فلائیز کو اس لیے بھی حقیر جاننا شروع کر دیا تھا کہ اس میں ذہین کردار صرف ایک ہی ہے؛ پِگی۔ ممکن ہے کہ انہیں اپنے لیے بھی خطرہ محسوس ہوا ہو کہ پِگی کو سارے ناول میں تضحیک کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہاں تک کہ وہ مار دیا جاتا ہے۔ایسا ہی ایک دانشور اے سی کیپے (A C Capey) کہتا ہے کہ تضحیک کردہ پِگی جو ناول میں ذہانت اور قانون کی حکمرانی کا نمائندہ ہے ویسا کردار نہیں ہے جیسا کامیو کے ناول ’دی فال‘ کا ژاں کلیمینس (Jean-Baptiste Clamence) ہے۔
1980 کی دہائی کے آخری سالوں میں گولڈنگ کے اس ناول کو ایک اور انداز سے دیکھا گیا۔ ایان میکیوان (Ian McEwan) اسے اس آدمی کے نکتہ نظر سے دیکھتا ہے جو بورڈنگ سکول میں رہا ہو۔ وہ لکھتا ہے کہ گولڈنگ کا جزیرہ کسی حد تک ایک بورڈنگ سکول سے مماثل ہے۔وہ گولڈنگ کے جزیرے کے لڑکوں اور اپنے بورڈنگ سکول کے لڑکوں کو متوازی رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ جب میں نے آخری باب اور پِگی کی موت بارے پڑھا اور باقی بچوں کو رالف کے شکار کے لیے کوشاں پایا تو مجھے خاصی بے چینی محسوس ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ ہم نے بھی اپنے بورڈنگ ہاؤس میں دو لڑکوں کو کچھ اسی طرح اکیلا کر دیا تھا اور ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ ہم سب میں انہیں سزا، جسے ہم درست سمجھتے تھے، دینے کی شدید خواہش بیدار ہوئی تھی۔
1993 ء میں اس ناول کو ایک بار پھر مذہبی نکتہ نظر سے دیکھا گیا۔ لارنس فرائیڈمین نے لکھا کہ گولڈنگ کے قاتل لڑکے صدیوں سے موجود مغربی تمدن اور مسیحت کی پیداوار ہیں اور اس میں مسیحا کو سولی پر چڑھائے جانے کی روایت پھر سے دہرائی گئی ہے۔ وہ سائمن کے کردار کو مسیحا کے طور پر دیکھتا ہے اور اسے سچ اور روشن خیالی کا پرتو قرار دیتا ہے جسے اس کے ساتھی لڑکوں نے اپنے دیوتا پر قربان کر دیا تھا۔ یوں فرائیڈمین لارڈ آف فلائیر کو واپس اسی جگہ لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے جیسے بیکر نے اسے 1970 ء میں کھڑا کیا تھا۔ فرائیڈمین کو انسانیت کی گراوٹ پِگی کی موت میں نظر نہیں آتی وہ اسے اُس کی عینک چھین لیے جانے میں دیکھتا ہے۔
1997 ء میں لارڈ آف فلائیز کے دوبارہ شائع ہونے پر ای ایم فوسٹر (E. M. Forster) کا 1962 ء کا لکھا پیش لفظ اور ناول پھر سے زیر بحث آیا جس میں اس نے رالف، پِگی، سائمن اور جیک کے کرداروں پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا تھا۔
میں نے امریکی نقادوں کا تفصیل سے اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ ان کی اسی تنقید کے سبب 1954 ء کے اس ناول پر1981 ء میں ’نارتھ کیرولینا‘ کے اوون ہائی سکول والوں نے اسے سکول کے نصاب سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح اولنے، ٹیکساس میں بھی اسی قسم کا مطالبہ 1984 ء میں سامنے آیا۔ 1988 ء میں ٹورنٹو، کینیڈا میں بھی کینیڈا کے بورڈ آف ایجوکیشن نے اسے نسلی امتیاز کے بہانے سکولوں کے نصاب سے نکالنے کی سفارش کی۔ اسی طرح 1992ء میں واٹر لو، آئیووا کے سکولوں کی طرف سے بھی اس ناول پر پابندی لگانے کی مانگ کی گئی۔ اسے سکول کے نویں ؍ دسویں گریڈ کے نصاب سے نکالنے کی کوششیں بعد میں بھی2019 ء تک جاری رہیں لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔ اب امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کے مطابق یہ ناول آٹھویں ایسی کتاب ہے جس پر امریکہ میں سب سے زیادہ پابندی لگانے کی کوشش کی گئی۔
اِسے بین(banned) ناولوں / کتابوں میں نہیں گردانا گیا اور نہ ہی گردانا جاتا ہے، ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے امریکہ کی چند ریاستوں اور کینیڈا میں سکول کے نصاب سے خارج کروانے کی کوششیں ضرور کی گئی تھی۔
2019ء میں بی بی سی نے ایک سروے منعقد کروایا تھا جس کے مطابق یہ اُن سو ناولوں میں سے ایک رہا جس نے قارئین کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ ایسے ملکوں، جہاں انگریزی لکھی، پڑھی اور بولی جاتی ہے، میں اس ناول کی پندرہ ملین سے زائد کاپیاں بک چکی ہیں اور اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اردو میں بھی یہ ناول’مکھیوں کا دیوتا‘ کے نام سے حال ہی میں ترجمہ ہوا ہے ۔
بی بی سی کے سروے سے کافی پہلے ہی یہ ناول تین بار فلمایا جا چکا تھا۔ برطانیہ میں اسے 1963 ء میں ہدایت کار پیٹربروک نے فلمایا تھا، فلپائن میں 1975ء میں ہدایت کار لوپیتا اے کونشیو نے اسے بنایا جبکہ خود امریکہ میں یہ 1990ء میں ہیری ہُک نے اسے فلمایا تھا۔ اس سے ماخوذ ایک اور فلم بھی بنی۔ 2018 ء میں بنی ’لیڈی ورلڈ‘ (Ladyworld) میں سارے کردار لڑکیوں پر مشتمل ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اس میں آٹھ لڑکیاں ایک زلزلے کے بعد ایک مکان میں پھنس کر رہ جاتی ہیں اور خوراک و پانی ختم ہونے پر ان پر حیوانی جبلت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ فلم بھی امریکی ہے اور اسے ایمینڈا کریمر نے بنایا تھا۔ ان میں سے 1963 ء کی برطانوی فلم ناول کے قریب ترین ہے۔ فلمائے جانے کے علاوہ یہ سٹیج اور ریڈیو پر بھی متعدد بار پیش کیا گیا ہے۔
برطانیہ کی1963ء میں بنی فلم میں نے لاہور میں 1970 ء سے پہلے سنیما میں دیکھ لی تھی۔ مجھے اس فلم کا بِل بورڈ اب بھی یاد ہے۔ اس پر لکڑی سے ایک بڑا سا تھری ڈی مکھیوں کا چھتا بھی بنایا گیا تھا گو سور کا منہ بنانے سے گریز کیا گیا تھا۔ ناول میں نے بعد میں تب پڑھا جب میں ایف ایس سی کا امتحان دے کر نتیجے کا انتظار کر ہا تھا۔
میں اپنے طور پر اگر آج اس ناول کا تجزیہ کروں تو مجھے اس کے کردار روزمرہ یورپی؍ امریکی جیسے ملکوں کی نام نہاد ترقی یافتہ زندگی میں پائے جانے والے عام کرداروں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں: رالف ایک ناتجربہ کار خدا پرست اور امید پرست رہنما ہے۔ پِگی اس کا وفادار دست ِراست ہے جس کے پاس دماغ تو ہے لیکن وہ اعتماد میں کورا ہے۔ ان کے مقابلے میں جیک ایک ایسا وحشی ہے، جسے دوسروں کا درد نہیں اور وہ ہر حال میں طاقت میں آنا چاہتا ہے۔
سماج کے تصورات نسل در نسل بدلتے چلے آتے ہیں اور ہر ایک کا اس ناول پر رد ِ عمل مختلف ہو گا کیونکہ اِس رد عمل کا انحصار ان کے اپنے زمانوں کی ثقافتی، مذہبی اور سیاسی حقیقتوں پر ہو گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے میں نے جب اس ناول پر بنی پہلی فلم سکول میں دیکھی تھی تو میرا اس کے بارے میں خیال کچھ اور تھا۔ تب مجھے یہ بات ہی عجیب لگی تھی کہ بڑوں (بالغوں) کے بغیر یہ بچے کیسے ایک جزیرے پر تن ِ تنہا پہنچ گئے۔ ۔ ۔ ۔
لیکن جب میں نے ناول کالج کے زمانے میں پڑھا تھا تو مجھے یہ سیدھا سادہ نیکی اور بدی کی جنگ لگا تھا اور ۔ ۔ ۔ ۔
اب جبکہ میں ولیم گولڈنگ سے خاصا واقف ہوں، دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بھی آشنا ہوں، مجھے ویت نام کی جنگ میں ویت نام کی استعمار کے خلاف جدوجہد اور امریکیوں کی ہار کا بھی پتہ ہے۔ میں نے اس پر جیمز رابرٹ بیکر اور دیگر ناقدین کی آراء بھی پڑھ رکھی ہیں اور یہ کہ
میں نہ دوسری جنگ عظیم سے براہ راست متاثر ہوں، نہ میں مسیحی / مذہبی ہوں اور انسانی معاشروں کو مذہب کی بنیاد پر نہیں تولتا اور ایک ایسے ملک کا باسی ہوں جو کبھی برطانیہ کی ایک نو آبادی کا حصہ تھا اور یہ ملک نفرت کی بنیاد پر اپنا ایک حصہ1971 ء میں گنوا چکا ہے جبکہ باقی بچا کھچا حصہ ایک نیم وحشی، نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ معاشرہ ( ؟) ہے جہاں آئے دن کم سِن بچے /بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہوتی ہیں اور جہاں ’بڑوں‘ کی گمشدگی اور ان کا ماورائے قانون قتل عام بات ہے۔ اس کے مقتدر طبقات کچھ ایسے پُراسرار ہیں کہ ان کی ہیت سمجھ میں نہیں آتی اگر کسی کو آتی بھی ہے تو وہ بے بس ہے، لاچار ہے اور روزی روٹی کی تگ و دو اس کا مقدر۔ ایسے میں میرا نکتہ نظر مختلف ہے۔
میرے لیے اب لارڈ آف فلائیز کے تمثیلی منفی اور مثبت کردار اس لیے اہم نہیں کہ یہ کہانی ایک مخصوص جنگی زمانے اور مخصوص یورپی بلکہ برطانوی سوچ کے تحت برسوں پہلے لکھی گئی تھی۔ میں ان کو مادی طور پر اپنے معاشرے پر براہ راست یا بلا واسطہ منطبق نہیں کر سکتا۔ میرے زمانے کی، میرے ملک کی، میرے ہاں کے پرتوں میں بٹے معاشرے(؟) کی حقیقتیں کچھ اور ہیں۔ یہاں تنظیم نہیں، انتشار ہے، معاشرہ نہیں گروہ اور جتھے ہی جتھے ہیں۔ عوام نہیں ہجوم ہے۔ رالف، پِگی اور سائمن نہیں بلکہ ہر شکل میں جیک ہی جیک نظر آتے ہیں۔
مجھے اب شاید، یہ صرف کلاسیکی ادب کا ایک اچھا ناول جسے انگریزی میں اے گڈ ریڈ (a good read)کہا جاتا ہے ، لگتا ہے جس کی کہانی جاننا اور اسے تفریح کے طور پر پڑھنا وقت کا ضیاع نہیں لگتا اور اس پر بنی 1963 ء کی برطانوی فلم اس فلم سے کچھ مختلف نظر نہیں آتی جو جرمنی نے 1962 ء میں ’Ein Toter hing im Netz‘ (Horrors of Spider Island) کے نام سے ریلیز کی تھی۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...