کیا آپ نے کبھی خوشبوئوں کے بارے میں سوچا ہے؟ کچھ خوشبوئیں ساری زندگی آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔ چاہیں بھی تو ان سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ ایک برطانوی شاعر نے ایسی خوشبوئوں کو ایک نظم میں جمع کردیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جزائرِ برطانیہ کا باشندہ دو خوشبوئوں کو ہمیشہ محسوس کرتا رہتا ہے۔ ایک بحری جہاز کی خوشبو۔ اور دوسری گھوڑے کی!
آپ خود غور کیجیے‘ بچپن میں صبح سویرے منہ ہاتھ دھو کر ماں کی چُنی (دوپٹے) کے ساتھ چہرہ صاف کرتے ہوئے چُنی کی خوشبو دل میں اور آنکھوں میں اور سینے میں جذب ہو جاتی تھی۔ وہ اب بھی آپ کو محسوس ہو رہی ہے۔ بکری کے چھوٹے سے میمنے کو بوسہ دیتے وقت ایک اور طرح کی خوشبو گرفت میں لیتی تھی۔ گائوں کے سکول کے کونے میں ایک گڑھا تھا جس میں گدلا پانی ہوتا تھا۔ اس سے تختی دھوتے تھے۔ تختی کو پوچا (گاچی) لگاتے وقت ایک اور خوشبو آتی تھی۔ گندم کی کھڑی‘ پکی ہوئی فصل کے درمیان‘ پگڈنڈی پر سے گزرتے ہوئے ایک الگ سرسراتی خوشبو دماغ میں جاتی تھی جس میں سبز رنگ کی مٹھاس تھی۔ گارے سے‘ جس میں گوبر ملا ہوتا تھا‘ دیوار اٹھاتے وقت ایک اور خوشبو سارے میں پھیل جاتی تھی۔ باپ دنیا سے رخصت ہو جاتے تو اُسے گلے سے لگاتے وقت جو خوشبو جسم کے اندر ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے گودے میں اور خون میں‘ اور خون کی ایک ایک رگ میں سما جاتی تھی‘ وہ کبھی محسوس ہوتی ہے اور ایک اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مسجد کے اندرونی کمرے میں خشک گھاس بچھائی جاتی تھی اور سردیوں میں ہر نمازی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہیں نماز پڑھے۔ سجدہ کرتے وقت اس خشک گھاس کی (جسے سَتھر کہتے تھے) خوشبو کتنی فرحت افزا تھی۔ کیا آپ کبھی شام ڈھلے
قبرستان میں گئے ہیں؟ یہ تجربہ کر کے دیکھیے‘ خوشبوئوں کا ایک جہان لپٹ جائے گا۔ گھاس‘ پھول‘ قبروں پر چھڑکا ہوا پانی‘ سنگ مرمر پر گرے ہوئے آنسو‘ گُندھی مٹی سے لیپی ہوئی ڈھیریاں! شام کے لمبے ہوتے سایوں کے درمیان چپ چاپ کھڑے‘ اداس‘ درخت۔ ان سب کی خوشبو اور ان خوشبوئوں کے درمیان قبروں میں سونے والوں کی خوشبو!
جس طرح کچھ خوشبوئیں زندگی بھر ساتھ رہتی ہیں اسی طرح کچھ حیرتیں ساری عمر پیچھا کرتی ہیں‘ بعض چیزوں پر انسان حیران ہوتا ہے یوں کہ ساری عمر حیرت ساتھ لپٹی رہتی ہے۔ شکیب جلالی نے کہا تھا ؎
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
حیرت‘ یاد کی طرح اور درخت سے لپٹی بیل کی طرح وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ جب بھی صبح سویرے چار یا پانچ بجے انٹرنیٹ پر اخبار پڑھتا ہوں تو ہر روز نئے سرے سے حیران ہوتا ہوں۔ وہ دن بھی تھے جب کسی پسندیدہ اخبار کو حاصل کرنے کے لیے دن بھر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مغربی پاکستان سے شائع ہونے والا ڈیلی پاکستان ٹائمز دوسرے دن ملتا تھا۔ اسلام آباد میں کراچی سے چھپنے والا ڈان اخبار سہ پہر کو میسر آتا تھا۔ بیرون ملک رہنے والے کبھی کبھی اپنے ملک کے سفارت خانے میں جاتے اور مہینے بھر کے اخباروں کو سونگھ لیتے۔ اب کلک کرنے سے چند سیکنڈ کے اندر اندر واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ لندن کا گارڈین‘ بھارت کا ٹائمز آف انڈیا‘ امریکہ کا وال سٹریٹ جرنل…
جامِ جمشید میں اتر آتے ہیں‘ ہر روز حیرت کا نیا دروازہ کھلتا ہے اور کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔ کتابوں کی کتابیں ایک پائی خرچ کیے بغیر آپ کے آئی پیڈ یا لیپ ٹاپ پر منتقل ہو جاتی ہیں! دنیا کے کسی کونے سے بھی ایک منٹ سے کم عرصہ میں پیغام کا جواب آ جاتا ہے۔
ایک بار دنیا کے آخری مغربی کنارے‘ بحرالکاہل کے گھاٹ پر آباد خوبصورت شہر وینکوور میں قیام کے دوران‘ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ امام صاحب نے آخری پارے کی ایک سورت تلاوت کی۔ ہر مسلمان کو یہ سورت یاد ہے۔ دفعتاً سوچ کے ڈنٹھل پر حیرت کا پھول کھِل اُٹھا۔ امام صاحب وہی سورت پڑھ رہے تھے جو مجھے بھی یاد تھی۔ لفظ تو کیا‘ زبر‘ زیر‘ پیش کا فرق نہ تھا۔ ایک لمحے کے لیے بھول جایئے کہ آپ مسلمان ہیں اور کلام پاک سے آپ کا جذباتی یا ایمانی تعلق ہے۔ اس پہلو پر غور کیجیے کہ میکسیکو میں اور ولنگٹن میں اور الاسکا میں اور جنوبی افریقہ میں اور فجی کے جزیرے میں اور ماسکو سے نو ہزار کلو میٹر دور روس کے شہر ولادی ووسٹوک میں پڑھا جانے والا قرآن پاک تلفظ اور اعراب تک میں ایک ہی ہے۔ صدیوں سے اسی طرح چلا آ رہا ہے۔ کوئی ریاستی انتظام‘ کوئی دنیاوی طریقِ کار‘ کوئی تحریک اس یکسانیت کی پشت پر نہیں! غور کرنے سے انسان حیران ہوتا ہے۔ اور اس بات پر بھی کہ آتے زمانوں میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
بارہا بنکاک ایئرپورٹ پر اترا‘ پہروں قیام کیا اور دوسرے جہاز پر بیٹھا مگر ہر بار حیرت ہوتی ہے کہ بونے نظر آنے والے تھائی لینڈ کے باشندوں نے کمال کردیا ہے۔ انگریزی بولنے میں انہیں دِقت پیش آتی ہے؛ چنانچہ بات کرنا‘ سمجھنا اور سمجھانا آسان کام نہیں مگر یہ زندہ معجزہ انہوں نے کر دکھایا ہے۔ دنیا کے دسویں اور ایشیا کے چھٹے مصروف ترین اس ہوائی اڈے نے گزشتہ برس کے دوران پونے پانچ کروڑ مسافروں اور تقریباً تین لاکھ پروازوں کو سنبھالا۔ ایک گھنٹے میں 76 پروازوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ بنکاک ایئرپورٹ کا ٹرمینل دنیا کا چوتھا بڑا ٹرمینل ہے۔ صرف ہانگ کانگ‘ بیجنگ اور دبئی کے ٹرمینل اس سے بڑے ہیں۔ صفائی اور حسنِ انتظام پر دنیا عش عش کر رہی ہے۔ پیسہ اس ایئرپورٹ کی وجہ سے تھائی لینڈ پر ہُن کی طرح برس رہا ہے‘ یوں کہ سنبھالا نہیں جاتا۔ پچانوے ایئر لائنیں اسے استعمال کر رہی ہیں۔ ہر جہاز ایئرپورٹ کو کرایہ ادا کرتا ہے۔ پھر کتنی ہی صنعتیں اس سے وابستہ ہیں۔ پٹرول‘ صفائی‘ خوراک‘ مسافروں کی خریداری‘ ہوٹلوں میں قیام۔ پھر دنیا بھر کے مسافر کوشش کرتے ہیں کہ جہاز تبدیل کرنا ہے تو تین چار دن شہر میں ٹھہر کر سیرو تفریح بھی کرلیں۔ اس ایئرپورٹ پر حیران ہوتے وقت جب یہ خیال آتا ہے کہ اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ گزشتہ آٹھ سال سے زیر تعمیر ہے اور ابھی تک کسی کو نہیں معلوم کہ کب مکمل ہوگا تو حیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ دارالحکومت کے موجودہ ایئرپورٹ نے بدترین اور دنیا کے سب سے زیادہ تکلیف دہ ایئرپورٹ ہونے کا عالمی اعزاز منیلا ایئرپورٹ سے چھین لیا ہے تو حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے والی شرمندگی کی کشتیوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
حیرت کا ایک اور مقام لندن ایئرپورٹ پر ملتا ہے۔ چالیس چالیس سال سے ولایت میں مقیم اہلِ وطن جب پی آئی اے کے جہاز پر سوار ہوتے ہیں تو وہ سارا ڈسپلن‘ ساری شائستگی اور سارا رکھ رکھائو جس کے ساتھ وہ یورپ میں رہ رہے ہیں‘ لائونج ہی میں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہی بے صبری‘ وہی دھکم پیل‘ وہی بلند آوازے‘ وہی ساتھی مسافروں کے آرام و سکون سے مکمل بے نیازی! حیرت اس لیے ہوتی ہے کہ جہاز میں بیٹھتے ہی کایا کلپ آخر کس طرح ممکن ہے!
اور ایک حیرت… سب سے بڑی حیرت۔ اس ملک کی وسیع الظرفی پر ہے۔ کتنا بڑے دل والا ہے یہ ملک اور کتنا امیر ہے یہ ملک! ہر شخص اِسے کھانے‘ کھودنے‘ بھنبھوڑنے‘ کاٹنے اور ہڑپ کرنے میں لگا ہے۔ سیاست دان‘ سرکاری ملازم یعنی ہر نوع کے سرکاری ملازم! بزنس کرنے والے‘ صنعت کار‘ زمیندار‘ حکمران‘ یہاں تک کہ خود عوام بھی! مگر یہ ملک کبھی نہیں کہتا کہ بس! میں کنگال ہو گیا ہوں‘ اب مجھ میں اور کچھ نہیں بچا! عجیب ملک ہے‘ سب کی تجوریاں بھرے جا رہا ہے‘ کروڑوں اربوں ڈالر باہر جا رہے ہیں۔ پھر بھی یہ وسائل سے لبریز ہے۔ چھلک رہا ہے۔ یہ ملک اُس تنخواہ دار سفید پوش شخص کی طرح ہے جس کے بہت سے بچے ہیں اور سب اپاہج۔ سب بستروں پر دراز ہو کر صرف کھاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ مگر سفید پوش تنخواہ دار باپ اُف تک نہیں کرتا! ہے نا حیرت کی بات!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“