آج – ٩ / ستمبر ١٩٦٤
غزلوں میں کلاسیکی رچاؤ کے لیے معروف شاعر” حیرتؔ شملوی صاحب “ کا یومِ وفات…
عبدالمجید خاں ١٩٠١ء کو شملہ میں پیدا ہوئے ۔ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی ۔ طالب علمی کے زمانے میں خلافت تحریک سے نظریاتی اور علمی طور پر وابستہ رہے ۔ تحریک سے ان کی سرگرم وابستگی کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انہیں واپس شملہ بلالیا اور حیرت کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرکے زندگی گزاری۔
حیرت نے صرف غزلیں کہیں۔ ان کی غزلیں کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ نئے دور کی اتھل پتھل کے گہرے احساس کی حامل ہیں۔
٩ ستمبر ١٩٦٤ء کو حیرت شملوی انتقال کر گئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر حیرتؔ شملوی کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور اظہار عقیدت…
اک تو خود اپنی غمگینی
اس پر ان کی نکتہ چینی
اپنی شیرینی بھی تلخی
ان کی تلخی بھی شیرینی
کھل جائے گا یہ بھی اک دن
کس نے کس کی راحت چھینی
کافی ہے کیا یہ کہہ دینا
سب حالات کی ہے سنگینی
کر نہیں سکتی ہم کو قائل
صرف عبارت کی رنگینی
ہے یہ وفا وہ جرم محبت
ہے جس کے پاداش یقینی
کیا معلوم کسی کی مشکل
خودداری ہے یا خود بینی
آپ کی رائے عالی کیا ہے
دین ہے بہتر یا بے دینی
کیا کہنا اس ہوش و خرد کا
سوجھتی ہے جس کی شوقینی
اپنے دامن کو بھی دیکھیں
ہو منظور جنہیں گل چینی
اچھے اچھوں کو اے حیرتؔ
لے ڈوبی ہے بے آئینی
─━━━═•✵⊰••••••••••••••⊱✵•─━━━═
حیرتؔ شملوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ