حیرت کہاں جاتی ہے؟
ایک مسافر ناراض ہے کہ جہاز دو گھنٹے لیٹ ہو گیا ہے۔ یہ پرواز وقت پر کیوں نہیں اُڑتی۔ اب لاؤنج میں انتظار کرنا پڑے گا۔ اوپر سے اب اس پرواز میں کھانا بھی نہیں دیتے۔ اس مسافر کی جھنجھلاہٹ کو ذرا انیسویں صدی میں لے جاتے ہیں۔
اگر کوئی انیسویں صدی میں کسی کو کہتا کہ ہزار میل کا سفر کرنے میں جو ایک مہینہ لگتا ہے، وہ صرف چند گھنٹوں میں ہو جائے گا تو شاید یقین نہ کرتا اور اگر کوئی اسے اکیسویں صدی کے مسافر کا اس سفر میں دو گھنٹے لیٹ ہونے پر غصہ کرنے کا بتاتا تو وہ اس اکیسویں صدی کے اس انسان کی دماغی حالت پر شک کرتا۔
انٹرنیٹ کی سپیڈ کا شکوہ ہو، بجلی کا سوئچ دبانے پر بلب روشن نہ ہونا یا نل میں پانی نہ آنا، ایک طرح سے یہ سب اسی طرح کی شکایات ہیں۔ اس دنیا میں ہم ایک بھی بنیادی حق لے کر پیدا نہیں ہوئے لیکن جس بھی چیز کی عادت ہو جائے، اس کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں اور پھر ویسا نہ ہونے پر شکایت کرتے ہیں، یہ کیوں؟ اس کی وجہ ہمارے دماغ میں ریپیٹیشن سپریشن کا طریقہ ہے یعنی دہرائی جانی والی شے کو دماغ جلد پس منظر میں ڈال دیتا ہے۔
بالوں کے اور لباس کے سٹائل کیوں بدلتے رہتے ہیں؟ عمارت کو دیکھ کر یہ کیسے پتہ لگتا ہے کہ یہ کس دور کی ہے؟ سب گھر ایک جیسے کیوں نہیں بنتے؟ آپ کو یہ بات حیران کیوں نہیں کرتی کہ دنیا کے دوسرے کونے میں ہونے والا میچ آپ کے کمرے پر ٹی وی سکرین پر اسی وقت آ رہا ہے؟ ایک ہی ڈرامہ، ایک ہی کتاب، ایک ہی مذاق بار بار کیوں نہیں سنتے؟ ٹوتھ پیسٹ اور صابن سے گاڑیوں تک ہر شے کیوں مسلسل بدل رہی ہے؟ ہم کیوں ٹِک کر نہیں بیٹھتے؟ ان سب کا جواب یہیں پر ہے۔
فنکشنل ایم آر آئی سے پتہ لگتا ہے کہ جب ہم کوئی نئی چیز دیکھیں تو دماغ میں ہونے والی ایکٹیویٹی کا ایک لیول ہوتا ہے جو بار بار اس کو دہرانے پر کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ (ٹیکنیکل تفصیل نیچے لنک سے)۔ اسی لئے اپنے روزمرہ کی چیزوں سے ہم چونکتے نہیں۔ دماغ کا ایسا کرنا زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے۔
اسی لئے اگر آپ نے نئی گاڑی خریدی ہے یا پھر نیا فون لیا ہے یا زندگی میں کوئی نئی تبدیلی آئی ہے تو شروع میں اس میں دلچسپی ہو گی، جلد ہی عادت بن جائے گی۔ سیاح نئے منظر کی تصویریں کھینچ رہا ہے، وہاں رہنے والے اپنے اردگرد کی خوبصورتی سے ہی گویا ناآشنا ہیں۔ معاشرت بدل رہی ہے، جو پہلے چونکا دیا کرتا تھا، اب کوئی محسوس بھی نہیں کرتا۔ بیس برس پہلے کی حیران کن ایجاد اب زندگی کا ویسے حصہ ہے جیسے یہ ہمیشہ سے رہی ہو۔ یہ سب دماغ کے اس طریقے کا کھیل ہے۔ جہاں ہمارا ذہن زیادہ تبدیلیوں سے بھاگتا ہے، وہیں پر یکسانیت سے بھی۔ نئی چیز دماغ کو تحریک دیتی ہے۔
اس سے کچھ ضمنی نتائج۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ خوشی اس وقت ملے گی جب ہم کوئی اگلی چیز حاصل کر لیں گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ آپ کو اس نئی چیز کی جلد عادت ہو جائے گی۔ دماغ کو متحرک رہنے کے لئے نئے تجربے چاہییں۔
اگر آپ لمبی اور کامیاب ازدواجی زندگی کے خواہشمند ہیں تو اس کا راز بھی یہیں پر ہے۔ روزمرہ زندگی سے ہٹ کر کبھی کچھ سرپرائز۔
اور اگر آپ کو زندگی سے شکایات ہیں تو ان کو بھی کبھی دوسرے رُخ سے۔ مثلا، اگر آپ کا وائی فائی کا سگنل کمزور ہے تو ضرور ٹھیک کیجئے لیکن کبھی یہ سوچ بھی کہ کیا یہ خود زبردست نہیں کہ اس کی کچھ کمزوری کی باوجود دنیا میں کسی کونے میں بیٹھے کسی شخص کی سوچ ان لہروں پر ہوتی ہوئی کسی طرح آپ کی سکرین پر پہنچ گئی ہے۔
اس پر ٹیکنیکل آرٹیکل یہاں سے
https://www.physiology.org/doi/full/10.1152/jn.90376.2008
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔