پاکستان ٹیلی ویژن کا لاہور سنٹر اور بعدازاں اسلام آباد سنٹر میرے دوسرے گھر تھے جن کے سٹوڈیوز میں، برآمدوں اور میک اپ روموں میں میں نے چالیس برس سے زیادہ عرصہ قیام کیا۔۔۔ایک اداکار کے طور پر اپنے میڈیا کیریئر کا آغاز کیا، ریڈیو پاکستان کی عمارت کے پچھواڑے میں جو دو جھونپڑے سے تھے ان میں پاکستان ٹیلی ویژن شروع ہوا۔ وہاں نعیم طاہر کا تحریر کردہ ’’پرانی باتیں‘‘ میرا پہلا ڈرمہ تھا جس میں میں نے روتے دھوتے، بھولتے اور اپنے آپ کو ملامت کرتے ایک ڈاکٹر کا کردار ادا کیا۔
پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور میں اداکاری، ڈرامہ نگاری اور میزبانی کے شعبوں میں بھٹکتا اپنی ناقص کارکردگی کے باوجود شہرت کی چکا چوند میں داخل ہوگیا۔۔۔یہاں تک کے تقریباً آٹھ برس تک ٹیلی ویژن کے پہلے مارننگ شو کے میزبان کی حیثیت سے میری پہچان کی کوئی سرحد نہ رہی۔۔۔ اور یوں چالیس برس یوں گزرے کہ جیسے بس ایک پلک جھپکی ہے۔۔۔جب کبھی اور کبھی کبھی جب مجھے پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے کسی شو میں شرکت کا دعوت نامہ آتا ہے تو میں بہانے تراشتا ہوں کہ۔۔۔میں مصروف ہوں، بوڑھا ہو گیا ہوں، پہاڑوں پر جا رہا ہوں، ڈاکٹر کے ساتھ وقت طے ہے، جھوٹ بولتا ہوں کہ میں دراصل لاہور سٹیشن کے اندر نہیں جانا چاہتا، اُس کے برآمدوں میں روحیں بھٹکتی ہیں، وہ مجھ سے لپٹ جائیں گی، شکایت کریں گی کہ ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے، اور کب آؤ گے، کب آؤ گے، مورا تم بِن جیا اداس رے۔۔۔میری پہچان اور میرے عہد کا شاید کوئی ایک آدھ چہرہ باقی ہے، باقی سب کے سب چہرے خاک ہو چکے، کس دیس گئے پیا، کدھر چلے گئے۔۔۔ طاہرہ نقوی، خیام سرحدی، غیور اختر، جمیل فخری، ظلِ سبحانی، سی ایم منیر، ایم شریف، نجمہ محبوب، نصرت ٹھاکر، شہنشاہ نواب، قنبر علی شاہ، محمد نثار حسین، کنور آفتاب احمد، محبوب عالم، محمد شفیع، میاں شہریار، خالد محمود زیدی، سب کے سب چلے گئے۔
برآمد وں میں اُن کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، اس لئے میں لاہور ٹیلی ویژن کی عمارت میں داخل ہونے سے اجتناب کرتا ہوں، وہ مجھ سے لپٹ جائیں گے۔۔۔ البتہ ماضی کے چراغوں میں ایک چراغ ایسا ہے جس کی لَو مدھم ہو رہی ہے، وہ بجھنے والا ہے، میرے فون کا جواب نہیں دیتا، کسی سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا، دراصل وہ اب دیکھا نہیں جانا چاہتا کہ کبھی وہ ٹیلی ویژن کا شہزادہ تھا اور اب شنید ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس حال میں ہے، یہ معلوم ہے کہ بُرے حال میں ہے، یقیناًمر نہیں گیا، اگر مرتا تو اخباروں میں کہیں نہ کہیں ایک سطر چھپ جاتی کہ یاور حیات مر گیا ہے، لاہور ٹیلی ویژن میں بیک وقت ڈرامے کے شعبے میں تین شہزادوں کا راج تھا۔۔۔محمد نثار حسین، گیسودراز، ایک تخلیقی جینئس جس نے سنجیدہ ڈراموں کی ہدایت کاری میں کمال حاصل کیا، کنور آفتاب احمد۔۔۔ایک اکھڑ منہ پھٹ راجپوت، جس نے کیریئر کے آغاز میں ’’جھلک‘‘ نام کی فلم بنائی جس میں غالب کی مانند تان سین موجودہ عہد میں آجاتا ہے، اُس نے خصوصی طور پر مجھے ریجنٹ سینما میں یہ فلم ریلیز ہونے سے پہلے دکھائی، علاؤالدین نے تان سین کا کردارادا کیا، وہ ایک بوگس سکرپٹ میں کانٹ چھانٹ کرکے اُسے ایک شاندار ڈرامے میں منتقل کرنے کا ماسٹر تھا۔۔۔مزاح اُس کا پسندیدہ موضوع تھا اور وہ واحد ہدایت کار تھا جس کے تمام ڈرامے ازحد مقبول ہوتے تھے۔
’’ایک حقیقت ایک فسانہ‘‘ میں مرکزی کردار صحافی امجد کا تھا جو میں نے ادا کیا اور اُس کی نوک پلک کنور نے سنواری۔۔۔ بلکہ نثار قادری کے ڈائیلاگ جو بہت مقبول ہوئے ’’وقت کم ہے اورمقابلہ سخت‘‘اور ’’ماچس ہے آپ کے پاس‘‘ کنور کے تخلیق کردہ تھے۔ اور تیسرا، ڈرامے کی سلطنت کا شہزادہ، یاور حیات تھا۔۔۔یہ تینوں، محمد نثار حسین، کنور آفتاب احمد اور یاور حیات، ڈرامے کے الگ الگ سکول تھے۔ سکرین پر نمایاں ہوتے کسی ایک منظر کودیکھ کرآپ جان جاتے تھے کہ یہ نثار ہے، کنور ہے یا یاور۔۔۔ان تینوں میں یہ یاور حیات تھا جس کی شخصیت میں قدرتی طور پر پُرکشش اور دل رُبائی کا ایک کرشمہ تھا، جیسا کرشمہ بھٹو، شاہد آفریدی اور عمران خان میں ہوا کرتا تھا۔ یاور واقعی مغل شہزادوں کی مانند، ستواں ناک، دراز قامت، گوری رنگت، نیلی آنکھوں اور شاندار مونچھوں والا شخص تھا بلکہ اُس نے کسی ڈاکومنٹری میں شہزادہ جہانگیر کا کردار ادا کیا تھا جو بعدازاں کین فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی تھی۔
یاور دراصل ایک متعدی مرض تھا، جو کوئی بھی کچھ عرصہ اُس کی رفاقت میں رہتا وہ خود قدرے یاور حیات ہو جاتا۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے اُس کا لہجہ اختیار کرلیتا، اُسی کے انداز میں مونچھیں نہ بھی ہوں تو بھی اُنہیں سنوارتا، مسکراتا، اُسی کی چال چلنے لگتا، اُن دنوں ٹیلی ویژن کے برآمدوں میں ہر جانب یاور حیات چلتے پھرتے نظر آتے۔۔۔اُسے داستان گوئی میں ملکہ حاصل تھا۔ وہ اپنی گفتگو سے آپ کو آسانی سے قائل کرسکتاتھا کہ تارڑ جی۔۔۔ میز پر بیٹھی یہ مکھی نہیں ہے، اقبال کا شاہین ہے، اس کی اڑان اور پر تو ذرا غور سے دیکھئے۔۔۔ اور اُس کا پسندیدہ طرز تکلم ’’چن جی‘‘ تھا۔۔۔ ایک عرصہ میں بھی دوستوں کو ’’چن جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا۔۔۔وہ ایک متعدی بیماری تھا۔۔۔ ’’جھوک سیال ‘‘ نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اُس نے میرا تحریر کردہ ٹیلی ویژن کا پہلا مِنی سیریل ’’پرواز‘‘ پروڈیوس کیا۔۔۔ اور متعدد ڈراموں میں مجھے مرکزی کردار کے طور پر کاسٹ کیا، یاور کے بارے میں ایک کالم نہیں ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، میں اُس کے بارے میں قدرے تفصیل سے تب لکھوں گا جب وہ مر جائے گا، اگر میں اُس سے پہلے رخصت نہ ہو گیا تو۔
عرض میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یاور حیات گلبرگ کی غالب مارکیٹ کے کسی مکان میں ابھی تک زندہ ہے، ٹیلی ویژن پر قابض وزیر مشیر کیا جانیں کہ یاور کون ہے، اُنہیں حکمرانوں کی جوتیاں سیدھی کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔۔۔ اور مجھے اُن سے کچھ شکایت تو نہیں۔۔۔ البتہ یہ طے ہے کہ اگر یاور حیات نہ ہوتا تو پاکستان ٹیلی ویژن بھی یوں نہ ہوتا۔۔۔ ’’چن جی‘‘ تم کیا جانو کہ یاور حیات کون تھا، کم از کم جوتیاں چاٹنے والانہ تھا کہ وہ ایک شہزاد ہ تھا۔
[humsub.com.pk]
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=397056417350895&id=100011396218109
“