20 جنوری 2020 کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے صحافیوں نے سوال کیا کہ سر ، پاکستان میں آٹے کے بحران کی وجہ کیا ہے اور اس کے حل کیلیٸے کیا اقدامات کیٸے گٸے ہیں ؟ جس پر صدر صاحب نے شانِ بے پرواٸی سے جواب دیا کہ مجھے آٹے کے بحران کے بارے میں معلوم نہیں ہے صحافیوں کی حیرانگی کو محسوس کرتے ہوۓ اپنے فقرے میں یہ الفاظ شامل کر دیٸے کہ ” لیکن معلوم ہونا چاہیٸے “ یہ ہمارے نٸے پاکستان اور مدینہ کی ریاست بننے والی مملکتِ خداداد کے صدر کی حیران کر دینے والی لاعلمی کی ایک “شاندار“ مثال ہے . ہمارے ملک کے آٸین میں صدر وفاق کی علامت ہوتے ہیں . اس موقع پر ہم حضرت عمر فاروقؓ اور نہ ہی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی مثال دینا چاہتے ہیں بلکہ ہم یہاں اپنے ہمساۓ اور پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان کے ایک مسلمان صدر اور ایٹمی ساٸنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کی مثال دینا چاہتے ہیں جنہوں نے اپنی سوچ و فکر اور کارکردگی کے باعث پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا.
ڈاکٹر عبدالکلام کا تعلق ایک نہایت غریب خاندان سے تھا جنہوں نے اخبار بیچ کر اپنی تعلیم کا خرچہ نکالا. انہوں نے ایٹمی ساٸنسدان بن کر 1974 اپنے ملک بھارت کو ایٹمی طاقت بنا دیا انہوں نے اپنے ملک میں ایٹم بم اور جدید میزاٸل کی بنیاد ڈالی. ان کی بلاتفریق وطن دوستی اور انسان دوستی اور دیانتداری کو دیکھ کر بی جے پی جیسی انتہا پسند ہندو جماعت نے بھی کانگریس کی تجویز پر ان کو صدر مملکت بنانے کے فیصلے کی حمایت کردی تھی . ان کو 2002 میں بھارت کا صدر بنایا گیا . ڈاکٹر عبدالکلام کے صدر بننے سے پہلے ایک سابق مسلمان صدر ذاکر حسین نے امریکہ کی طرح یہ روایت ڈالی تھی کہ ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں ایوانِ صدر میں چیدہ چیدہ مسلم شخصیات اور عہدیداران کو افطار ڈنر دیا جاتا تھا. جب یہ صدر بنے تو ان کو بھی رمضان المبارک کی آمد پر اسٹاف نے اس روایت کی یاد دہانی کراٸی تو انہوں نے مندوبین کی فہرست منگواٸی جس میں سارے خوشحال افراد کے نام تھے . صدر نے افطار ڈنر کا پروگرام منسوخ کر کے اس پر خرچ ہونے والی رقم دہلی کے یتیم خانوں پر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا یہ رقم اڑھاٸی لاکھ روپے تھی . صدر عبدالکلام نے ایک لاکھ روپے اپنی تنخواہ سے ملا کر ساڑھے 3 لاکھ روپے کی رقم سے آٹا ، گھی ، دالیں اور سوٸیٹر خرید کر کے دہلی شہر کے 28 یتیم خانوں میں تقسیم کر دیٸے اور جب تک وہ صدر رہے ہر رمضان المبارک میں یہی عمل دہراتے رہے .
مٸی 2006 میں صدر عبدالکلام نے اپنے خاندان کے تمام افراد جن کی تعداد 52 تھی ، گاٶں سے بلایا اور ان کو اپنے صدارتی محل میں 8 دن قیام کرایا اور آخر میں ان کو اجمیر شرہف بھیج کر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ کی زیارت بھی کراٸی . واپس گھر بھیجنے کے بعد صدر نے اپنے اسٹاف سے اپنے خاندان پر خرچ ہونے والا بل منگوایا جو 3 لاکھ 52 ہزار روپے پر مشتمل تھا وہ تمام رقم انہوں نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کر دی . 27 جولاٸی 2015 کو اس درویش صفت شخصیت کی وفات ہوٸی جس کے انتقال پر بھارت میں 7 روز کا قومی سوگ منایا گیا جو اس کی ہر دل عزیز شخحصیت ہونے کا ثبوت ہے . اور کسی کو حیرت ہو یا نہ ہو میں اپنے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام کی سوچ پر بہت حیران ہوں دونوں کی سوچ اور صدارتی کارکردگی حیران اور ششدر کر دینے والی ہے . ہمارے صدر صاحب کو اپنے ملک کے 22 کروڑ شہریوں کی مشکلات اور مساٸل سے کتنی دلچسپی ہے اور آج کل جو آٹے کیلیٸے ہر شہری پریشان اور اس کے حصول کیلیٸے سرگردان ہے لیکن ” ریاستِ مدینہ، کے صدر صاحب اس سے لاعلم ہی تاہم مقامِ شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نہ صرف آٹے کے بحران بلکہ مہنگاٸی سے خود بھی پریشان ہیں جس کا وہ اظہار کرتے رہتے ہیں.