(Last Updated On: )
کل سے تمام سکول کرونا وائرس کی وجہ سے بند کر دئیے جائیں گے۔ ٹی وی یہ خبر جیسے ہی چلی محمد علی اور احمد علی نے خوشی سے ایک نعرہ لگایا کہ سکول سے اب چھٹیاں ہوں گی اور ہم خوب کھیلیں‘ کودیں اور سیرو تفریح کریں گے۔ پاس بیٹھے اُن کے ابا جان دونوں کے چہروں پر خوشی کے آثار بخوبھی دیکھ رہے تھے ‘ اُنہوں نے سوچا کہ یہ بچے بھی کتنے معصوم ہیں جنھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں کو کس وجہ سے بند کیا گیا ہے ‘ اُنہیں تو صرف اپنی چھٹیوں سے غرض ہے۔ لہٰذا وقتی طور پر اباجان نے بچوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ۔اگلے روز ٹی وی پر خبر چلی کے کرونا وائرس کی وجہ سے مکمل لاک ڈائون رہے گا اور عوام اپنے گھروں میں ہی رہیں اور بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ بچوں نے یہ خبر سنی تو اُنہیں یہ اندازہ تو ہو گیا کہ اب سیروتفریح کا موقع تو میسر نہیں آئے گا اور نہ ہی پارک میں جا کر کھیلا جا سکے گا۔
گلیوں‘ بازاروں اور سڑکوں پر سناٹا چھا گیا اور ایک خوف کی لہر نے سب کو اپنی گرفت میں کر لیا۔ بچے بھی گھر میں بیٹھے یہی سوچ رہے تھے کہ یہ کیسی چھٹیاں ہیں جن میں نہ تو ہم کھیل سکتے ہیں ‘ نہ سیروتفریح کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی سے ملنے کے لیے کہیں آناجانا ہوگا۔ ابا جان کو بھی دفتر سے چھٹیاں ہو گئیں اور وہ بھی گھر پر بچوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے۔ ابا جان نے اُسے بتایا کہ یہ وقت ہم سب پر ایک بڑا امتحان ہے۔اب ہمیں صحیح معنوں میں ایک اچھا مسلمان اور سچا پاکستانی بننا ہے۔ ہم لوگوں کو چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم اپنے اردگرد کی بھی خبر رکھیں اور یہ دیکھیں کہ کسی کے بچے بھوکے تو نہیں سو رہے ۔ ہمیں اسلام نے یہی درس دیا ہے کہ ہمسائیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ اب ہمیں عملی طور پر اپنے آپ کو ایک اچھا انسان اور مسلمان بن کر دکھا نا ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے
کاروبار اس وبا کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں اور وہ بے چارے اس وقت بیروزگار ہیں۔
محمدعلی نے بتایا: اُس کے ایک ہم جماعت کے والد کا کاروبار کئی دنوں سے بند ہے جس کی وجہ سے اُنہیں روزمرہ کے اخراجات میں مشکل
پیش آ رہی ہے۔
ابا جان نے بتایا : جیسا کہ محمد علی نے اپنے ایک دوست کے ابو کا ذکر کیا ہے اِسی طرح اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فلاں فلاں گھرمیں یہ مشکل پیش آئی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم خود سے یا پھر کچھ دوسرے افراد کی مدد سے اُن کی اس مشکل میں اُن کا ساتھ دیں۔ ہمارے مذہب نے بھی ہمیں یہ تلقین کی ہے اور حقوق العباد اِسی چیز کا نام ہے کہ ہم معلوم کریں کہ ہمارے ارد گرد کوئی بھوکا تو نہیں سویا اور کوئی کسی مشکل میں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر ہم اُن کے گھر راشن دے سکتے ہیں تو ضرور اُن لوگوں کے گھروں میں بآسانی راشن پہنچائیں اور کوشش کریں کہ اس کی نمودونمائش بالکل بھی نہ ہو‘ کیونکہ نیکی اگر اپنی نمودونمائش کے لیے کی جائے تو اُس کا سارا اثر ضائع ہوجاتا ہے اور پھر جس کی مدد آپ کرتے ہیں تو اُس کی بھی عزتِ نفس مجروح ہونے کا خدشہ ہے۔ وہ بیچارہ شائد مشکل حالات کی وجہ سے آپ سے مدد تو لے لے لیکن اُس کے دل سے پھر آپ کے لیے دُعا نہیں نکلے گی۔ اس لیے کہتے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ یعنی اگر آپ کوئی نیکی کا کام کرتے ہیں تو کسی دوسرے کو اس کی خبر بھی نہ ہو‘ ایسا کرنے سے آپ کا اپنا دل بھی مطمئن رہتا ہے اور جس کی آپ مدد کرتے ہیں اُس کے بھی دل سے آپ کے لیے دُعا
نکلتی ہے۔
احمد علی نے پوچھا: آپ ہمیں کچھ حقوق العباد کے بارے میں بھی بتائیے۔
اباجان نے کہا: ہم پر دو طرح کے حقوق پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ایک حقوق اللہ ہیں اور دوسرے حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں تو ہمیں حکم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اُس کی عبادت کریں جیسے نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی ۔ اِسی طرح ہمیں دوسرے انسانوں کے بھی حقوق ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے جیسے ہمسائیوں ‘ رشتہ داروں‘ غریبوں‘ مسکینوں اور ضرورت مندوں کے حقوق۔ ان حقوق کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں‘ اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھیں‘ کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں‘ کسی بھوکے اور مسکین کو کھانا کھلائیں‘ ضرورت مند اور غریبوں کی مدد کریں‘ بڑوں کی عزت کریں‘ چھوٹوں
سے پیار کریں۔
احمد علی فوراً بولا : یہ سب کام تو ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کیے ہیں‘ میں نے یہ اپنی کتاب میں پڑھا ہوا ہے۔
ابا جان نے کہا:ہاں ! ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کے اُسوہ حسنہ کو اختیار کرنے کا حکم ہمیں دیا ہے ۔ تاکہ ہم بھی اُن کے طریقوں پر عمل کریں اور اچھے انسان بن کر معاشرے میں اپنا کردار
ادا کریں۔
محمدعلی بولا: اگر ہم کسی ضرورت مند کو ضروری اشیاء نہ پہنچا سکیں تو کیا کوئی دوسری راستہ بھی ہے ہمارے پاس؟
ابا جان نے کہا: ہاں ! اگر ہم اُس تک راشن یاضروری اشیاء نہ پہنچا سکیں تو ہم یہ کام بھی کرسکتے ہیں کہ اُن مستحق لوگوں میں روپیہ تقسیم کردیں یا پھر اُن کے گھرخود کھانا پکا کر پہنچا دیں۔ جیسا کہ اگر ہم اپنے گھر گوشت یا مرغ مسلم کھاتے ہیں تو ہم اِن مشکل دنوں میں مہنگا کھانا کھانے سے اجتناب کریں اور خود بھی اگر عام اور سادہ خوراک کھا لیں اور اُسی پیسہ سے جس سے ہم مہنگا کھانا کھاتے ہیں ‘اُس رقم سے ہم سادہ اور عام کھانا مثلاً دال روٹی یا سبزی وغیرہ بنا کر اتنے ہی پیسوں میں اُن لوگوں کا پیٹ بھی بھر سکتے ہیں ۔ اس طرح ہمیں روحانی خوشی ہو گی اور اللہ
تعالیٰ بھی ہمارے اس فعل سے خوش ہو گا۔
محمد علی نے کہا: ہاں یہ تو اچھا ہو جائے گا کہ ہم اپنے گھر بھی سادہ خوراک بنالیں گے اور زیادہ بنالیں گے ۔ زیادہ کھانا پکانے سے ہم اُس کھانے سے ضرور کسی نہ کسی کی مدد کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ میں امی سے کہوں گا کہ آج بے شک سادہ کھانا تیار کریں اور آدھا کھانا میں اپنے
دوست کے گھر چپکے سے دے آئوں گا تاکہ وہ لوگ بھی پیٹ بھر کر سوئیں۔
اباجان نے کہا: یہ ہوئی نا بات۔ جتنا پیسہ ہم نے کھانے پر خرچ کرنا ہے پیسہ اتنا ہی خرچ ہو گا پیٹ بھرنے کے لیے لیکن اس سے یہ فائدہ ہو گا
کہ وہ مستحق لوگ جن کو اس وقت ہماری ضرورت ہے وہ بھی اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں گے۔
احمد علی نے کہا: اگر غریب لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہ ملے تو کیا اس کے کیا اثرات ہو ں گے؟
ابا جان نے کہا: تم نے انتہائی اہم سوال کیا ہے۔ اگر انسان کو خوراک میسر نہ ہو تو وہ بھوکا رہے گا اور بھوکے پیٹ سونے سے ایک تو اُس کو اُسے بھرنے کی شدت سے ضرورت ہو گی ‘ اُس کے گھرمیں اُس کے بیوی ‘ بچے یا والدین ہوں تو کب تک انسان بھوک برداشت کر سکتا ہے بھلا اگر اُس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو وہ اپنا اور اپنے عیال کا پیٹ بھرنے کے لیے خدانخواستہ کوئی غلط طریقہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ غلط طریقہ سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا بدی کا کام کرسکتا ہے جسے ہمارے مذہب میں منع فرمایا گیا ہو یا حرام قرار دیا ہو۔ بُرے کاموں سے انسان کو وقت طور پر اپنی خواہش تو پوری ہوتی نظر آتی ہے لیکن اس سے نہ صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں بلکہ اس سے معاشرے میں بُرائیاں بھی جنم لیتی ہیں اور اگر معاشرے میں بُرائیاں عام ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ بھی اُس معاشرے پر سے اُٹھ جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نے ہمیں اخوت ‘ مساوات ‘ ہمدردی اور ایثار کا درس دیا ہے۔ جب کوئی شخص کسی
ضرورت مند کی مدد کرتا ہے تو اُس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کے ساتھ عملی طور پر ہمدردی کریں۔
دونوں بچوں نے اپنے ابا جان کی بات کو بڑے غور سے سنا اور یہ کہا کہ ہم کوشش کریں گے کہ ہمارے دوست کے گھر والے بھوکے نہ سوئیں۔ بلکہ جب تک اُن کے ابو کا کام دوبارہ چل نہیں جاتا ہم بھی وہی کھانا کھائیں گے جو اُن کے گھر پہنچائیں گے اس طرح ہم
مساوات کی ایک مثال بنیں گے۔
ابا جان نے جب بچوں کی یہ باتیں سنیں تو اُن کے چہرے پر تبسم آیا اور اُنہوں نے کہا کہ کیا آپ نے پڑھا نہیں کہ جب ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ ساتھ جو مکہ سے اُن کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ میں آئے تھے تو مدینہ کے لوگ ‘ جو انصار کہلاتے تھے اُنہوں نے اپنے مہاجرین بھائیوں کی کس طرح مدد کی تھی۔ اگر کسی انصار صحابی کے پاس اُس کی ضرورت سے زائد چیز تھی تو اُس نے وہ شے اپنے مہاجر بھائی کو خوشی کے ساتھ دے دی تھی۔ مدینہ کی ریاست کی یہ مثال ہم سب کے لیے ایک زندہ جاوید مثال ہے۔ آج اس مشکل دور میں بھی ایسی ہی مثال بننے کی ضرورت ہے اور بحیثیت ایک مسلمان کے‘ ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے ضرورت مند بھائیوں کا خاص خیال رکھیں۔ ابا جان نے بچوں سے پوچھا کیا آپ نے ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی وہ نظم ’ہمدردی‘ نہیں پڑھی جس
کے آخر میں اُنہوں نے کہا تھا :
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
دونوں بچوں نے یک زبان ہو کر کہا: ہاں جی! ہم نے وہ نظم پڑھی ہے اور آپ کی ساری گفتگو سے ہمیں اس شعر کی سمجھ بھی آگئی ہے کہ دُنیامیں وہی لوگ اچھے ہیں جو مشکل وقت میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور ہم بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بھی کسی نہ کسی طرح دوسروں کی
مدد کرتے رہیں گے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو ۔دیکھا بچو! آپ نے بھی اس مشکل گھڑی میں اپنے اردگرد اور دوستوں سے معلوم کرنا ہے کہ کیا کوئی پریشان تو نہیں یا کوئی بھوکا تو نہیں سویا۔ ہم مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں اور یہ دونوں خوبیاں اُسی وقت ہی پوری ہو سکتی ہیں
جب ہم اچھے انسان بنیں گے۔