جناب حیدر قریشیؔ کی تصنیف ’’ عمرِ لا حاصل کا حاصل ‘‘پچھلے دو برسوں سے میرے زیرِ مطالعہ رہنے کے بعد جو تاثر میرے ذہن و قلب میں ابھرا ہے اسے حوالۂ قرطاس کرنا چاہتا ہوں۔
حیدر قریشی کا نام دنیائے ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ مدت ہائے دراز سے ان کا ادبی سفر جاری ہے۔ دورِ حاضر میں اردو کے مشاہیر اور باکمال نثر نگارو شعراء میں وہ بلا شبہ مقامِ بلند رکھتے ہیں۔انہوں نے خود کو اردو ادب کے لئے برس ہا برس سے وقف کر رکھا ہے۔ان کا اوڑھنا بچھو نا یہی ہے۔ان کو شاعری اور نثر نگاری ہر دو کے لئے منفرد اسلوب کا نمائندہ کہا جانا چاہئے۔حیدر قریشی صاحب یورپ میں مقیم سخنوروں میں منفرد مقام کے وہ مصنف ہیں جن کا معیاری کلام دنیا بھر کے جرائد میں مسلسل شائع ہوکے قارئین سے داد سمیٹتا رہتا ہے۔اربابِ فکرو فن انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں بھولتے۔
’’عمرِ لا حاصل کا حاصل ‘‘ کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ۲۰۰۹ء تک جو بھی مضامین حیدرؔ قریشی صاحب نے سپردِ قلم کئے ہیں تمام شاملِ کتاب ہیں۔ میرے زیرِ مطالعہ کیونکہ نظم و نثر کا ایک طویل سلسلہ رہتا ہے اس لئے یہ بات میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوںکہ جناب حیدرؔ قریشی ان دونوں ایوانوں میں اپنا منفرد طرزِ اظہار ایجاد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ان کی نثر نہایت سلجھی ہوئی، شگفتہ اور با وزن ہے، اور اس نقطۂ نظر سے خود کو قاری سے پڑھوا لیتی ہے۔
جنابِ حیدرؔ قریشی کی شاعری کا مرکزی موضوع آج کی اور ہم سب کی زندگی ہے۔ شاعری محض فن ہی نہیں ہوتی، صرف موزوں الفاظ کا مجموعہ بھی نہیں ہوتی۔ شاعری نہ صرف قدرتِ کلام اور تخیل کی اونچی اڑان کی حد ہے۔ شاعر کا حق صرف شدتِ احساس اور خلوص و جذبات سے بھی ادا نہیں ہوتا۔
شاعری میں حیدر قریشی کا انداز کہیں کہیں داغ دہلوی کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ان کی نظموں میں کہیں کہیں میرا جی اور وزیر آغا کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ آزاد مغربی فضا میں سانس لینے کے باوجود مشرقی حیا کی ردا انہوں نے نہیں اتاری۔ لہٰذا اپنے اشعار میں جہاں وہ عشق و محبت کی بات کرتے ہیں حجابات کا ایک سلسلہ ان کے ہاں قدم بقدم ہے۔وہ یقیناً ایک نامور ومنفرد لب و لہجے کے سخنوراور ادیب ہیں۔
میں نے ان کے افسانے بھی پڑھے ہیں۔اور یہ تاثر اپنی جگہ قائم ہے کہ ان کا ہر افسانہ ایک طاقتور ذریعہ ابلاغ ہے۔اس میں پرواز کی طاقت بھی ہے، اور انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے کی قدرت بھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جناب حیدرؔ قریشی اپنی نثری تخلیقات میں مسائلِ حیات و کائنات نہایت خوبی سے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔آپ بِلا شک و شبہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ شاعر و نثرنگار ہیں۔ان کے اشعار سے لگتا ہے کہ ان کے شعری وسائل کی بوقلمونی نے ان کو قدرتِ اظہار کے نئے نئے پیرائے بخشے ہیں۔
حیدرؔ قریشی زندگی کے سفر میں کئی نشیب و فراز سے گزرے ہیں۔ کم عمری میں ہی گھر کی کفالت کی ذمہ داری کا بوجھ پڑ جانے سے انہیں طرح طرح کی مشکلات سے دو چار بھی ہو نا پڑا۔ دنیا کی بے مہری، دوستوں کی بے وفائی جن سے برسوں نبرد آزما رہے۔ ان تجربوں کو انہوں نے اتنی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اشعار اور نثر میں ڈھالا ہے کہ قاری کے دل میں ان سے قدرتی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور زندگی میں وقتاََفوقتاً رونما ہونے والے ان حالات نے حیدرؔ قریشی کو حساس طبیعت کا مالک بنا دیا ہے۔ حادثہ چاہے سنگین ہو یا معمولی نوعیت کا دونوں صورتوں میں وہ نہ دلبرداشتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے ماتھے پرپریشانی کی شکن ابھرتی ہے۔ وہ ہر حادثہ کا خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس مختصر مضمون کا اختتام کرتے ہوئے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ جناب حیدر قریشی ایک بہت اچھے سخنور اور ادیب ہی نہیں بلکہ بہ حیثیت ایک انسان کے بھی بہت اچھے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘ میں شامل گیارہ کتابیں
شاعری: ’’سلگتے خواب‘‘،’’عمرِ گریزاں‘‘،’’محبت کے پھول‘‘،’’دعائے دل‘‘اور’’درد سمندر‘‘
افسانے: ’’روشنی کی بشارت‘‘ اور ’’قصے کہانیاں‘‘
خاکے: ’’میری محبتیں‘‘
یادیں: ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘
انشائیے: ’’فاصلے ،قربتیں ‘‘
سفرنامہ: ’’سوئے حجاز‘‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...