حیدر قریشی کی نثر میں مابعد الطبیعاتی فضا
(خاکوں اور یادوں کے حوالے سے)
حیدر قریشی کے افسانوں میں مابعد الطبیعاتی فضا۱۔ کی نشان دہی کرتے وقت میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ اس فضا میں تصوراتی اور خیالی دنیا بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن افسانوں کے بعد جب حیدر قریشی کے خاکوں اور یادوں کو اس پہلو سے پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ موضوع اور اس سے منسلک واقعات محض کسی خیالی دنیا کی پیداوار نہیں ہیں۔ یہ نہ صرف حیدر قریشی کے ذاتی تجربات ہیں بلکہ انہیں اپنے والد اور دادا سے ورثہ میں ملے ہیں۔ اپنے دادا کے خاکہ ’’ڈاچی والیا موڑ مہاروے‘‘ میں حیدر قریشی نے ان کی زندگی کا ایک انوکھا واقعہ اور تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’دادا جی معمولی سا بیمار ہوئے اور فوت ہو گئے۔ گھر میں رونا پیٹنا مچ گیا۔ سارے عزیز و اقارب جمع ہو گئے۔ دادا جی کو غسل دے دیا گیا تو اٹھ کر بیٹھ گئے۔ وفات کی خبر سن کر آئے ہوئے سارے لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ کچھ چیختے چلاتے گھر سے باہر بھاگے، ایک دو عزیز دہشت سے بے ہوش ہو گئے۔ ابا جی کو ’’شادئ مرگ‘‘ کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آ گیا۔ دادا جی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فوراً کہنے لگے دوسری گلی سے اللہ رکھا کمہار کا پتہ کراؤ۔ وہاں سے پتہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ابھی ابھی بیٹھے بیٹھے فوت ہو گیا ہے۔ دادا جی نے ایک انوکھی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے دو سفید کپڑوں والے کہیں لے جا رہے تھے کہ ایک مقام پر رُکنا پڑا۔ وہاں موجود کچھ اور سفید کپڑوں والوں نے ایک رجسٹر چیک کیا ( اسے عالم بالا کا شناختی کارڈ آفس سمجھ لیں) دادا جی کو لے جانے والوں کو، چیکنگ کرنے والوں نے کہا: باری تو اللہ رکھا کمہار کی تھی تم لوگ اللہ رکھا قریشی کو لے آئے ہو۔ چنانچہ غلطی معلوم ہو جانے کے بعد دادا جی کو پھر اس دنیا میں واپس لایا گیا اور اسی وقت اللہ رکھا کمہار کی موت واقع ہو گئی۔ جہاں تک اس واقعہ کی صحت کو تعلق ہے ابا جی، بابا جی، بواحیات خاتوں۔۔ سب نے یہ واقعہ اپنی چشم دید گواہی پر بیان کیا۔ چاچڑاں شریف اور کوٹ شہباز کے بعض دُور کے اور بوڑھے عزیزوں نے بھی تصدیق کی کہ ہم بھاگ نکلنے والوں میں شامل تھے۔ اس قصے کا اصل بھید کیا تھا؟ یہ شاید کوہ ندا کی دوسری سمت جا کر ہی معلوم ہو سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفید کپڑوں والے سارے فرشتے سرائیکی زبان بول رہے تھے۔ ظاہر ہے انہیں علم تھا کہ ہمارے دادا جی صرف سرائیکی زبان ہی جانتے ہیں۔‘‘ ۲۔
حیدر قریشی کے دادا جی کی زندگی کے اس تجربہ کے بعد ان کے والد کی زندگی میں کئی ایسے تجربات ملتے ہیں جنہیں مابعد الطبیعاتی مفہوم کے ساتھ روحانی واردات بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نوعیت کے واقعات کا مطالعہ کرنے کے بعد ڈاکٹر گیان چند جین نے حیدر قریشی کے نام اپنے خط میں لکھا:
’’آپ نے اپنے بزرگوں کے محیرالعقول واقعات لکھے ہیں‘ ان سے میں متاثر ہوا۔ تمام مضامین بہت دلچسپ اور دلکش ہیں۔‘‘ ۳۔
چونکہ حیدر قریشی کی تحریروں میں روحانیت کا بہت سارا ذکر آیا ہے اس لیے میرے استفسار پر انہوں نے لکھا تھا۔
’’برادرم نذر خلیق نے مجھے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے میری دوسری تحریروں کے بعض مندرجات سے عمومی طور پر اور یادوں کی قسط ’’رہے نام اللہ کا!‘‘ سے خصوصی طور پر اخذ کر کے استفسار کیا ہے کہ میں جب روحانیت کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری کیا مراد ہوتی ہے؟ اور ان کا اصرار ہے کہ میں اس کا جواب کسی مضمون میں یا پھر یادوں کی کسی قسط میں ہی لکھ دوں۔ یہ بیک وقت بہت ہی آسان اور بہت ہی مشکل سوال ہے۔ سو اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مختصر ترین عرض کرتا ہوں کہ انسانی روح جب اپنے اصل مالک و خالق کی جستجو کا سفر کرتی ہے تو یہ سفر روحانیت کہلاتا ہے۔ خالقِ کائنات روحِ اعظم ہے۔ ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف ہم سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ کسی کی وفات پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتے ہوئے ہم دراصل اسی حقیقت کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔
اُسی کے پاس تو جانا ہے لَوٹ کر آخر
سو خوب گھومیئے، پھریئے، رجوع سے پہلے
پیغمبران الٰہی کی روحانیت ایک الگ مقام و مرتبہ ہے، اولیا و صوفیا کی روحانیت کے بھی اپنے اپنے مدارج ہیں۔ ان سے ہٹ کر کوئی عام انسان اگر سچی لگن کے ساتھ خدا کی جستجو کرتا ہے، تو اس کی یہ جستجو ہی اسی کی روحانیت ہے، اس میں وہ جتنی ترقی کرتا جائے گا، اتنا ہی روحانی طور پر آگے بڑھتا جائے گا۔ روحانی مدارج طے کرنے کے لیے مختلف مذاہب کے ہاں مختلف طریقے ملتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ طریق کار کوئی بھی اختیار کیا جائے، اصل چیز یہ ہے کہ انسان کی جستجو اور لگن سچی ہو۔ اگر جستجو اور لگن واقعی سچی ہو تو خدا خود متلاشی کے ظرف کے مطابق اس تک پہنچ جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس پر منکشف ہو جاتا ہے‘‘۔ ۴۔
اپنے دادا جی کے واقعہ کے علاوہ حیدر قریشی نے اپنے والد کے حوالے سے کئی دلچسپ اور حیران کن واقعات لکھے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ ایسے واقعات لکھنے کے ساتھ اسے وہ کسی خاص نوعیت کی کرامت قرار دینے کی بجائے زندگی کا عام تجربہ سمجھتے ہیں اور اس کی کوئی نہ کوئی عقلی توجیہہ بھی کسی نہ کسی رنگ میں پیش کر دیتے ہیں۔ والد کے حوالے سے حیدر قریشی کے بیان کردہ چند واقعات پہلے دیکھ لئے جائیں۔
’’اندر کے آریا اور دراوڑ کی کشمکش سے بے نیاز ایک عرب درویش ہمیشہ ابا جی کے اندر موجود رہا۔ یہ درویش خواب بین، دعا گو اور صاحبِ کشف و کرامت تھا۔ عرب درویش کا کمال یہ تھا کہ نیل آرمسٹرانگ سے دس سال پہلے اس نے چاند کی سرزمین پر قدم رکھ دیا تھا۔ ابا جی نے ۱۰۵۹ء میں خواب دیکھا کہ وہ چاند کی سرزمین پر اترے ہوئے ہیں۔ وہاں کے پہاڑ دیکھنے میں ایسے لگتے ہیں جیسے راکھ کے ہوں اور پاؤں رکھتے ہیں راکھ میں دھنس جائیں گے۔ لیکن ابا جی پہاڑ پر پاؤں رکھتے ہیں تو وہ پتھر کے ہی ہوتے ہیں۔
Rain Makers اور Rain Breakers کے چند قصے تو اب پڑھنے کو ملے ہیں۔ مگر ابا جی کی ’’وِل پاور‘‘ اور ’’ارتکاز‘‘ کا کرشمہ تو ہم نے خود دیکھا تھا۔ ابا جی اور امی جی میں ’’بزرگی‘‘ کے مسئلہ پر مذاق چلتا رہتا تھا۔ ابا جی نے کہا: اگر میں اللہ میاں سے دعا کر کے اسی وقت بارش کروا دوں تو میری بزرگی کو مان لو گی؟۔۔ رحیم یار خاں میں گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں بادلوں کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ اس لئے امی جی نے للکارتے ہوئے شرط منظور کر لی۔ ابا جی مکان کی چھت پر چڑھ گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب وہ چھت سے نیچے آئے، چاروں جانب سے گھنگھور گھٹائیں امڈی چلی آ رہی تھیں۔ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ لیکن امی جی نے ابا جی کی بزرگی کو نہیں ماننا تھا، نہیں مانیں۔ مریضوں پر دم کرنا اور کسی کی خاص غرض کے لیے خصوصی دعا کرنا ان کی روحانیت یا وِل پاور کا عام سا کرشمہ تھا۔ میری ایک بہن زبیدہ کو جب بھی بخار ہوا اور دوا سے فرق نہیں پڑا، ابا جی نے اسے بھینچ کر گلے سے لگایا اور وہ ٹھیک ہو گئی۔ میرے نزدیک ایسے متعدد واقعات کے باوجود ابا جی کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ انہوں نے دکھوں سے بھری ہوئی زندگی کو ہنسی خوشی گزار لیا۔ کلاتھ مرچنٹ سے ٹیلر ماسٹر تک کا تکلیف دہ سفر طے کیا۔ پھر شوگر مل میں نوکری کر لی اور مجھے بھی شوگر مل میں جھونک دیا۔‘‘ ۵۔
اس نوعیت کے واقعات کو پڑھنے کے بعد قاضی اعجاز محور نے ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’حیدر قریشی نے اپنے رزیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش تو کیا، ایسا خیال بھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ اگرچہ کچھ حالت و واقعات ان شخصیتوں کے بارے میں ایسے بیان کیے گئے ہیں جن کا سہارا لے کر انہیں بڑی آسانی سے ولی اللہ کے درجے پر پہنچایا جا سکتا تھا۔ مگر حیدر کی محبت کا یہ انوکھا انداز ہے کہ اس نے اپنے بزرگوں کو عام انسانی سطح پر ہی عقیدت دینا پسند کیا اور مختلف زاویوں سے ان کی شخصیت کی پروجیکشن کو اچھوتا بنانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ سچائی اور حقیقت کے قریب پہنچنے کی پر خلوص کوشش کی ہے۔‘‘ ۶۔
حیدر قریشی کے والد کی زندگی میں اس نوعیت کے واقعات کا آغاز کیسے ہوا، اس کی کچھ روداد بھی انہوں نے بیان کر دی ہے۔ ان کے بقول۔
’’۱۹۵۰ٔ میں ابا جی اچانک بیمار ہوئے تھے۔ اس علالت میں عجیب و غریب قسم کے دورے پڑتے تھے۔ بابا جی کے بیان کے مطابق ابا جی کو چار چار پانچ پانچ کڑیل جوانوں نے دبایا ہوتا تھا مگر ابا جی اس طرح اٹھ بیٹھتے کہ انہیں دبانے والے لڑھکتے ہوئے اِدھر اُدھر جا پڑتے۔ ابا جی نے اس سلسلہ میں جو احوال سنایا، اس کے مطابق ان کے اوپر ایک بہت بڑا فانوس نصب تھا، حالانکہ تب ہمارے گھر میں بجلی ہی نہیں آئی تھی۔ اس فانوس سے سبز رنگ کی روشنی نکلتی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ اسی روشنی کے ذریعے ان کی بہت سے بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔ ابا جی کے بقول ایک مرحلے پر انہیں خود علم ہو گیا تھا کہ ان کی جان نکل رہی ہے۔ ٹانگوں سے بالکل جان نکل چکی تھی مگر پھر انہیں دنیا میں مزید (۳۶ سال) جینے کی اجازت مل گئی۔ ابا جی کی زندگی کی یہ سنگین بیماری، جس کے باعث سارے عزیز ان کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے حقیقتاً کوئی بیماری تھی یا کوئی روحانی تجربہ تھا، میں اس بارے میں تو کوئی حتمی بات نہیں کر سکتا تاہم بعد میں ان کی زندگی میں خواب بینی، دم درود اور کشوف کا جو سلسلہ نظر آتا ہے وہ اسی تجربے سے ہی مربوط محسوس ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
میری پیدائش سے چند ماہ پہلے ابا جی نے یکے بعد دیگر دو خواب دیکھے تھے۔ پہلا خواب یہ تھا کہ ایک بڑا اور گھنا درخت ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ابا جی اس درخت کے اوپر عین درمیاں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ خواب سن کر ابا جی کے ایک دوست روشن دین صاحب نے کہا کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جو۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا خواب یہ تھا کہ لمبے لمبے قد والے بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھ بلند کر کے ’’حیدر۔۔ حیدر‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان دونوں خوابوں کے چند ماہ بعد میری پیدائش ہوئی۔ ابا جی نے اپنے مرشد کو خط لکھا کہ بیٹے کا نام تجویز فرما دیں۔ مرشد کو ابا جی کے خواب کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے حیدر بنا دیا۔ مگر ابا جی کے دونوں خوابوں کی تعبیر کا ابھی تو دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ شاید حسن اتفاق تھا کہ میں پیدا ہو گیا اور حیدر نام رکھا گیا۔‘‘ ۷۔
مذکورہ بالا دو خوابوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مصر میں اردو کے مصری اسکالر ہانی السعید لکھتے ہیں۔
’’میں حیدر قریشی کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ان کے والد محترم ’’کے دونوں خوابوں کی تعبیر کا ابھی تک تو دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا‘‘۔۔ کیونکہ ان کے ابا جی کے خوابوں کی حالیہ قطعی تصدیق سے ان کی بزرگی کے بڑے کرشمے آشکار ہو چکے ہیں۔‘‘ ۸۔
حیدر قریشی کے والد کی زندگی میں تو ایسے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں لیکن ان کی وفات کے بعد بھی یہ حیران کن واقعہ رونما ہوا جسے حیدر قریشی نے یوں بیان کیا ہے۔
’’ابا جی کی وفات کے بعد ہم نے ان کی میّت کو سر سے پیروں تک گلاب کے پھولوں سے بھر دیا تھا اور پھولوں سمیت ہی دفن کیا تھا۔ وفات کے تیئسویں دن، رات کے نو بجے کے بعد اس کمرے کی کھڑکی سے گلاب کی خوشبو کی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں جو ابا جی کا ذاتہ کمرہ تھا۔ یہ خوشبو پہلے امی جی نے محسوس کی اور مجھے کمرے میں بلایا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے گلاب کی تیز خوشبو کا احساس ہوا۔ میں نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے لمبے لمبے سانس لینے شروع کر دیئے۔ میری ایک کزن خالدہ کے دیور شاہد حسین بھی اس وقت ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بھی کمرے میں بلا لیا۔ انہوں نے بھی حیرانی کے ساتھ خوشبو کی موجودگی کی تصدیق کی۔ خوشبو اتنی تیز تھی کہ باہر کی گلی میں بھی ہلکی ہلکی محسوس ہو رہی تھی جبکہ کھڑکی سے تو خوشبو کا سیلاب امڈ رہا تھا۔ ایک دن کے وقفے کے بعد دوپہر کو تقریباً ساڑھے بارہ بجے اسی کمرے میں پھر گلاب کے پھولوں کی تیز خوشبو پھیل گئی۔ اس خوشبو کو میں نے کمرے میں آ کر محسوس کیا اور پھر آوازیں دے کر سارے افراد خانہ کو جمع کر لیا۔ سب نے ہی خوشبوں کو محسوس کیا۔ چند منٹ کے بعد خوشبو غائب ہوتی چلی گئی۔ دونوں دفعہ خوشبو کا جانا ایسا لگا جیسے کوئی انسان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے کمرے سے نکل رہا ہو۔
بابا جی نے مجھے کہا کہ اگر تم اس معاملے میں دوسروں سے بات نہ کرتے تو یہ خوشبو وقتاً فوقتاً تمہاری ماں کو اور تمہیں ملتی رہتی۔ شاید خوشبو سے بڑھ کر بھی کچھ رونما ہو جاتا۔ مگر تم نے اس کا بھید افشا کر کے خود کو اس سے محروم کر لیا ہے۔ بابا جی کی باتیں بابا جی جانیں۔ لیکن یہ خوشبو کیا تھی؟ ۔۔ اتنی سی بات ہی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر آنکھ خواب تخلیق کر سکتی ہے تو قوتِ شامہ بھی خوشبو تخلیق کر سکتی ہے۔‘‘ ۹۔
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد منشا یاد نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’’اپنے والد کی عادات، مزاج اور ہر طرح کی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کا احوال انہوں نے خوب تفصیل سے بتایا ہے۔ اور اس خوبی سے کہ وہ جانے پہچانے اور اپنے اپنے سے لگنے لگتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد انہوں نے ایک روحانی کرامت کا ذکر بھی کیا ہے۔ اور حالانکہ ان کی زندگی میں ان کی والدہ نے کبھی انہیں بزرگ تسلیم نہ کیا تھا مگر اب وہ بھی حیران تھیں۔ حیدر قریشی بتاتے ہیں کہ وفات کے تیئسویں دن، رات نو بجے کے بعد اس کمرے کی کھڑکی سے گلاب کی خوشبو کی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں جو ان کے ابا جی کا ذاتی کمرہ تھا۔ یہ خوشبو پہلے ان کی والدہ نے محسوس کی اور انہیں کمرے میں بلایا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی انہیں بھی گلاب کی تیز خوشبو کا احساس ہوا۔ میں حیدر قریشی کا یہ بیان پڑھ کر تھوڑا سا پریشان ہو گیا اور سوچ میں پڑ گیا کہ میں تو انہیں نہایت عقلی، ریشنل اور سائنسی سوچ کا حامل سمجھتا تھا یہ انہوں نے کرامتوں اور معجزوں کی کیا باتیں شروع کر دی ہیں مگر جونہی میں نے آخری جملہ پڑھا، اطمینان کا ایک سانس لیا۔ لکھا تھا:۔۔۔۔۔۔ ’’یہ خوشبو کیا تھی؟ اتنی سی بات ہی کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر آنکھ خواب تخلیق کر سکتی ہے تو قوتِ شامہ بھی خوشبو تخلیق کر سکتی ہے‘‘ ۱۰۔
منشا یاد نے بلاشبہ بڑی حقیقت پسندانہ بات لکھی ہے۔ شاید دوستوں کی ایسی باتیں حیدر قریشی کے ذہن میں رہی ہوں گی جب انہوں نے اپنی یادوں کے ایک باب میں اسی حوالے سے چند باتیں وضاحت کے رنگ میں بیان کر دیں۔
’’ مجھے مذہب اور سائنس کے اس پہلو سے دلچسپی ہے جہاں سائنس آزادانہ طور پر کائنات اور اس بھیدوں کی نقاب کشائی کا کوئی مسئلہ سر کرتی ہے اور لا الہ۔۔ کا منظر دکھاتی ہے اور وہیں کہیں آس پاس سے مذہب کی بخشی ہوئی کوئی روحانی کیفیت یا کوئی مابعد الطبیعاتی لہر مجھے اس نفی میں سے اثبات کا جلوہ دکھاتی ہے اور الا اللہ کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔ اور یہ سارا سائنسی اور مابعد الطبیعاتی آہنگ میری ادبی جمالیات میں میری ادبی استطاعت کے مطابق اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے۔ کمیوٹر کے چِپ کی کارکردگی منکر نکیر اور یومِ حساب پر ایمان پختہ کرتی ہے تو کلو ننگ کا تجربہ حیات بعد الموت کا سائنسی ثبوت دے کر اس عقیدہ پر مجھے مزید راسخ کرتا ہے۔ خلا کو نکال دینے سے ساری کائنات کا مادہ سوئی کی نوک پر سما جانے، اور پھر کسی اینٹی میٹر کے اس سے ٹکرانے کے نتیجہ میں اس کے غائب ہو جانے کا سائنسی دعویٰ مجھے اس قیامت پر پکا یقین دلاتا ہے جس میں ساری کائنات فنا ہو جائے گی اور صرف خدا کی ہستی باقی رہے گی۔ میرا شروع سے یہی خیال رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف جا رہی ہے، مزہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقتِ عظمٰی کی طرف سفر کرتا ہے۔ اور بس۔۔۔۔۔ بات اپنے نام کے حصے بخروں کی داستان سے شروع ہوئی تھی اور اس کے نام پر تمام ہو رہی ہے جو اس ساری بھید بھری کائنات کا مالک و خالق ہے۔
سب موت کو شکار ہیں اس کو فنا نہیں رہے نام اللہ کا!‘‘ ۱۱۔
اپنے والد اور دادا جی کے واقعات بیان کرنے کے ساتھ حیدر قریشی نے اپنی زندگی کے بعض اسی نوعیت کے واقعات کو بھی بیان کیا ہے لیکن ان کو کسی روحانی مقام سے منسوب کرنے پر قدغن بھی لگا دی ہے۔ اور اسے بہت ہلکے پھلکے انداز میں بھی لیا ہے۔ یادوں کے دو مختلف ابواب اور ایک خاکے کے ان اقتباسات سے میری بات کو زیادہ بہتر طور پر حیدر قریشی کے اپنے الفاظ کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔
’’ کوئی بڑے روحانی تجربے نہیں ہیں، بس ہم جیسے گنہگاروں کے ظرف کے مطابق خدا کی طرف سے تھوڑی بہت خیرات ہے، ایسی خیرات ہم جیسے ہزاروں گنہگاروں کو بھی ملتی رہتی ہے۔ کسی کو ایسے تجربات سے بد ہضمی ہو جائے اور وہ خود کو کچھ سمجھنے لگ جائے تو اس کے لیے ابتلا کا موجب بھی بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ایسے تجربات کے لیے تھوڑا سا گنہگار ہونا بھی شاید شرط ہو۔ کیونکہ ’’اللہ کے نیک بندے‘‘ تو ایسے تجربات کی رورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اسی لیے انہیں ایسے تجربے ہوتے بھی نہیں۔‘‘ ۱۲۔
’’یہاں جرمنی میں ایک بار مجھے صوفیانہ خیالات نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔ زندگی کی ہر سرگرمی بے معنی لگ رہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ کسی ویرانے میں جا کر اللہ اللہ کرتے ہوئے زندگی بسر کروں۔ پھر زندگی ہی بے معنی لگنے لگی۔ میں نے دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو گہری اور طویل ہونے لگی تو مبارکہ نے کہا ’’ ٹھہریں! میں آپ کی شوگر چیک کرتی ہوں‘‘۔۔۔ جب شوگر چیک کی گئی تو اس کا لیول معمول سے خاصا زیادہ تھا۔ شوگر کنٹرول کرنے والی دوا لینے سے حالت بہتر ہوئی تو زندگی با معنی اور خوشی سے بھری ہوئی لگنے لگی۔ تب میں نے شریر انداز سے مبارکہ سے کہا ’’ پہلے زمانے میں شوگر کی بیماری کی تشخیص کرنے، اسے ماپنے اور کنٹرول کرنے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ شاید اسی وجہ سے بعض شہزادے اپنے محل چھوڑ کر جنگلوں میں چلے گئے۔ بُرا ہو اِن جدید سہولیات کا جن کے باعث میں گوتم بُدھ بنتے بنتے رہ گیا۔‘‘ ۱۳۔
’’دراصل ابا جی صرط مستقیمی آدمی تھے۔ ایسا بننے کے لیے بڑی کٹھن ریاضت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں بھی صراط مستقیمی بننے کی کوشش کرتا ہوں مگر زگ زیگ چلتا ہوں کیونکہ مجھے احساس رہتا ہے کہ لکیریں اپنے فقیروں کو کھا جاتی ہیں۔‘‘ ۱۴۔
جرمنی کے جاوید خان حیدر قریشی کی تخلیقات میں اس نوعیت کے مضامین کے مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں۔
’’حیدر صاحب! جو بے ساختگی اور سچائی میں نے آپ کی تحریر میں پائی ہے بہت کم لوگوں کے ہاں ملتی ہے۔ مجھے ایک خاص سطح سے نیچے کی تحریریں بالکل متاثر نہیں کرتیں۔ میں ادب کا ایک حقیر طالب علم ہوں لیکن سچائی کی تلاش میں رہتا ہوں۔ بناوٹ یا بڑے نام میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ نہ ہی مجھے کبھی کسی کی دولت مرعوب کرتی ہے۔ یہ سب میرے لیے سطحی اور چھوٹی باتیں ہیں۔ خدا آپ کا زورِ قلم اور زیادہ کرے۔ جو راہ آپ نے اپنے لیے منتخب کی ہے وہ ’’زگ زیگ‘‘ سہی۔ مگر جاتی بہر طور منزل کی طرف ہے۔ اس لیے کہ جذبوں کی صداقت اپنا راستہ خود متعین کرتی ہے۔ لکیروں کے ڈسے مجھے سے لوگوں کے لیے آپ بہر حال خضر راہ ہیں۔‘‘ ۱۵۔
حیدر قریشی نے اپنی زندگی کے بعض ایسے واقعات بھی لکھے ہیں، جو مابعد الطبیعاتی نوعیت کے ہیں۔ ایک واقعہ یہاں درج کرتا ہوں۔
’’خانپور میں شوگر ملز کی ملازمت کے دوران ایک دفعہ میری شام ۶ بجے سے رات ۲ بجے تک والی شفٹ تھی۔ گھر سے چلا تو ہلکے سے ٹمپریچر کا احساس ہو رہا تھا‘ فیکٹری پہنچنے تک بخار ہو گیا۔ میں نے ساتھیوں کو اپنا کام سونپا اور خود لیبارٹری کے ڈارک رُوم میں جا کر لیٹ گیا۔ فرش پر فلٹر کلاتھ کا ایک ٹکڑا بچھا ہوا تھ‘ ایک اینت کا تکیہ بنا لیا لیکن اوپر لینے کے لیے کوئی کپڑا نہیں تھا۔ بخار کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی۔ میں اپنے آپ میں سمٹ کر ٹھنڈ سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اسی دوران بخار کی غنودگی کی حالت میں ایسے لگا جیسے کسی نے آ کر گرم رضائی میرے اوپر ڈال دی ہو۔ کسی کے آنے‘ اپنے اُوپر رضائی ڈالے جانے اور پھر اس رضائی کو اپنے دائیں‘ بائیں اچھی طرح لپیٹنے کا عمل مجھے صاف صاف محسوس ہوا تھا۔ پھر مجھے گہری نیند آ گئی۔ رضائی کی گرمائش سے کھل کر پسینہ آیا۔
چھٹی کے پہلے سائرن کے ساتھ میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا بخار اُتر چکا ہے۔ میں نے رضائی کو اپنے اوپر سے ہٹا کر اُٹھنا چاہا۔ لیکن میرے اُوپر تو کوئی رضائی نہیں تھی۔ پھر یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔ میں نے ابا جی کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا ایسے واقعات کو کسی کے آگے بیان نہیں کرنا چاہیے ورنہ انسان ایسے تجربات کی لذت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ (ابا جی کی وفات کے بعد ابا جی کے تعلق سے ایک تجربے کے بعد مجھے بابا جی نے بھی ایسی ہی نصیحت کی تھی۔ لیکن شاید مجھ میں اخفاء کی برداشت کی قوت نہیں ہے)۔‘‘ ۱۶۔
شاید ایسے تجربات کا نتیجہ ہے کہ ہالینڈ سے ناصر نظامی نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
’’آپ کی تحریر میں میں نے محبت کی طلسماتی اور ماورائی فضاؤں جیسی کیفیت محسوس کی ہے۔ کچھ ایسا جو روحانی دیوتاؤں کا ورثہ ہوتا ہے۔ جو روحانیت کے عارفین کا نصیب ہوتا ہے۔ مجھے آپ کے ہاں ایک روحانی ولائت کی جھلک دکھائی دی ہے۔‘‘ ۱۷۔
انگلینڈ سے مقصود الٰہی شیخ نے حیدر قریشی کی تخلیقات میں ایسے حساس موجوعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا۔
’’آپ نے بڑی مشکل باتیں بڑی آسانی سے لکھ دی ہیں‘ آپ کو اس کی داد ملے گی۔‘‘ ۱۸۔
مابعد الطبیعاتی فضا صرف حیدر قریشی نے اپنے والد اور دادا تک محدود نہیں رکھی۔ اس قسم کے واقعات اپنے ماموں پروفیسر ناصر احمد کی زندگی میں آئے تو انہیں بھی بیان کیا ہے اور ایک کالج کے پرنسپل بریگیڈئیر اعجاز اکبر کی زندگی میں آئے تو انہیں بھی اچھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ پہلے ان کے ماموں پروفیسر ناصر احمد کی زندگی کا یہ واقعہ درج کرتا ہوں۔
’’ ریلوے ملازمت کے دوران ماموں ناصر غالباً کوہاٹ میں مقیم تھے۔ وہاں ایک دفعہ موسم بہار میں ایک سانپ نکل آیا۔ ریلوے کے ایک دو ملازموں نے مل کر سانپ کو ہلاک کر دیا۔ ماموں ناصر کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ بھی جائے واردات پت تماشائی کی حیثیت سے موجود تھے۔ فلمی کہانیوں کے عین مطابق مردہ سانپ کی آنکھ میں ماموں ناصر کا عکس بھی محفوظ ہو گیا۔ پھر اس سانپ کی مادہ کے انتقام کی سٹوری شروع ہو گئی ماموں ناصر سے اس ناگن نے عجیب انتقام لیا۔ ہر سال بہار کے موسم میں آتی اور ان کے پیروں کو سونگھ کر چلی جاتی۔ اگلی صبح پاؤں اس طرح ہوتے جیسے کسی نے ساری کھال اتار لی ہو۔ ماموں ناصر اس دوران ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر محکمہ تعلیم میں آ گئے مگر محکمے کی تبدیلی کا بھی اس ناگن نے کوئی اثر نہیں لیا۔ ماموں اس موسم میإ پشاور میں ہوتے یا کوہاٹ میں، میراں شاہ میں ہوتے یا ڈیرہ اسماعیل خاں میں۔۔ اپنے پیار کی آگ میں جلتی اور انتقام کی آگ میں سلگتی، غلط فہمی کی ماری وہ ناگن وہیں پینچ جاتی، ان کے پاؤں سونگھتی اور انہیں اذیت میں مبتلا کر کے لوٹ جاتی۔ آفرین ہے اس ناگن کی اخلاقیات پر کہ اس نے موموں کے پاؤں سونگھنے سے کبھی تجاوز نہیں کیا یہ الگ بات ہے کہ اسی حرکت سے ہی ماموں کے پیروں کا ماس الگ ہو جاتا تھا۔ شاید وہ ان کے ماس ہی کو ان کے جسم سے الھ کرنا چاہتی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خاں میں قیام کے دوران جب وہ ناگن اپنے مقرّرہ وقت پر پہنچی تو اتفاق سے ماموں صادق اور چند سٹوڈنٹس بھی وہیں موجود تھے۔ ماموں ناصر تو اس اس ناگن کو دیکھتے ہی سحر زدہ سے ہو گئے مگر ان کے شاگردوں اور ماموں صادق نے مل کر اس ناگن کا کام تمام کر دیا۔ یوں ’’ناگن کا انتقام‘‘ کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی لیکن کہانی کسی فلم کی سٹوری یا قدم مائتھالوجی سے اخذ کی ہوئی نہیں تھی۔ ماموں ناصع نے فلمی ہیرو کے برعکس زندگی کے ہیرو کی طرح اپنا پارٹ پلے کیا۔ فلمی ہیرو کی طرح مصنوعی کرب خود پر طاری نہیں کیا بلکہ واقعہ کی پوری اذیّت بھوگی اور سالہا سال موت سے معانقہ کر کے نیا جنم لیتے رہے۔‘‘ ۱۹۔
اس واقعہ کے بارے میں منشا یاد نے اس طرح اظہارِ خیال کیا۔
’’حیدر قریشی شاعر، افسانہ نگار اور انشائیہ نگار بھی ہیں اور ان کی یہ تینوں خصوصیات ان خاکوں میں جمع ہو گئی ہیں۔ ان میں جابجا بہت سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت اور خیال انگیز اسفانے بھی مل جاتے ہیں جیسے انہوں نے اپنے ماموں ناصر کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ کہیں بھی ہوتے ہر سال بہار کے دنوں میں انہیں ڈسنے کے لیے ایک ناگن آیا کرتی تھی جس کے محبوب کو ان کے ملازموں نے ہلاک کر دیا تھا۔ یوں بھی اس واقعہ میں بلا کی افسانویت تھی مگر ان کے اندازِ نگارش نے اسے اور بھی دل آویز بنا دیا ہے۔‘‘ ۲۰۔
اس واقعہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات کے حوالے سے انگلینڈ کے محمود ہاشمی نے اپنے خیالا ت کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
’’آپ کے پاس کہنے کی باتیں ہیں اور انہیں لکھنے کا ڈھنگ بھی اللہ میاں نے آپ کو دے رکھا ہے۔ آپ کے قریبی عزیزوں اور بزرگوں کے بارے میں بعض حقائق بڑے دل آویز ہیں آپ کے ابا جی اور آپی کی روحانی قوت کے کوائف، نانا جی کا اپنے بھائیوں کے تشدد کے خلاف ردِ عمل اور ان کی نسلیں ختم کر دینے والی پیش گوئی جو سچ ثابت ہوئی اور آپ کے دادا جی کا مر کر زندہ ہو جانا اور ماموں ناصر سے ناگن کا انتقام پڑھتے ہوئے مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ وہ جو کسی نے کہہ رکھا ہے کہ سچ فکشن سے زیادہ حیرت انگیز ہوتا ہے‘ واقعی سچ ہے۔‘‘ ۲۱۔
ایبٹ آباد کے ایک کالج کے پرنسپل بریگیڈئیر اعجاز اکبر کے خاکہ میں حیدر قریشی نے یہ دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔
’’آرمی برن ہال پبلک سکول ایبٹ آباد میں انہیں پرنسپل بنا کر بھیجا گیا۔ یہیں بریگیڈئیر کا عہدہ ملا۔ جب ریٹائرمنت کا وقت قریب آیا، ان کے سامنے ایک پرکشش پیش کش موجود تھی۔ ایک اہم سرکاری ادارہ میں انہیں ڈائرہکٹر بنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے اس عہدے کو اپنی خوش قسمتی تصوّر کیا لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے ایبٹ آباد کے ایک ملنگ سے مشورہ کر لیا۔ ملنگ نے اپنی ترنگ میں کہہ دیا ادھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ بریگیڈئیر اعجاز اکبر نے اتنی بڑی پیش کش رد کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع میں ایک ملنگ کا ذکر آیا ہے جس نے بریگیڈئیر صاحب کو ڈائریکٹر کی پیش کش قبول کرنے سے روکا تھا۔ بعد میں اس ملنگ کا روکنا بے حد مفید ثابت ہوا۔ چنانچہ صوفیاء، فقیروں اور ملنگوں سے ان کی عقیدت اور بھی بڑھ گئی۔ ایبٹ آباد کے مذکورہ ملنگ ایک ننگ دھڑنگ مجذوب ہیں۔ بریگیڈئیر صاحب انہیں جہاں کہیں بھی دیکھ لیں اپنی کار میں بیٹھنے کی درخواست کر دیتے ہیں۔ اکثر یوں ہُوا کہ ملنگ بابا عالمِ جذب سے حکم صادر کرتے راولپنڈی چلو۔ گاڑی حس ابدال تک پہنچتی تو صدا آتی اب مانسہرہ چلو۔ چانچہ وہیں سے پھر واپس ہو کر مانسہرہ کا سفر شروع ہو جاتا۔ ایک بار تو رات کے دو بج گئے۔ اہل خانہ پریشان کہ بریگیڈئیر صاحب بتائے بغیر کہاں چلے گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ملنگ بابا کے حکم کی تعمیل ہو رہی تھی۔ میں نے بھی ایک بار ان ملنگ بابا کو ننگ دھڑنگ حالت میں بریگیڈئیر صاحب کے ساتھ ان کی کار کی اگلی سیٹ پر تشریف فرما دیکھا ہے۔ ان کے بیٹھنے کے انداز سے مجھے ایک ہلکی سی تشویش ضرور ہوئی کہ دوران سفر گیئر تبدیل کرتے ہوئے بریگیڈئیر صاحب کا ہاتھ کہیں چوک نہ جائے۔ مسائل تصوف سے مجھے بھی تھوڑی بہر رغبت ہے، تاہم میں انسانی لاشعور میں ہزاروں برس پرانے کلچر کی کارفرمائی کو بھی تلاش کرتا رہتا ہوں۔ بریگیڈئیر صاحب کے ملنگ بابا کو دیکھ کر کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ لنگ پوجا کے قدیم تصور نے صورت بدل کر کیسا شاندار روپ اختیار کر لیا ہے۔‘‘ ۲۲۔
حیدر قریشی خدا کو رب العالمین سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر انسان کے خدا کے ساتھ تعلق کی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ اس تعلق میں کوئی دوسرا غیر ضروری طور پر دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ لیکن ایسے کسی تعلق کے باوجود وہ دعا کی قبولیت کا اپنا ایک نکتہ نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کی یادوں کے ایک باب کا درج ذیل اقتباس ان باتوں کو بہتر طور پر اجاگر کر دیتا ہے۔
’’معتقدت سے ہٹ کر جہاں تک خدا سے کچھ مانگنے کا تعلق ہے‘ میرے نزدیک یہ ہر انسان اور خدا سے اس سے تعلق کی نوعیت پر منحصر ہے۔ نسیم سیفی صاحب طویل عرصہ تک بعض افریقی ممالک میں مقیم رہے۔ وہ ایک بار بتانے لگے کہ خشک سالی کے باعث قحط کا خطرہ پیدا ہو گیا تو مسلمانوں نے نمازِ استسقاء پڑھنے کے لیے ایک تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اس تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے سِکھ حضرات نے ایک گراؤنڈ میں اپنے طریقِ عبادت کے مطابق اجتماعی دعا کی اور مسلمانوں کے نماز استسقاء پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ برسات نے پہلے ہی دھرتی کو سیراب کر دیا۔‘‘ ۲۳۔
’’بہت بار ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے دعا کی اور اسی حالت میں مجھے دعا کی قبولیت کا یقین بھی ہو گیا۔ جب بارہا ایسا ہوا تو میں نے اپنے بعض قریبی عزیزوں کو اس بارے میں بتایا۔ اس بتانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دعا بظاہر قبول ہو چکی تھی‘ ایک لمبے وقفہ تک معلّق ہو گئی۔ دو تین بار ایسے جھٹکے لگنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قبولیت دعا کا نشان تو خدا کے مامورین اور اولیاء کے لیے مخصوص ہے۔ میری کسی بھی دعا کا قبول ہونا میرا انفرادی معاملہ ہے۔ اگر میں اسے دوسروں کو بتاؤں گا تو مقامِ ولایت پر قدم رکھنے جیسی جسارت کروں گا‘ جس کا میں اہل ہی نہیں۔ سو اسی لیے وہ دعائیں جن کی قبولیت کے بارہ میں دوسروں کو بتا دیتا ہوں‘ لمبے عرصہ کے لیے ردآ و قبول کے درمیان معلّق ہو جاتی ہیں اور یہی میرے افشاء کی سزا ہوتی ہے۔
عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف
نہ مسترد ہوئے اب تک نہ مستجاب ہوئے‘‘ ۲۴۔
کرشن مہیشوری حیدر قریشی کے اس اندازِ نظر کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔
’’حیدر اپنی روداد میں اپنی کئی مشکلات اور مسائل سے چھٹکارا پانے کا سب کسی ماورائی ہستی کو قرار دیتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ اس کا کھلے دل سے اقرار بھی کرتے ہیں کہ خدا کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ خواب میں دوائی کھانے اور اس کے نتیجہ میں فوراً صحت یاب ہونے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ہو سکتا ہے خواہش کی شدت خواب میں کسی نفسیاتی طریقے سے علاج بھی کر دیتی ہو۔ ایسا ہے تو تب بھی یہ ایک نفسیاتی بھید ہے۔ ویسے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کیا بھید ہے۔‘‘ ۲۵۔
ڈاکٹر لئیق صلاح صاحبہ اس سلسلہ میں لکھتی ہیں۔
’’ان کے خودنوشت سوانح سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔ دعا مانگتے ہی قبولیت کا یقین بھی ہے۔ اور مایوسی و ناامیدی کو کفر سمجھتے ہیں۔ تصوف سے بھی واقفیت ہے۔ مسئلہ جبر و قدر کے بارے میں جو تجزیہ انہوں نے کیا ہے وہ بالکل منفرد انداز کا ہے۔‘‘ ۲۶۔
اس مضمون میں حیدر قریشی کے خاکوں اور یادوں کے چند واقعات ہی پیش کر سکا ہوں۔ اگر نفس، مضمون سے متعلق سارے اقتباس جمع کروں تو مضمون ایک سے دو گنا ہو جائے گا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اپنی گیارہ کتابوں کے مجموعہ ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ میں کتاب ’’کٹھی میٹھی یادیں‘‘ کی اشاعت کے بعد بھی حیدر قریشی نے یادوں کے مزید ابواب لکھنا جاری رکھا ہے۔ چنانچہ جدید ادب جرمنہ کے شمارہ نمبر ۱۵ اور ۱۶ میں ان کے دو نئے اور نسبتاً طویل باب ’’لبیک الھم لبیک‘‘ اور ’’زندگی در زندگی‘‘ کے عنوان سے چھپ چکے ہیں۔ اگرچہ ان کی یادوں کے دو باب ’’رہے نام اللہ کا‘‘ اور ’’روح اور جسم‘‘ اپنی مجموعی حیثیت میں مابعد الطبیعاطی مسائل اور سائنسی انکشافات کو روبرو لا کر ادب کے جمالیاتی کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔ تاہم یہ دونوں آخری ابواب ’’لبیک الھم لبیک‘‘ اور زندگی در زندگی‘‘ اپنی مجموعی فضا میں ہی ایک عجیب مابعد الطبیعاطی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ پہلا باب ایک خواب سے شروع ہوتا ہے جس میں حیدر قریشی کو ان کی وفات کی تاریخ بتائی گئی تھی۔ پھر اسی عرصہ میں ان پر اور ان کے خاندان پر بیماریوں اور مصائب کی یلغار شروع ہو گئی۔ جسے ہنستے مسکراتے ہوئے جھلتے چلے گئے۔ موت کی مقررہ تاریخ گزر گئی اور حیدر قریشی زندہ سلامت رہے۔ اس کے بعد خواب کی تعبیر اور تاویل کا ایک سلسلہ چل نکلا جو دوسرے باب کےآخر تک ایک حیران کن تسلسل لیے ہوئے ہے۔ وفات کی مقررہ تاریخ گزر گئی اور موت موخر ہو گئی۔ اس پر کینیڈا کے عبداللہ جاوید نے خواب کی جو دلچسپ تعبیر و تاویل کی ’’زندگی در زندگی‘‘ سے اسے یہاں درج کرتا ہوں۔
’’کینیڈا سے عبداللہ جاوید صاحب کی تاویل مجھے مزے کی لگی۔ ان کے بقول: جیسے کسی بچے کو کسی شرارت یا کام سے روکنے کے لیے کسی تاریک کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھول کر دکھایا جائے اور پھر دروازہ بند کر کے بچے کو ڈرایا جائے کہ اگر تم شرارت سے باز نہ آئے تو تمہیں اس کمرے میں بند کر دیا جائے گا۔ بالکل اسی طرح ۳ دسمبر کی تاریخ بتا کر اللہ میاں نے موت کے تاریک دروازے کا ڈراوا دیا تھا۔ لیکن یہ ضدی بچہ شرارت کو چھوڑ کر دروازے کے اندر میں دلچسپی لینے لگا۔ دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا کہ شرارت ورارت کا معاملہ چھوڑیں یہ دروازہ کھولیں مجھے اس کمرے میں جانا ہے۔ دیکھوں تو سہی اندر کیا ہے۔ جب دروازہ نہیں کھلا تو ۲۶ نومبر آنے تک اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکانا شروع کر دیا، اور پھر ۲۶ نومبر سے ۳ دسمبر تک اس بچے نے دروازہ کھٹکھٹانا اور شور مچانا جاری رکھا۔‘‘ ۲۷۔
حیدر قریشی کی یادوں کے مذکورہ بالا دونوں ابواب کے حوالے سے ایوب خاور لکھتے ہیں۔
’’حیدر قریشی کل بھی راضی بہ رضائے الٰہی تھا اور آج بھی۔ اس کے بہت سارے دوست ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ حیدر نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس کی موت واقع ہونے والی ہے۔ اس نے ہماری بھابھی مبارکہ کو، بچوں کو اور سبھی دوستوں کو نہ صرف بتایا بلکہ اس خواب کے مطابق اپنی زندگی کے بہت سے معاملات کو عملی طور پر سمیٹنا بھی شروع کر دیا۔ اس عمل میں حیدر کی طرف سے خواب پرستی کا اشارہ کہیں نہیں ہے۔ حیدر کی یاداشتوں کا تازہ Chapter ثابت کرتا ہے کہ کہ زندگی کی بے ثباتی اور موت کے برحق ہونے پر حیدر کا یقینِ کامل کس درجے کا ہے۔ اس کی زندگی مسلسل محنت سے عبارت ہے اور اس خوف سے عاری ہے کہ نہ جانے کل کیا ہو گا۔ اسی درویشانہ سوچ کی برکت ہے کہ اس بے ثبات زندگی میں قدرت نے اس کو آلایشوں سے پاک اور بنیادی آسایشوں والی زندگی میں علم و ادب کی خدمت اور دوستوں سے محبت کرنے کا موقع دے رکھا ہے۔ اللہ اِسے خوش رکھے۔‘‘ ۲۸۔
حیدر قریشی کا یہ اعتراف کتنی بڑی سچائی ہے اور ہمارے بہت کم ادیبوں کو اتنے حوصلے اور اتنی فراخدلی کے ساتھ ایسا سچ بولنے کی ہمت ہوئی ہے۔ غور سے پڑھیئے۔
’’ تو صاحب! اندھیرا ہو یا اجالا۔۔۔۔۔ میں تنہائی سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ ایک عمر کے بعد معلوم ہوا کہ گیان کی روشنی اسی تنہائی سے نصیب ہوتی ہے۔ پر خوف اور گناہ کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ منزل نصیب ہوتی ہے۔ میں بھی گیان کی منزل کا راہی ہوں لیکن ابھی راستے میں ہوں اور شاید جان بُوجھ کر رستے میں ہوں کہ رستوں کا‘ سفر کا اور سفر کی چھوٹی چھوٹی منزلوں کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔‘‘ ۲۹۔
اس مضمون کا ختتام حیدر قریشی کی یادوں کے ابھی تک کے آخری باب ’’زندگی در زندگی‘‘ کے اختتامی حصہ کے ان الفاط پر کرتا ہوں کہ اس کے بعد مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
’’یہاں تک آتے آتے مجھے ایسا لگا ہے جیسے آج میرے اندر کے بادشاہ اور ملنگ میں لڑائی ہو گئی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا کہ بادشاہ جیت گیا ہے اور فقیر کو قبر میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن فقیر کی قبر بھی زندہ رہتی ہے اور سانس لیتی ہے۔ اب میں نہ خود سے مزید مکالمہ کر سکتا ہوں نہ اپنے قارئین سے مزید گفتگو کی گنجائش ہے، بس خدا سے ایک سوال ہے۔
خداوند! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپنی کہانی کا درویش بھی میں ہوں، سلطان بھی میں ہوں، اور خدا کا سادہ دل بندہ بھی میں ہی ہوں۔‘‘ ۳۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ نذر خلیق، ڈاکٹر، الماس (۱۲) شعبہ اردو، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور (سندھ) ص ۵۷۔
۲۔ حیدر قریشی، میری محبتیں، نایاب پبلی کیشنز، خانپور ضلع رحیم یار خان، ۱۹۹۶ء ص ۳۸۔
۳۔ نذر خلیق، ڈاکٹر ’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘ میاں محمد بخش پبلشرز، خانپور، ضلع رحیم یار خان، ۲۰۰۳ء، ص ۲۳۵۔
۴۔ حیدر قریشی، ’’عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۹ء، ص ۴۸۶۔
۵۔ میر محبتیں، ص ۱۱ تا ۱۳۔
۶۔ حیدر قریشی کی ادبی خدمات، ص ۲۱۵۔
۷۔ میری محبتیں، ص ۱۶، ۱۷۔
۸۔ ہانی السعید، سہ ماہی ’’ادب ساز‘‘ دہلی، شمارہ نمبر ۶، ۷، جنوری تا جون ۲۰۰۷ء، ص ۱۰۲۔
۹۔ میری محبتیں، ص ۲۰، ۲۱۔
۱۰۔ منشا یاد ’’عکاس‘‘ اسلام آباد، شمارہ نمبر ۱۴، اکتوبر ۲۰۰۵ء، ص۴۱۔
۱۱۔ عمرِ لاحاصل کا حاصل، ص ۴۸۵۔
۱