حیدر قریشی نے اپنے مختصر کتابچے “بیماری یا روحانی تجربہ” کا تعارف کچھ اس طرح کرایا ہے کہ اس کے مشمو لات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو گیا ہےساتھ ہی قاری کو اس کے مطا لعے میں شریک کرتے ہوئے اس کے ذہن کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ اس سے اپنی مرضی اور پسند کے مطابق مفاہیم کا استخراج کرے
وہ کمال سادگی سے اپنے پہلے فقرے ہی میں اہم نکات سمیٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ مذکورہ نکات میں درج کئے دیتا ہوں
۱۔انہیں کچھ پیش آیا ۲۔ انہوں نے کو ئی روحا نی تجربہ کیا ہے
۳۔انہوں نے دونوں کو جہاں تک بیان کرنا ممکن تھا۔بیان کردیا ہے ۔
اپنے دوسرے فقرے میں وہ جو کچھ پیش آیا اور جو روحانی تجربہ انہوں نے کیا ہے، اس کو عام سا کشف نہیں بلکہ ایک نادر کشف خیال کر تے ہیں
یہ کشف انہیں اس خیال سے نادر معلوم ہو تا ہے کہ اس کشف میں ان کو ان کا جسم بھی شریک محسوس ہو تا ہے
اپنے اس تجربے ، پیش آنے والے واقعے کو کشف ، نادر کشف کا درجہ دینے کے بعد۔ حیدر قریشی اس کو اپنے دادا جی اور ابا جی کے تجربات سے جوڑ تےہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا تجربہ ان کےلئےایک روحانی تجربہ تھا اور انہوں نے اپنے تجربے میں اپنےپڑھنے والوں کو شریک کیا ہے
حیدر قریشی نےقاری کو اختیار دیا ہے کہ وہ اس واقعے یا تجربے کو روحانی تجربہ قرار دے یا بیما ریو ں کا اثر یا
دواؤں کا ری ایکشن سمجھیں۔
حیدر قریشی نے اس سے آ گے اپنی کتاب” کھٹی میٹھی یا دیں “ سے ایک اقتباس شا مل کیا ہے اس کا لب لباب یہ مند ر جہ ذیل فقرہ ہے ۔
“ میرا شروع سے یہی خیال رہا ہے، سائنس خدا کی نفی کرتے ہو ئے اسی کی طرف جا رہی ہے ، مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقت عظمی کی طرف سفر کرتا ہے ۔۔۔”
مندرجہ بالا اقتباس شاملُ کر کے حیدر قریشی نے اپنے زیرتذ کرہ واقعے یا روحا نی تجر بے کو اپنی فکری زندگی کے ماضی سے ہم رشتہ کر دیا ہےاور خوب کیا ہے۔۔۔
اسی طرح انہو ں نے اس سے آگے اپنے خا کو ں“ بر گد کا پیڑ “ اور “ ڈا چی وا لیا موڑ مہاروے” سے موزون اقتباسا ت شامل کر کے اپنی کتاب کی تفہیم میں آ سا نیا ں فراہم کردی ہیں۔ یہ خا کے 1986اور1990کے دوران لکھے گئے ہیں
حیدر قریشی نے اصرار کے ساتھ یہ لکھا ہے “ میرا تجربہ خواب نہیں جیتے جاگتے پورے ہوش و حواس کے ساتھ تھا۔۔۔۔۔ میں ایک ہی وقت میں اپنے سارے بچوں کے ساتھ بات بھی کر رہا تھا اور دوسری دنیا میں بھی مو جودتھا بچے میری کیفیت کو میرا آخری وقت شمار کر رہے تھے ۔ میں بھی پہلے یہی سمجھا تھا لیکن دوسری دنیا میں پھر جو کچھ ہوا وہ چار دنو ں پر پھیلا ہوا ایک انوکھا روحانی تجربہ بن گیا۔
حیدر قریشی نے فرحت نواز کے خواب کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے اور اس کو خواب ہی بتا یا گیا ہے۔ اس خواب کے شمول سے قاری کو روحا نی وقوعے ، تجربےاور خواب کے تقابلی موازنے کی سہو لت دستیاب ہو گئی ہے ۔ اس خواب کے شامل کر نے سے کتاب میں اسرار سے معمور سہی لیکن قدرےخوش آئیند عنصر آمیز ہو گیا ہےاور کتاب ادب عالیہ کے دو اہم بو طبقا ئی
لو از مات “ انسٹرکشن “ اور “ انٹر ٹین مینٹ “ کی حامل ہو گئی ہے ۔
کسی واقعے کا وقوع ہو نا یا پیش آنا غیر اختیاری ہے ،ہو جا تا ہے ، لیا نہیں جاتا ۔حیدر قریشی نے ابلا غ کے معاملے میں ایک کار نمایاں انجام دیا ہے۔ یہ کو ئی معمولی تحریر نہیں ہے
یہ ایک اسے زائد قرا ت کا مطالبہ کرتی ہے۔آئیے ایک بار پڑھتے ہیں