(Last Updated On: )
سال ۲۰۲۱ء میں حیدر قریشی کی ادبی عمر کے پچاس سال پورے ہو چکے ہیں۔اس مناسبت سے انڈو پاک کے بعض اخبارات اور سوشل میڈیا کے بعض فورمز نے اورایک ادبی رسالے نے اپنے اپنے طریقے سے حیدرقریشی کی ادبی گولڈن جوبلی منائی ہے۔ پنجندڈاٹ کام کے وقاص سعید نے بھی پنجند پر کچھ شائع کرنے کی خواہش کی ہے۔اب کہ سال ۲۰۲۱ء اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے، میںحیدرقریشی کے فن کی مختلف جہات پر معاصرین اور سینئرز کے مختصر مختصر تاثرات کا ایک انتخاب پیش کر رہا ہوں۔میں نے حیدرقریشی کی ادبی جہات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا۔اب گولڈن جوبلی کی مناسبت سے یہ مختصر سا انتخاب ترتیب دینا میرے لئے اعزاز کا باعث ہے۔(پروفیسر عبدالرب استاد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری کے حوالے سے تاثرات
میرزا ادیب(لاہور)
٭٭حیدر قریشی مجھ سے دُور بھی ہیں اور قریب بھی ۔ دُور زمینی فاصلے کے لحاظ سے ، اور قریب اس محبت اور خلوص کی بنا پر جو وہ میری ذات کے لئے روار کھتے ہیں،مگر کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب وہ میرے بہت ہی قریب آجاتے ہیں ، یہ وہ لمحے ہو تے ہیں جب میں اُ ن کی کسی تڑپا دینے والے والی تخلیق کا مطالعہ کرتا ہوں ، یہ تخلیق بالعموم شعری صورت میں ہو تی ہے۔ حیدر قریشی نے اپنی ذہانت کا ثبوت کئی صورتوں میں دیا ہے ، وہ ایک شاعر بھی ہیں ، افسانہ نگار بھی ، اور ان کے علاوہ ایک مدیر بھی۔ مجھے ان کی ساری صلاحیتوں نے متاثر کیا ہے ، مگر میں جب معروضی انداز میں ان کا تجزیہ کر تا ہوں تو کہہ سکتا ہوںکہ میری نظروں میں ان کی غزل ان کے تخلیقی جو ہر کی خصو صی مظہر ہے ۔ ان کے بعض غزلیہ شعروں نے مجھے حزن و ملا ل کی کیفیت سے بھی دو چار کیا ہے مگر ایسی کیفیت کے اندر بھی اپنا ایک سر ور ہو تا ہے۔ یہ سروردر سر ور قسم کی کیفیت سے عبارت ہے۔ اس کی وضاحت نہیں ہو سکتی ۔ میں نے حیدر کے جب یہ شعر پڑھے تھے تو میری آنکھیں بے اختیار نم ناک ہو گئی تھیں:
یہ ساری روشنی حیدرؔ ہے ماں کے چہرے کی
کہا ں ہے شمس و قمر میں جو نور خاک میں ہے
عشق اور نوکری مل کر دونوں چوس گئے ہیں تجھ کو
تُو تو بس اب ایسے ہے جیسے گنے کا پھوگ
دوسرے شعر پر شاید کچھ اہل ذوق ناک بھول چڑھائیں ، لیکن میں سمجھتا ہو ں حیدر نے نچلے اور متوسط طبقے کی زندگی کے ایک عمومی پہلو کا اظہا ر دل میں اُ تر جانے والے انداز سے کر دیا ہے۔ گنے کا پھوگ ایک ایسی مثال ہے جو میں نے پہلی بار ایک شعر میں دیکھی ہے ۔ حیدر کے اور بھی کچھ اشعار ایسے ہیں جن کے متعلق میں پورے و ثو ق سے کہہ سکتا ہوں کہ انھیں گنگنا نے کو بے اختیار جی چاہا اور اکثر گنگنا تا رہا:
منزلوں نے تو مجھے ڈھونڈ لیا تھا حیدرؔ
پھر مرا شوق سفر مجھ کو چرا لایا تھا
خوشی حد سے زیادہ دے کے بھی بر باد کرتا ہے
انوکھے ہی ستم وہ صاحب ایجا د کرتا ہے
اور یہ شعر تو قیا مت کا شعر ہے:
غم تمہا را نہیں جا نا ں ہمیں دُکھ اپنا ہے
تم بچھڑتے ہو تو ہم خود سے بچھڑ جا تے ہیں
آ ج حیدر قریشی اپنا پہلا شعری مجموعہ دنیا ئے ادب کو دے رہے ہیں ، میں اُن کے اس مجموعے کا خیر مقدم کرنے والوں میں بصد مسرت شامل ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وزیر آغا(لاہور)
’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘
’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ ایک انوکھی کتاب ہے جسے ممتاز ہمہ جہت ادیب حیدر قریشی نے یادوں،غزلوں،نظموں،ماہیوں، کہانیوں،انشائیوںِخاکوں اور سفر ناموں کی صورت میں رقم کیا ہے اور پھر ان جملہ جہات کو باہم مربوط کرکے ایک ایسی خود نوشت سوانح عمری میں ڈھال دیا ہے جواپنی انفرادیت،گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے ایک‘‘چیزے دیگر‘‘ میں منقلب ہو کر سامنے آگئی ہے۔شاعری، احساس، متخیلہ اور خیال کے سفر کی داستان ہے اور انشائیہ تخلیقی سطح کی فکری یافت کا بیانیہ ہے۔جبکہ کہانی زماں کے مختلف ابعاد کی تصویر کشی کرتے ہوئے باطن اور خارج کے منطقوں کو باہم آمیزکرنے پر قادر ہوتی ہے۔خاکوں اور یادوں کے ذریعے انسان دوسروں سے اپنے تعلقِ خاطر کو منظرِ عام پر لاتا ہے اور سفر ناموں میں زندگی کے رواں مناظر کو شخصی زاویۂ نگاہ سے گرفت میں لیتا ہے۔غور کیجئے کہ یہ سب خود نوشت سوانح عمری کی قاشیں ہیں جنہیں اگر بکھری حالت میں رہنے دیا جائے تو مختلف اصنافِ ادب کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں لیکن اگر انہیں سلک میں پرو دیا جائے توایک ایسی خود نوشت سوانح عمری بن جاتی ہیں جوہر اعتبار سے منفرد اور دلکش ہوتی ہے۔یہی کام حیدر قریشی نے انجام دیا ہے اور ایک ایسی کتاب لکھ دی ہے جسے اگر ایک زاویے سے دیکھیں تو یہ مختلف اصناف میں منقسم نظر آئے جب کہ دوسرے زاویے سے دیکھیں تویہ ایک خیال انگیز،معنویت سے لبریزتصنیف کی صورت میں سامنے آجائے۔حیدر قریشی نے اپنی اس زندہ رہنے والی کتاب کو’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘کہا ہے۔غور کیجئے کہ اس عنوان میں لاحاصل سے حاصل تک کا سفر ایک ایسی اوڈیسی ہے جو کم کم دیکھنے میں آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجروح سلطانپوری(بمبئی)
٭٭آپ کی کتاب (سلگتے خواب)پر لکھے ہوئے آراء سے مجھے پورے طور پر اتفاق ہے۔ آپ کی شاعری میں تازگی لانے کی سعیء جمیل کا پتہ چلتا ہے۔روایت میں درایت کا رویہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
حیدر قریشی تو آرائشی نقش ونگار پیدا کئے بغیر شعر کا داخلی اور خارجی حسن ابھارتا ہے۔ شاید اس کی سادگی ہی اس کا حسن ہے۔شاید اس کی خود روئیدگی ہی اس کا وقار ہے ۔ چنانچہ دیکھئے کہ اس کی پر اعتماد آواز قاری کا تعاقب کرتی ہے اور اسے دعوت دیتی ہے کہ وہ مڑکر دیکھے اور اس آواز پر لپک کر پتھر ہو جا ئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر(لاہور)
حیدر قریشی کے ہاں ناموجود کو مس کرنے کی لگن ایک زندہ ارضی تجربے کی کوکھ سے پھوٹی ہے، اس لیے اس میں توازن اور اعتدال کی ایک دلاآویز کیفیت ہے۔ جدیدیت کے رسیا اکثر شعرا کے ہاں “نامعلوم کے اسرار”کے نام سے بے معنی ابہام اور بے کنا ر تجریدیت پائی جاتی ہے۔ قاری اس کا سامنا کر کے خوف ناک اجنبیت محسوس کرتا ہے اور بدکتا ہے ۔ حیدر قریشی کے لیے شعری تجربہ اہم ہے ۔ لہذا اس کے ہا ں نا موجود کے اسراریا مضامین نو ایک بالکل قدرتی اور متوازن انداز میں بتدریج ابھرتے چلے آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ منصور(سرگودھا)
٭٭پوری کتاب(سلگتے خواب)مجھے اتنی اچھی لگی کہ میں نے اسے بار بار پڑھا اور ہربار ایک نیا پن محسوس کیا۔آپ کا ہر شعر قاری کو اپنی طرف اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ نہ صرف وہ اسے پڑھتا ہے بلکہ دل میں اتار لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظہر امام(دہلی)
معاصر شاعری میں تازہ کاری اور تازہ دمی کی ایک نمایاں مثال حیدر قریشی اور ان کا کلا م ہے ۔۔۔ غزل گوئی سے تو ان کی بنیادی دلچسپی ہے ہی(ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ” سلگتے خواب” شائع ہو چکا ہے) لیکن انہوں نے نظمیں بھی بہت اچھی کہی ہیں اور بعض نظموں کو پڑھ کر میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہواکہ وہ غزل کے زیادہ اچھے شاعر ہیں یا نظم کے ۔۔ ادھر انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں ماہیے لکھے ہیں اور ما ہیے کی صنف کی عروضی حیثیت پر مبا حث میں اس طرح حصہ لیا ہے کہ اب ان کی شنا خت ماہیے کے بغیر نا مکمل ہے اور ماہیے کی شنا خت ان کے بغیر۔
حیدر قریشی کے کلا م سے ایک نرم دل جذباتی شخصیت ابھرتی ہے جس کے اندر محبت میں سب کچھ لٹانے اور بہت کچھ پانے کا جذبہ موجزن ہے۔۔۔۔۔حیدر قریشی کی شخصیت محبت کے جذبے کو کسی ایک فرد تک محدود نہیں رکھتی خواہ وہ محبوبہ ہی کیوں نہ ہو! وہ محبت کی ہمہ گیری کے قائل ہیں ، جو ماں ، بیوی ، بہن ، بھائی بلکہ ساری انسانیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ محبت کی یہی وسعت ان کی شخصیت کو توانائی عطا کرتی ہے اور کسی مخصوص مسلک یا عقیدے کے حصار میں مقید ہونے نہیں دیتی۔۔۔۔۔حیدر قریشی انسانوں سے ہی نہیں ، بلکہ فطرت سے بھی اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید ضمیر جعفری(اسلام آباد)
حیدر قریشی اردو غزل کے نئے افق پرایک سپوتنک کی طرح بلند ہونے والے ہمارے چند نوجوان شعراء میں شامل ہے۔حیدر کا شعر درد مندبھی ہوتا ہے اور خوش آہنگ و خوش رنگ بھی۔وہ اپنی تخلیقی فصل کے کسی خوشے،بالی،ٹانڈے کو دیمک نہیں لگنے دیتا۔اڑتا ہے تو زمین کو ساتھ لے کر اڑتا ہے۔ہماری جدید غزل میں ایسی اجلی اور پھر ایسی’’ مٹیالی ‘‘ شاعری کی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔میرے نزدیک حیدر قریشی شعراء کے اس عمدہ گروہ کے سر پنچوں میں سے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو جدید غزل کی وہ ساکھ نہ ہوتی ،جو ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ(ہائیڈل برگ)
حیدر قریشی کی شاعری میں بے ساختہ پن اور روانی ہے۔ایک بار پڑھنا شروع کیا تو جی چاہا پڑھتی ہی رہوں۔دوسرا اہم وصف بے باکی اور وارفتگی کا ہے جو حیدر قریشی کی شاعری میں نمایاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٓ اکبر حمیدی(اسلام آباد)
’’ماہیا‘‘ پنجابی شاعری کی مشہور مقبول صنف ہے ۔اردو میں حید ر قریشی نے اسے رائج کیا اور کچھ اس طرح رائج کیا کہ ماہیاماہیا کرتاوہ خود ماہیا بن گیا۔اس نے اس صنف کا پودا اردو کی سرزمین میںکچھ یوں کاشت کیا کہ اس کی آبیاری کے لئے لکھنے والوں کی ایک بڑی ٹیم جمع کرلی۔ماہیا کے لئے وضاحتی اور تعارفی مضامین بھی لکھے اور ماہیئے بھی ۔
(عمرِ لاحاصل کا حاصل پر لکھے گئے مضمون سے اقتباس)
حیدر قریشی کے اردو ماہیے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اس صنف کے مزاج کو پہچانا ہے‘ جانا ہے ۔ اپنے اندر اس صنف کو اتاراہے۔اس کے بعض ماہیے تو ایسے ہیں جن کی مثال اردو ماہیا تو کیا پنجابی ماہیا میں بھی مشکل ہی سے ملے گی۔انہیں پڑھ کر انسان اداس ہوجاتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
(محبت کے پھول پر مضمون سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبدالرب استاد(گلبرگہ یونیورسٹی)
حیدرقریشی کے ماہیوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے یہاں تشبیہیں انوکھی اور اصلیت پر مبنی ہیں۔مناسبات لفظی اور تلمیحات کا برمحل استعمال ہے۔ سادگی انتہاکی ہے۔ان میں جوش بھرا ہواہے جوپڑھنے والے کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کا ہنررکھتاہے ان کے علاوہ ہندی، انگریزی، جرمن اور پنجابی زبان کے الفاظ سبک روی سے مستعمل نظر آتے ہیں۔ اور کہیں کہیں سندھی اور سرائیکی الفاظ بھی راہ پاگئے ہیں۔ یہ قاری پرگراں نہیں گذرتے بلکہ قاری ان سے لطف اندوز ہوتاہے۔ یہ ایک عمدہ فنکار کی نشانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سعادت سعید(لاہور)
حیدر قریشی کے ماہیے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں ایک طرف اپنے ارد گردکی زندگی کو ایک مفکر کی آنکھ سے دیکھا ہے وہاں دوسری طرف انسان کی عمومی خوشیوں ، یادوں ، سوگواریوں ،غموں،آ ٓسوں، امیدوں، حسن پرستیوں، شباب د وستیوں ،آنسوئوں، قہقہوں، ستم ظریفیوں، بیوقوفیوں ،تنہائیوں،حضوریوں،مہجوریوں اوردوریوں کا پرتاثیر انداز سے جائزہ لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شگفتہ الطاف(بھاول پور)
حیدر قریشی کی تخلیقی صلاحیتوں میں سے جو فیض اور جو حسن اردو ماہیے کو نصیب ہو رہا ہے اس کی اڑان ترقی کی انتہا سے کچھ دور نہیں ۔ حیدر قریشی کی ماہیا نگاری اور ’’اردو ماہیے‘‘ سے بے پناہ وابستگی اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ’’ اردو ماہیے ‘‘کا مستقبل خوش آئیند اور تابناک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل عظیم(امریکہ)
ماہیے کو زندہ رکھنا تو خیر ایک ’’فرضِ منصبی‘‘ جیسی اصطلاح معلوم ہوتی ہے اور ایک تخلیق کارکا خون جب لفظوں کی رگوں میں دوڑ کر انہیں ماہیا ٗ غزل ٗ نظم ٗ افسانہ یا کسی اور صورت میں زندگی دے یا یوں کہیے کہ اس کے چہرے پراپنے رنگ بکھرا جائے تو صنف کی حفاظت پر بات کر کر کے ہم دراصل تخلیق اور تخلیق کار دونوں کی روحوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ماہیے کو ’’پروان چڑھانے ‘‘ کے حوالے سے حیدر قریشی صاحب کا ذکر بارہا ہوا ہے اور ہوتا رہے گا مگر اہم بات ان کا کلام ہے جو اس صنف میں بھی اتنا ہی توانا اور تازہ ہے جتنا غزل اور نظم میں ٗ ورنہ غور کیجئے تو لوگ صنف سے جڑ کر تخلیق کی خوبصورتی اور گہرائی کے بجائے سطحی عوامل ٗ مثلاً ہندی /فارسی لغت یا لہجے میں پھنس کر رہ جاتے ہیںاور تخلیق کے بجائے صنف کی خدمت کے حوالے سے پہچانے جانے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ایک مستند ٗ نابغۂ روزگار ادیب کی یہی سب سے بڑی پہچان ہے کہ وہ ان ’’تجاوزات‘‘کے پیچھے چھپ نہیں جاتااور حیدر قریشی صاحب کی زبردست تخلیقی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وحید قریشی(لاہور)
میں آپ کی شاعری کا مداح بلکہ دلدادہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالی داس گپتا رضا(بمبئی)
حیدر صا حب کے یہا ں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں جو روایت اور نئے پن کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اس قسم کے اشعار کہنا آسا ن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شفیق احمد(بھاول پور)
اُردو شاعری کے بہت سے شعراء کے شعروں سے اُن کی زندگی کے اہم واقعات کا سراغ مل سکتا ہے لیکن میری دانست میں حیدر قریشی اردو کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنے بارے میں اپنی شاعری ہی میں بہت کچھ بتادیا ہے اتنا کچھ کہ اگر کوشش کی جائے تو اُن کی ایک مکمل سوانح عمری مرتب کی جاسکتی ہے۔ ۔۔۔ حیدر قریشی کی شاعری درحقیقت ان کی زندگی کا ایسا آئینہ ہے جس میں ان کی زندگی کے تقریباً سبھی اُتار چڑھائو اور دُکھ درد دیکھے جاسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادیب سہیل(کراچی)
حیدر قریشی کی شاعری محض نظارے کی شاعری نہیں،شمول کی شاعری ہے۔یہ شمولیت غمِ جاناں کی بھی ہو سکتی ہے اور غمِ دوراں کی بھی۔غمِ جاناں کا تعلق محبت سے ہے اور غمِ دوراں کا تعلق مشقت سے۔ کتاب کا نام’’سلگتے خواب‘‘اور اس کے اندر کا مواد دونوں طرح کی شمولیت کا اعلان کرتا ہے۔اس تیور اور زندہ لہجے کے شاعر کی خو محض تماشہ بین نہیں ہو سکتی۔عصری آگہی کی اصطلاح صحیح معنوں میں اس طرح کی شاعری پر صادق آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار فیروز(راولپنڈی)
حیدر قریشی نے بڑی محنت ،خلوص اور لگن کے ساتھ اپنا شعری سفر جاری رکھا اور ایک نئی جہت اختیار کی۔ان کے وژن میں وسعت پیدا ہوئی۔۔۔۔مجھے خوشی ہے کہ حیدر قریشی کا شعری سفر رفتار کی منزلیں طے کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرغلام شبیر رانا(جھنگ)
میں ایک طویل عرصے سے آپ کی بے پناہ شعری صلاحیتوں کا معترف اور لائق صد رشک علمی فضیلت اور ادبی مقام کا معتقد ہوں۔آپ کی محبت سے میرا دامن معطر ہے۔اردو ماہیے کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں آپ نے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کا اعجاز ہے کہ اس صنف کی جانب بہت سے ذہین لکھنے والے متوجہ ہو گئے ہیں۔۔۔مجھے آپ کے خیالات سے مکمل اتفاق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزالہ طلعت(خان پور)
٭٭حیدر قریشی کی غزل میں اس کے دکھ اور اس کی خوشیوں کا انداز ایسا ہے کہ یہ سب اپنا اپنا سا لگتا ہے۔قاری کے دل میں اس طرح گھر کر لینا حیدر قریشی کی غزل کی کامیابی کا ثبوت ہے۔۔۔حیدر قریشی کی شاعری غزل،نظم اور ماہیا تینوں میں اپنا جادو جگاتی ہے۔اس کی شاعری پڑھتے ہوئے بعض اوقات ایسی کیفیت ہوجاتی جو غالب کے کہنے کے مطابق ؎ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے، اور جب یہ کیفیت نہیں ہوتی تب اس کی شاعری ویسے ہی سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ان دو کے سوا کوئی تیسری کیفیت یا حالت حیدر قریشی کی شاعری میں نہیں ہے۔گویا قاری کے لیے کو ئی جائے فرار نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت نسیم ہاشمی(اسلام آباد)
٭٭میرے نزدیک حیدر ایسے شاعر ہیں جو ہر جذبے،ہر درد،ہر غم ،ہر کرب ،ہر رشتے میں دھڑکتے دل کی ہر کیفیت کو بہت گہرائی کے ساتھ محسوس کرتے ہیںاور پھر اسے لفظوں میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔حیدر کی شاعری بظاہر کاغذ پر لکھی گئی ہے مگر یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے پڑھنے والوں کی قلبی سر زمین پر لفظوں اور حرفوں کی ایک بڑی فصل اُگا رہے ہیں،جس میں کھلنے والے مہکتے پھول پڑھنے والوں کے کئی لمحوں کو مہکا دیتے ہیںاور امید کے ایسے در وا کرتے ہیں کہ پڑھنے والا دیر تک اس سحر سے آزاد نہیں ہو تا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود منور(ناروے)
٭٭آپ کی ساری غزلیں پڑھ لی ہیں۔ابھی تک نشے میں ہوں۔زندہ باد!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر لڈمیلاوسیلئیوا(ماسکو)
مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پرحیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے آپ 24 گھنٹوں کو48 گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں؟ ۔اگلی ملاقات ہو گی(انشاء اﷲ) تو آپ سے یہ منترسیکھنے کی کوشش کروں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)
میں انہیں(حیدر قریشی کو)مغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوںاور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں ۔حیدر ،ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔۔۔۔ ۔میرے برخوردار ہیں۔مجھ سے عمر میں دس برس کم،لیکن کام وصلاحیت میں سو سال بڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر علی احمد فاطمی(الہٰ آباد)
اس منزل پر پہنچتے پہنچتے فکر کی بلندی،خیال کی نزاکت،غزل کے اسرار و رموز حیدر قریشی کی غزل گوئی کے وہ امتیازی اوصاف بن جاتے ہیں جہاں حقیقت اور رومانیت ،کلاسیکیت اور جدیدیت ،مقامیت اور عالمیت اور ان سب پر غالب ایک مخصوص شاعرانہ کیفیت نے ان غزلوں کو لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ عہدِ حاضر کا ایک رزمیہ بنا دیا ہے جس کا پُر شوق مطالعہ ایک نئی جمالیاتی دنیا میں لے جاتا ہے۔جہاں زمان و مکاں ماضی و حال باہم مدغم ہو کر غزلیہ شاعری کی ایک ایسی لَے اور ایک ایسا آہنگ بن جاتے ہیں جہاں شاعری صرف ادب ہی نہیں بلکہ فکر و فلسفہ،تاریخ و تہذیب کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔بعض اشعار تو ایسے ہیں جن کی معنویت و مقصدیت کا دائرہ پھیل کر قوسِ قزح کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ایک آفاقی معنویت کا علمبردار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبدالرب استاد(گلبرگہ)
حیدرقریشی ایک ہمہ جہت فنکار ہیں، وہ غزل گو بھی ہیں اور نظم گو بھی، اس طرح ماہیا بڑی چابکدستی سے کہہ دیتے ہیں۔ حمدیہ ماہیوں میں بھی ان کی فنکاری جھلکتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ آج کے معاشرے پر بھی ان کی نظرہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معید رشیدی(دہلی)
حیدرؔ قریشی نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔زیست کے فلسفوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے حیات وہ ممات کے مباحث میں الجھ کر موت کو سینے سے لگایا ہے انہوں نے زندگی کو عذاب اور موت کو شباب کی نظر سے دیکھاہے ۔ان کا ایقان ہے کہ موت کا خلوص زندگی کے فریب پر بھاری پڑ جاتا ہے ۔موت سے قبل زندگی کے قرض کی ادائیگی کا خیال ہمیں چونکاتا ہے اور ہر لمحہ دعوتِ فکر دیتا ہے ۔۔۔۔وہ آلام و مصائب سے گھبراتے نہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرتے ہیں ۔وہ غموں سے فرار حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کرجینے کا راستہ نکالتے ہیں۔۔۔۔۔۔حیدرؔقریشی جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں ۔وہ جدید خیالات، جدید حسّیات،جدید تشبیہات و استعارات، جدید لفظیات اور جدید تراکیب تراشتے ہیں ۔وہ خیال اور مضامین دونوں کی جدّتوں کو بروئے کار لاتے ہیں ۔ان کی شاعری میں مشینوں کی گڑ گڑاہٹ کا بیان نہیں ملتا لیکن مشینوں کی حکومت نے انسانی احساسات پر جو قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے اس سے بیزاری کے نقوش ضرور مل جاتے ہیں۔ ان کے شعروں میں تنہائیوں کا کرب،ہجرت کی تکالیف،سینوں کے داغ،اور دلوں کے زخم کی صدائیں گونجتی ہیں۔وہ گلو بلائز یشن کے حصار میں گھری زندگی اور اس کے مسائل کا عکس پیش کرتے ہیں ۔دنیا تیزی سے ایک عالمی گائوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔رشتوں کی جڑیں کھو کھلی ہوتی جارہی ہیں۔پیار،محبت اور ایثار و خلوص کی عمارت ٹوٹتی جا رہی ہے ۔جدید ترین قمقموں کی فراوانی کے باوجوداندھیروں کی سلطنت بڑھتی جارہی ہے۔دوریاں سمٹتی جارہی ہیںمگر دلوں کے درمیان فاصلے وسیع ہوتے جارہے ہیں ۔ تنہائیاں ہر طرف اپنا جال بن رہی ہیں۔ایسی حالت میں شاعر کے دل کا اداس ہونا عین فطری ہے ۔ وہ گہری سوچ میں ہے۔کسی مسئلے کی طرف وہ مسلسل سوچ رہا ہے لیکن خیالات کے نہ ختم ہونے والے سمندر میں اس کی ذات مزید ڈوبتی جارہی ہے اور وہ اپنے وجود سے بے خبر اپنی ہی تلاش میں سرگرداں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر جمیلہ عرشی(جے پور،راجستھان)
جرمنی میں مقیم حیدرقریشی ویسے تو اردو کی معروف شخصیت ہیں اور نثرو نظم کے میدان میں اپنی اہمیت و عظمت ثابت کرا چکے ہیں۔ انہوں نے مختلف اصنافِ ادب کو اپنے اظہار کاوسیلہ بنایا ہے۔شاعری میں بھی حیدر صاحب کی شخصیت مثلث کی حیثیت رکھتی ہے اور غزل ، ماہیا ، نظم کے زاویوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ مثلث ایسا ہے کہ جو نہ صرف ان کی شاعرانہ قدرتِ کلام کو ظاہر کرتا ہے بلکہ متنوع شخصیت کے پہلو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ اُن کی غزلیں پڑھ کر بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے،۔۔ ماہیا نگاری میں وہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اور نظم گوئی میں بھی وہ بہر صورت کامیاب ہیں ۔ کس کو کس پر ترجیح دی جائے؟ اگر قاری کے سامنے یہ سوال کھڑا کیا جائے تو وہ پس و پیش میں پڑ جائے گا کیونکہ مثلث کے تینوں زاویے اُسے دلکش دکھائی دیں گے اور ہر زاویہء نظر سے حیدرقریشی کی تصویر عظمت کا پیکر بن کر اُبھرے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین(بھاول پور)
حیدر قریشی بنیادی طور پر غزل گو شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی غزلوں میں مشرقیت سانس لیتی محسوس ہوتی ہے ۔ حیدر قریشی رموزِ شاعری سے واقف ہیں ۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ کہا وہ ان کے ذوق اور سلیقے کی بہترین ترجمانی کرتا ہے ۔ حیدر قریشی کی شاعری روایتی اور جدید دونوں موضوعات کا حسین امتزاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی نے اپنی شاعری میں عشق کو محض تذکرے کے طور پر نہیں اپنایا بلکہ انہوں نے عشق کو اس کی تمام تر حرارتوں اور جذباتی محرکات کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان کا محبوب روایتی غزل کا خیالی ہیولہ نہیں بلکہ یہ ان کی دنیا کا باسی ہے جو ان کے ارد گرد اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ موجود ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ حیدر قریشی کی غزل میں علم بیان کے ساتھ ساتھ علم بدیع کی خوبصورتی بھی ہے ۔۔۔۔۔حیدر قریشی کی نظموں کے رنگا رنگ موضوعات اپنی مکمل قوت اور توانائی کیساتھ تہذیبوں کے اتار چڑھاؤ اور کائنات کی تخلیق کے روپ سروپ لیے قاری کے حواس پر اثر انداز ہوتے محسوس ہوتے ہیں ۔ جو اپنے دور کے لوگوں کو محبت و امن کی نوید اور پرانی رنجشوں کوبھلا دینے کا درس دیتے ہیں ۔ ان کی نظموں میں لفظوں کی پیچ در پیچ زنجیروں میں زندگی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت نواز(رحیم یار خاں)
اگر مغربی ممالک میں قیام پذیر اردو کے سارے شاعروں،ادیبوں کا جائزہ لیا جائے تو اپنے اپنے اصنافی دائرے میں سب اچھا کام کر رہے ہیں۔کوئی شاعر ہے،تو کوئی افسانہ نگار۔۔کوئی نقاد اور محقق ہے تو کوئی خاکہ نگار۔۔۔کوئی انشائیہ نگار ہے تو کوئی سفر نامہ نگار۔۔۔کوئی سوانح نگار ہے تو کوئی یاد نگار۔۔۔بعض ادباء نے ایک سے زیادہ اصناف میں بھی کام کیا ہے لیکن حیدر قریشی نے جتنا کثیرالجہت کام کیا ہے اور اس میں جس طرح اپنا عمومی معیار بھی برقرار رکھا ہے اس کے باعث مغربی ممالک کے شاعروں اور ادیبوں میں تو حیدر قریشی کا بالکل الگ ایک مقام بن چکا ہے جس میں وہاں کوئی بھی ان کا مد مقابل دکھائی نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد سہیل(امریکہ)
حیدر قریشی) کی تحریروں میں کشمکشِ زیست غالب عنصر ہے۔مگر ان کی شاعری میں تہذیبی جلا وطنی اور سیاسی متعلقات بھی ہیں۔ان کے شعری اسلوب میں سرائیکی لسانیات کااردو میں نفوذ بھی نظر آتا ہے۔شعری صنف ’’ماہیا ‘‘پر ان کا کام بڑے معرکے کا ہے۔وہ خواب گر بھی ہیں اور خواب شکن بھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانے کے حوالے سے تاثرات
ڈاکٹر وزیر آغا(لاہور)
پتھر ہوتے وجود کا دکھ”بہت عمدہ افسانہ ہے۔ اگر آپ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھتے رہے تو بہت جلد صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے لگیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوگندر پال(دہلی)
افسانہ نگار کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے کردار زندگی کر کر کے اپنی کہانیاں بناتے ہوئے محسوس ہوں اور ان کہانیوں کے تناظر میں اگر پانی میں آگ لگنا یا انسانی وجود کا پتھرا جانا ہی تخلیقی طور پر صحیح ہوتو ایسے سانحات کو انہونا قرار دے کر ان سے ہاتھ نہ کھینچ لیا جائے۔ ایسا کرنا افسانوی واقعیت کو مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔حیدر قریشی کے یہاں ایمان کا کراماتی عمل کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ ایمان زندہ رہے تو معجزوں کا رونما ہوتے چلے جانا بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتا ۔ حیدر قریشی کے ایمان کی توانائی اسے انہدام کی ہیبت سے محفوظ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے انہدام کے انہدام کا پورا یقین ہے اور اس قیامت کا نظارہ کرنے کے لئے وہ اپنی آنکھیں واکئے ہوئے ہے۔ ہرچہ بادا باد!۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی اسی وسیع تر زندگی کی دریافت کے لئے اپنی کہانیاں تخلیقتا ہے۔ اپنے اس کھلے کھلے راستے کو طے کر کے اسے دوریا نزدیک کسی شیشے کے محل میں اقامت نہیں اختیار کرنا ہے، بلکہ راستوں سے راستوں تک پہنچنا ہے اور ہر راستے پر تباہ حال زندگی کی باز آباد کاری کئے جانا ہے۔ وہ لکھ لکھ کر گویا کچھ بیان نہیں کر رہا ہوتا ، بلکہ اپنے لکھے ہوئے کو کر رہا ہوتا ہے اور اسے ایسا کرتے ہوئے پا کر بے لوث انسانی رشتوں پر باور کر لینا غیر مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر قمر رئیس(دہلی)
“کہانیاں علامتی ہیں لیکن معاصرجدید کہانیوں سے الگ اور انوکھی۔ یہاں تاریخ کنگناتی ہے۔ انسانی تہذیب سرگوشیاں کرتی ہے اور ان کی کوکھ سے آج کے جلتے ہوئے مسائل پھنکار مارتے نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پرکشش کہانیاں جو سوچنے پر اکساتی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
“حیدرقریشی بظاہر ادب کی کئی اضاف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کر رہے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ افسانے کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بانداز دگر کھولتی ہے۔ “روشنی کی بشارت”ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ نئے افسانہ نگار نہیں۔ ان کا شمار ساتویں دہے کے ان افسانہ نگاروں میں کرتا مناسب ہوگا جو تجریدیت سے معنی کا نیا مدار طلوع کرتے اور سوچ کو نئی کروٹ دیتے ہیں۔”روشنی کی بشارت” کے افسانوں میں حیدرقریشی کرنوں کے تعاقب میں سرگرداں نظر آتا ہے لیکن جب اسے سدھارتھ کا معصوم چہرہ نظر آجاتا ہے تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کل جگ میں زندہ رہنے کا جواز موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر حمید سہروردی(گلبرگہ)
حیدرقریشی کے افسانے پر یم چند اور یلدرم کے اسلوب و مزاج کی آمیزش اور آویزش سے اپنا ایک نیا افسانوں مزاج اور ڈکشن تیار کرتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم سب کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ان کی بصیرت تیز اور روشن ہے اور وہ افسانے کی میڈیم سے روزمرہ زندگی کے انگنت تجربوں کو کچھ اس طرح سے گرفت کرتے ہیں کہ زبان و قلب سے بے ساختہ حیرت اورا ستعجاب کے کلمات ادا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے رنگ و مزاج کو اپنے ہر افسانے میں افسانوی زبان کے تخلیقی و اکتسابی امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی خوبی نہ صرف ڈکشن میں ہے بلکہ موضوعات کے برتائو میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حیدرقریشی کو جدید تر افسانوی میدان میں کامیاب و کامران سمجھتا ہوں۔ ان کا یہی انداز توازن و تناسب کے ساتھ برتا جائے تو وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں گے اور وہ حضرات جو جدید اور جدید تر افسانے کے باب میں شاکی ہیں اطمینان حاصل کرلیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی(کراچی)
“حیدر قریشی الہامی قصص ، اساطیر ، ذاتی اور معاشرتی مسائل کو آپس میں مدغم کر کے ایک ایسا آئینہ تخلیق کرتے ہیں جس میں پیدائش سے موت تک زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ بیشتر کہانیوں میں میجر کردار خود کہانی کار کی ذات ہوتی ہے اور اس طرح حیدرقریشی فلسفیانہ ،مذہبی اور اخلاقی قدروں پر رائے بھی دیتے ہیں تو کسی غیر متعلق یا خارجی خیال آرائی کا احساس نہیں ہوتا اور سب کچھ کہانی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
حیدرقریشی کی کہانیاں زمینی زندگی کے معمولی واقعات سے شروع ہوتی ہیں جنہیں فلو بیر کے لفظوں میں SLICES OF LIFEکہا جا سکتا ہے مگر ان میں جلد ہی مذہبی، عقیدتی اور رحانی رنگ بکھرنے لگتا ہے اور ان کی اٹھان عمودی ہوجاتی ہے۔ پھر ان کہانیوں کی فضا زمین اور آسمان کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اکثر کہانیوں کا اسلوب داستانی معلوم ہوتا ہے لیکن لہجہ کا دھیما پن، علامتوں ، تمثیلوں اور تلازمے کا استعمال انہیں داستانی رنگ سے الگ بھی کرتا ہے۔کہیں کہیں مذہبی عقائد کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر جمالیاتی طور پر ان میں نہ کوئی خطابیت پیدا ہوتی ہے اور نہ کسی آئیڈیل یا انفرنل دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب ہوتی ہے۔ حیدر قریشی کی کہانیوں میں زبان اور حوالہ جات اس وقت، زمانے اور علاقے کی حدوں کا تاثر ضرور دیتے ہیں جب اور جہاں ان کی کہانیوں نے جنم لیا کیونکہ اس سے کسی تخلیق کار کو مفر نہیں، لیکن ان کہانیوں کا مجموعی سپکڑم زمان اور مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے کا قاری ان کہانیوں میں امکانی سچائی دیکھ سکتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکرم محمود(امریکہ)
آپ کے پانچ افسانے پڑھے ہیں۔کیا بات ہے۔بتا نہیں سکتا کہ کیسا لطف آیا۔بلا مبالغہ بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کسی کیفیت نے میرے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ افسانہ ختم ہونے پر بھی یہ گرفت ختم نہیں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعر نجمی(تھانے)
’’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے آپ کی کتاب ملی۔اس کتاب نے زخم پر مرہم کا کام کیا۔اب تک میں آپ کی شاعری کا قتیل رہا ہوں لیکن اس کلیات میں شامل آپ کی نثر نے مجھے مبہوت کر دیا ہے۔ خاص کر آپ کے افسانے تو بہت خوب ہیں۔پتہ نہیں کیوں ہمارے نقادوں کو اس پر گفتگو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی؟‘‘(اشعر نجمی کی ای میل بنام حیدر قریشی ۹ مارچ ۲۰۰۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان عالم(مانسہرہ)
روشنی کی بشارت پر رائے
واہ بھائی واہ۔۔مزہ آگیا۔کہاں سے بول رہے ہیں آپ۔۔۔بڑی مبارک کیفیت میں یہ افسانہ تخلیق ہوا ہے۔مزہ آگیا۔ جان عالم
میں انتظار کرتا ہوں پر رائے
واہ بھائی۔۔۔کیا خوب افسانہ ہے۔مجھے اس کی ان پیج کاپی بھیجیں۔۔۔۔اس پر بات کرنا آسان نہیں۔۔۔۔اس کے لیے عالمِ ارواح میں یومِ الست تک جانا ہوگااور پھر انسانیت کے المیوں سے گزرنا پڑے گا۔۔۔خیروشرکی ازلی داستان کا حصہ بننا پڑے گا۔۔۔۔فکر کو سوالوں کے صحرا میں ایڑیاں رگڑنی پڑیں گی۔آگ کاالاؤ۔۔۔بَن باس۔۔۔۔اور پھر اس تلخابے سے پھوٹنے والے چشمے تک کا سفرکرنا پڑے گا۔اور آخر کار جب سب ہاتھ میں آئے گا۔۔۔تو سب کو چھوڑ دینے کا اعلان کرکے سب کو محبت میں گرفتار کر لیا جائے گا۔یہ اتنا آسان نہیں۔اس پہ کہنا اتنا آسان نہیں۔اسی لیے اس پر کوئی بولا نہیں۔میں ابھی اسے پڑھ کر اس میں اتر گیا۔۔۔تھک گیا۔۔۔۔آپ نے تین چار صفحات میں زندگی بھر کا چکر لگوا دیا ۔۔ ۔۔واہ ۔۔۔جزاک اللہ۔۔۔۔جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ(برمنگھم سٹی۔یونیورسٹی)
Haider Qureshi’s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood, Birmingham City University
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر رشید امجد(اسلام آباد)
حیدر قریشی کو فکری طورپر میں ایک جدید ترقی پسند افسانہ نگار سمجھتا ہوں کیونکہ ان کے افسانے سماجی زندگی کے خمیر سے تیا رہوتے ہیں اور معاشرے کے دکھ اور مظلوم کی بے بسی ان میں موجود ہے اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے موضوعات ترقی پسند ہیںاور معاشرے کو بدلنے کا آدرش رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی کہانیوں کو سیدھے بیانیہ میں پیش نہیںکیا بلکہ تخلیقی تجربے سے گزر کر ان کے لیے اظہار کی ایسی زبان وضع کی ہے جس میں استعارہ اور علامت دونوں موجود ہیں بلکہ اکثر انہوں نے تصوف کی اصطلاحات اور اساطیری حوالوں سے بھی کام لیا ہے جو انہیں جدید بناتے ہیں۔حلقہ اربابِ ذوق نے موضوع کے ساتھ ساتھ فن پارے کی ادبی حیثیت کو بھی ضروری قرار دیا تھا۔ سات اور بعد کی ادبی نسلوں کی تربیت زیادہ تر حلقہ ہی میں ہوئی ہے۔ حیدر قریشی بھی فکری طور پر حلقہ ہی کے پروردہ ہیں اس لیے ان کے افسانوں میںموضوع کی وسعت کے ساتھ ساتھ فنی حوالے بھی موجود ہیں اور وہ فنی جمالیات کے پوری طرح قائل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی کے دونوں افسانوی مجموعے ان کے فنکارانہ سفر کے دو مرحلے ہیں ان میں ایک فنی اور فکری ارتقاء ہے جو ان کی اگلی منزل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے مجموعی سفر میں بھی یہ دونوں مجموعے اپنی اہمیت اور پہچان رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ جاوید(کینیڈا)
’عمر لا حاصل کا حاصل ‘میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے ۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ’بڑے افسانے‘ قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا ۔ ایسے تجربے سے جو سوچ ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیصر تمکین(انگلینڈ)
یورپ میں مقیم اردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی صاحب کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیاہے۔ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مساعی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہیں بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل ہی علاحدہ اور ناقابلِ انکار تشخص متعین ہوچکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین(بھاول پور)
حیدرقریشی جہاں شاعری میں اپنے فن کو مکمل طورپر منواچکے ہیں وہاں اُن کے افسانے بھی اُردو ادب میں اپنے منفرد اور جدت و ندرت سے بھرپورہونے کی بناء پر خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامران کاظمی(اسلام آباد)
۶۰ ء اور ۷۰ء کے عشرے میں جہاں دیگر افسانہ نگار خارجی حقائق سے دلبرداشتہ ہو کر باطنی تجربہ کو کہانی میں وقوعہ بنارہے تھے وہاں حیدرقریشی خارج سے کٹ کر گیان دھیان کے فلسفے کو عمل میں لا کرکہانی کی نئی جہت کی تلاش میں مگن تھا۔حیدرقریشی کا بنیادی فلسفہ ’ہمہ اوست‘ ہے ۔ وہ کائنات اور دیگر تمام مظاہر کو ایک بڑے نامیاتی کل کا جزو مانتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میں نے ’جزو‘ کہا ہے عموماََ وحدۃالوجود کی تعریف کرتے ہوئے بعض دانشور ’ایک بڑے کل کے حصے‘ خیال کرتے ہیں ۔ ’حصہ‘ ہونے سے وجود کی وحدانیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے ۔ جبکہ ’جزو‘ اس کل کا ایسا حصہ ہوتا ہے جو دوبارہ اپنی جگہ پر قائم ہوسکتا ہے۔
حیدر قریشی کا نظریہ حیات یہ ہے کہ کائنات ایک ’کل‘ کی حیثیت سے وجود رکھتی ہے گویا وہ تمام اشیاء میں وحدت کی کارفرمائی کو بنیادی عنصر خیال کرتے ہیں۔ وحدۃالوجود کا یہ تصور ہند سے فارس اور فارس سے اسلام کا حصہ بنا ہو یا صوفیا کے باطنی تجربہ کی اختراع ہو یہ امر طے شدہ ہے کہ اس نے حیات انسانی پر متنوع اثرات مرتب کیے ہیں۔حیدرقریشی کا نمایاں وصف مذہبی اساطیر کو کہانی کا حصہ بنا کر ان کے ذریعے سے سماجی مسائل کا اظہار ہے۔ ان کی کہانیوں کا داستانوی رنگ تقاضا کرتا ہے کہ موضوعاتی سطح پر ایک ایسا تلمیحاتی و استعاراتی نظام وضع کیا جائے جو انسان کے لیے نہ صرف یہ کہ تاریخی حیثیت کا حامل ہو بلکہ عصر حاضر میں اس کی اہم ضرورت بھی ہو۔ مذہب کسی معاشرت کا فعال حصہ ہوتا ہے ۔ گو کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ ثقافت مذہب کے بطن سے پھوٹتی ہے یا مذہب مقامی ثقافت میں ڈھل جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی بلا شبہ اپنے عہد کا نباض افسانہ نگار ہے۔ جو تلخ سماجی حقیقتوں کے گھونٹ پیتا ہے اور پھر اپنے قاری کو کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ان حقائق سے بھی آگاہ کردیتا ہے جن سے قاری بے خبر ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کا کہانی کہنے کا انداز تیکھا مگر دلنشیں ہے وہ قاری کو حیرتوں میں گم کردیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے نئی دنیاؤں کے راستے بھی سجھاتے ہیں۔ گویا ان کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور وہ سب سے پہلے انسانوں کے درمیان مذہب کی دیوار ،سماج کی دیوار اور طبقے کی دیوار گرا کر اسے اس بے گانگی سے نجات دلانا چاہتا ہے جس نے اس کی زندگی کی شہزادی کو سامری جادوگر کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ حیدر قریشی تمام انسانوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور بلاشبہ انسان دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود منور(ناروے)
آپ کی کہانیوں سے مجھے کوئی بیتی خوشبو آئی ہے۔ ٹھہریئے میں اگر جلالوں—-میں اگر جلا آیا ہوں اور خوشبو میں بھیگتے ہوئے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کا کہانی بننے کا ڈھنگ نویکلا لگا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیل الرحمن(انگلینڈ)
(روشن نقطہ)اپنی نوعیت کا بہت خوبصورت اور حیدر قریشی صاحب کی مخصوص چھاپ لگا افسانہ ہے۔میرے محدود علم کے مطابق اس رنگ میں ابھی تک حیدر صاحب سے اچھا افسانہ کسی نے نہیں لکھا۔تصوف اور روحانی واردات کا حسین امتزاج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکوں اور یادوں کے حوالے سے تاثرات
اشفاق احمد(لاہور)
ولایتی زبانوں میں ایسے سکیچ اپنے اپنے انداز میں بہت ملتے ہیں لیکن اردو میں ’’میری محبتیں‘‘اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوگندر پال(دہلی)
حیدر قریشی کا ذہن زرخیز ہے اور منہ کھٹی میٹھی باتوں سے لبریز۔حیدر قریشی چونکہ پورا منہ کھول کر جی جان سے بات کرتا ہے اس لئے اس کی تحریر برجستہ اور غیر مبہم ہوتی ہے اور قاری اس میں شامل ہو کر محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کے خاکے میں ممدوح اسی کی جان پہچان والوں میں سے ہے اور یوں وہ مطالعہ کو بے تامل اپنی مرضی اور خواہش سے گھٹاتے بڑھاتے گویا اس کے بارے میں پڑھ نہیں رہا ہوتا بلکہ اپنے معمول کے دوران اس سے عین مین مل کر اپنے نتائج اخذ کر رہا ہوتا ہے۔حیدر قریشی کی اس خوبی نے اس کے خاکوں کو واقعی بہت جاندار اور قابلِ مطالعہ بنا دیا ہے۔حیدر قریشی کی اس کتاب کے بیس خاکے دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔پہلے دس کے لئے تو وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی تاکا کیا ہے اور باقی دس کے لئے گھر سے باہر نکل آیا ہے۔اوّل خویش،بعد درویش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر والوں کے تو کلوز اپ تیار ہو گئے ہیں اور درویشوں کے پروفائل، اور ہر دو پر سے نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔ آج کے مشینی دور کی مصروفیت میں سچ مچ کی ملاقاتوں کی گنجائش خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے۔ان حالات میں یہ بھی غنیمت ہے کہ اوروں کے خاکے پڑھ پڑھ کر ہی ہماری ان سے ملنے کی چاہ پوری ہوتی رہے۔ یوں نہیں تو یونہی سہی،جیسے بھی انسان اپنے آپ کو ’’انسانیا‘‘ لے۔ مجھے یقین ہے کہ حیدر قریشی کی محبتوں کی یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر گیان چند جین(امریکہ)
’’میری محبتیں‘‘کے ابتدائی پانچ چھ مضامین میں نے پوری طرح پڑھے ‘بقیہ کو سرسری دیکھا۔دوسرے حصہ میں پہلے چار خاکے نیز آخری مضمون پرانے ادبی دوست پڑھا۔خوب لکھتے ہیں،آپ نے اپنے بزرگوں کے محیرالعقول واقعات لکھے ہیں‘ان سے میں متاثر ہوا۔ تمام مضامین بہت دلچسپ اور دلکش ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر انورسدید(لاہور)
حیدر قریشی نے اپنی والدہ،دادا،والد،بیوی،بہن اور بچوں کو انسانی زاویے سے دیکھا اور ان کی صرف انسانی خوبیوں کا تذکرہ کیا لیکن یہ تذکرہ اتنا دلچسپ ہے کہ یہ سب کردار حقیقی معاشرے کی غیر معمولی شخصیات نظر آتی ہیں۔’’برگد کا پیڑ‘‘ ’’اجلے دل والا‘‘ ’’زندگی کا تسلسل‘‘ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘بے حد معنی خیز خاکے ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ جن لوگوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر رہا ہے وہ حقیقی معنوں میں عظیم تھے۔ان کی عظمت اشتہاری نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشا یاد (اسلام آباد)
حیدر قریشی شاعر ،افسانہ نگار اور انشائیہ نگار بھی ہیں اوران کی یہ تینوں خصوصیات ان خاکوں میں جمع ہوگئی ہیں۔ ان میں جا بجا بہت سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت اور خیال انگیز افسانے بھی مل جاتے ہیں ۔۔ایک شاعر کی حیثیت سے انہوں نے کثرت سے شعروں کاموزوں اور برمحل استعمال کیاہے اور ہر خاکے یامضمون کے آغاز میں ان کااپنا ایک شعر درج ہے۔۔ایک انشائیہ نگار کے طور پر ان کے خاکوں میں بہت سے انشائی ٹکڑے موجود ہیں ۔بلکہ یہ خاکے ان کے شوخ اورشگفتہ جملوں سے ہی دلچسپ بنے ہیں۔۔حیدر قریشی نے خاکہ نگاری کے فن کو محض شوخی ، شگفتگی اور تعارف وتبصرہ تک محدود نہیں رکھا۔ان میںنہایت سنجیدہ معاملات اور دانشورانہ نکتے بھی پیداکئے ہیں۔ ان سب خصوصیات کی روشنی میں میری محبتیں ‘‘خاکوں کا ایک بہت ہی خوبصورت اور خیال انگیز مجموعہ اورخاکہ نگاری کے فن میں ایک اہم اضافہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سعادت سعید (انقرہ،ترکی)
معاصر اردو ادب کی بہت سی شخصیات اپنی داخلیت زدگی کی وجہ سے اپنے عہد کے تجربہ کردہ انسانوں کے مسائل کوگرفت میں لانے سے قاصر رہی ہیں۔حیدر قریشی نے اپنی نثری اور شعری تخلیقات میںذات اور سماج کے معاملات کو یکجا کرنے کے لئے جدید اسالیبی تنوع سے بھر پور کام لیا ہے۔ان کا ادبی کام باسی کڑھی میں ابال کی مثال نہیں ہے۔حیدر قریشی نے جدید اردو نثر کو تازہ کاری کی ایک پُر تاثیر لہر سے آشناکیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود ہاشمی (برمنگھم،انگلینڈ)
آپ کی بھیجی ہوئی’’میری محبتیں‘‘مجھے مل گئی ہے۔یقیناََ یہ کتاب کا کمال ہے کہ اسے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔او ر اس وقت تک کسی اور طرف توجہ دینے کا ہوش ہی نہ رہا جب تک کہ وہ ختم نہ ہوگئی۔آپ کی’’محبتیں‘‘پڑھی تو آپ کے قلم اور مشاہدہ کا قائل ہونا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹررضیہ حامد(بھوپال)
’میری محبتیں‘کئی مرتبہ پڑھ چکی ہوں اور اگر یہی حال رہا تو میں اس کی حافظ ضرور ہو جاؤں گی۔آپ کی تحریر میں بلا کی سادگی اور قاری کو باندھ رکھنے کی طاقت ہے۔درد کی پوشیدہ لہریں دل و دماغ میں اندر تک اتر جاتی ہیں اور قاری اپنے کو قاری نہ سمجھ کر حیدر قریشی بن جاتا ہے،یہ آپ کی تحریر کا کمال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترنّم ریاض (دہلی)
’’میری محبتیں‘‘ تو کمال کی کتاب ہے سیدھی،سنجیدہ باتیں لکھتے ہوئے آپ جو ہلکا سا مزاحیہ رنگ دے کر جملہ مکمل کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قہوہ پیتے پیتے الائچی کا کوئی دانہ دانت تلے آکر ذہن و دہن کو خوشبو سے معطر کرجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد احمد حامی:(انگلینڈ)آپ کے خاکوں نے لطف دیا۔آپ نے جس طرح اپنے قارئین کو اپنے گھر کے اندر لے جاکر اہلِ خانہ سے ملایا ہے اور جس سہولت سے بعض پُل صراطی مقامات سے گزار دیا ہے‘اسے’’مہارت‘‘ہی کہا جاسکتا ہے۔زندہ شخصیتوں کے خاکوں میں تشنگی رہ جانا لازم ہے۔اس لیے کہ بہت سی باتیں ان کے خاک ہوجانے سے منظر عام پر نہیں لائی جا سکتیں اور فوت شدہ کے خاکے میں اُذکرو امواتکم بالخیر کا حجاب در آتا ہے اور مُردے کی خاک اُڑانے سے خواہ مخواہ شرم آتی ہے۔
بہر حال خوب لکھا ہے، اور بھی لکھیں۔یہ مضامین پڑھتے ہوئے مجھے ایک دو جگہ رُکنا پڑا۔پھر یادداشت پر زور دیا تو خیال ہوا کہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہی درست ہوگا البتہ جہاں آپ نے ہاشم کو امیہ کا جڑواں(پشت جُڑا)بھائی لکھا ہے وہاں ذہول ہوا ہے۔اسلیے کہ ہاشم امیہ کا چچا تھا۔ہاشم اور عبدالشمس آپس میں بھائی تھے اور دونوں عبد مناف کے بیٹے تھے۔شجرہ یوں ہے:محمدﷺ بن عبداﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔۔ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام الثقلین نقوی:(لاہور)حیدر قریشی اب شخصیت نگاری میں پختہ کار ہو گئے ہیں۔’محبت کی نمناک خوشبو‘ایک پُر تاثیر خاکہ ہے۔
(مکتوب مطبوعہ ’’اوراق‘‘لاہور،نومبر،دسمبر۱۹۹۲ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقصود الہٰی شیخ(انگلینڈ)
آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘دیکھنی شروع کی ہے۔لگتا ہے آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔کہہ سکتے ہیں اور کہنے کا یارا بھی ہے۔میرا دل چاہا کہ آپ کو بتا ؤں کہ جو پڑھا ہے‘ پسند آیا ۔آپ نے بڑی مشکل باتیں بڑی آسانی سے لکھ دی ہیں‘آپ کو اس کی داد ملے گی۔۔۔بڑی بے ساختگی ہے،روانی ہے اور گندھی ہوئی خوشگواریت لا جواب ہے ۔۔۔آپ کی نثر میں شاعروں سے اچھی اور زیادہ شعریت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلم حنیف(انڈیا)
نرم اسلوب سے جھانکتی ہوئی تصویریں جاذب نظر ہی نہیں قابلِ تقلید بھی بن گئی ہیں۔خاکہ نگاری نہ ہی کارگہ شیشہ گری ہے اور نہ ہی فن بت تراشی یا مصوری اور فوٹو گرافی‘بلکہ یہ تو ایک طرح کی کلوننگ ہے۔آپ نے جن ہستیوں کی کلوننگ کی ہے ان میں ہر ہستی اپنے مکمل وجود کے ساتھ اُبھر آئی ہے۔یہی آپ کے اسلوب اور فن کی بڑی کامیابی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیاز احمد صوفی(لاہور)
آپ کے خا کے ’’میری محبتیں‘‘ماشاء اﷲ زبردست ہیں۔یہ نہ صرف آپ کی محبت کی غمازی کرتے ہیں بلکہ اس ثقافتی پس منظر اور روایات کو اجاگر کرتے ہیں جن میں آپ کی تربیت اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے۔آپ کے دیکھنے پرکھنے کے انداز کا اچھوتا پن اور یوں ایک مخصوص زاویے سے زندگی کرنے کی دعوت‘ان خاکوں کا نمایاں پہلو ہیں۔اپنی خوشگوار تحریروں سے آپ نے ایسی قدروں کوبے نقاب کیا ہے جن سے نئی نسل کے جیالے آشنا نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر نظامی(ہالینڈ) آپ کی کتاب ’’میری محبتیں‘‘قابلِ تعریف ہے۔آپ نہایت عمدگی سے کرداروں کے حالات و واقعات کی اور جذبات و احساسات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔آپ کی تحریر میں کمال کا رچاؤ‘ چٹکیاں‘ دردمندی‘ بلند حوصلگی اورگہری محبت کا اظہار پایا جاتا ہے۔آپ کے اندر محبت کا اتھاہ گہرا سمندر موجزن ہے جو ابھی تک اپنے جیسے کسی اور عمیق سمندر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔آپ کی تحریر میں میں نے محبت کی طلسماتی اور ماورائی فضاؤں جیسی کیفیت محسوس کی ہے۔کچھ ایسا جو روحانی دیوتاؤں کا ورثہ ہوتا ہے۔جو روحانیت کے عارفین کا نصیب ہوتا ہے۔مجھے آپ کے ہاں ایک روحانی ولائت کی جھلک دکھائی دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثریا شہاب(جرمنی)’’میری محبتیں‘‘میں بیس خاکے شامل ہیںدس قریبی رشتہ داروں کے اور دس ادیبوں اور دوستوں کے۔حیدر قریشی نے اپنے والد،والدہ ،دادا، ،نانا،تایا،ماموں،ہمشیرہ،بیوی،بھائی اور پانچوں بچوں کے بڑے دلآویز خاکے لکھے ہیں۔ان خاکوں میں بڑی کھلی کھلی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔حیدر قریشی اپنی محبوب شخصیتوں کے ساتھ اس کتاب میں زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس کتاب میں شامل جن شخصیات کے ساتھ ہماری دوستانہ ملاقات ہوتی ہے،وہ شخصیات کسی گروہی حوالے کے بجائے اپنے ثقافتی پس منظر سے ابھرتی ہیں اور پورے انسانی حوالے سے سامنے آتی ہیں۔انسانی حوالے سے میری مراد کسی محدود گروہی سطح سے اوپر اٹھ کر سامنے آنا ہے۔ادیبوں میں فیض احمد فیض،میرزا ادیب،وزیر آغا،غلام جیلانی اصغر،اکبر حمیدی،عذرا اصغراور سعید شباب کے علاوہ دو دوستوں بریگیڈیئر اعجاز اکبر اور طاہر احمد کے خاکے شامل ہیں۔کہیں کہیں ادبی چھیڑ چھاڑ بھی ملتی ہے۔بعض سلگتے ہوئے موضوعات کو بھی حیدر قریشی نے چھیڑا ہے لیکن کھل کر اور سامنے آکر چھیڑا ہے۔رشتے داروں کے خاکے لکھنے کی روایت اکبر حمیدی اور حیدر قریشی سے شروع ہوئی ہے اور اس میدان میں حیدر قریشی بہت آگے نکل گئے ہیں۔شاید اسی لئے اشفاق احمد نے لکھا ہے کہ ’’ولایتی زبانوں میں ایسے سکیچ اپنے اپنے انداز میں بہت ملتے ہیں لیکن اردو میں’’میری محبتیں‘‘اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے ‘‘۔
محمد اکرم (امریکہ)
حیدر قریشی سے غائبانہ تعارف اس دور میں ہوا جب ‘‘بالمشافہ‘‘ تعلق کسی بلائے ناگہانی کو دعوت دینے کا باعث بن سکتا تھا – بلا کوئی اتنی ناگہانی بھی نہیں بلکہ کسی مارنے والے بیل کی طرح ‘‘قابل دید‘‘ بھی تھی – اس تعارف میں حیدر قریشی کی شخصیت کا غالب پہلو اس کی ‘‘مومنانہ شان ‘‘ تھی – وہ والی مومنانہ شان جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن -بعدازاں متعدد معرکہ آرائیوں کے تذکرے سننے اور پڑھنے کے بعد یہ حسن ظن مزید مستحکم ہوا –
مار دھاڑ سے بھرپور اس منظر نامے سے باطن میں چھپے کسی ‘‘چھوٹے سے مومن بچے‘‘ کی آنکھوں میں تراوت تو ضرور پیدا ہوتی لیکن دل کو اس ‘‘آہنی ہاتھ‘‘ کے پیچھے موجود حلقہء یاراں میں بریشم کی طرح نرم شخصیت کی موجودگی کا یقین بھی رہا اور جستجو بھی – چند ماہ قبل جب ‘‘عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ پڑھنے کا موقع ملا تو لطیف تر حسیات رکھنے والے اس منکسر المزاج اور رقیق القلب شخص سے ملاقات ہوئی تو لطف دو آتشہ ہو گیا -آج مدرز ڈے کے حوالے سے حیدر قریشی کی تحریر پڑھ کر مجھے اپنی ماں یاد آگئی اور ایک ایک لفظ کے ساتھ جہاں حیدر قریشی کی امی جی کو تصور (ویژولائز) کر تارہا وہیں اپنی امی جی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لاکر اشکبار ہو تا رہا – ماؤں کے سانجھا ہونے کا ایک یہ مفہوم بھی تو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید انجم(ناروے)
خاکوں پر مشتمل آپ کی کتاب میری محبتیںمجھے ملی۔اس عنائت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ ! روشنی کی بشارت کے افسانے پڑھنے کے بعد آپ کے ساتھ جو تعارف ہوا تھا‘اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس نے ایک اور منزل طے کر لی ہے۔آپ سے شناسائی کی سمت ’’میری محبتیں ‘ ‘ ایک دلگداز پھاٹک کی مانند ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادوں کے باب’’روح اور جسم‘‘اور افسانہ’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘پر تاثرات
عبداللہ جاوید(کینیڈا)
جب میں چلنے کو تھا ،آپ یعنی حیدر قریشی ’’جسم اور روح‘‘پر بزبان تحریر بات کرتے مل گئے۔ موضوع میرا اپنا خاص اور بولنے والا اپنا خاص(جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا)،رُکنا ہی پڑا۔یہ کیسا اسلوبِ بیان ہے کہ بات سے بات جُڑی ہوئی چل رہی ہے،کبھی خراماں خراماں،کبھی رواں،دواں،کبھی بہہ رہی ہے موج در موج،سیل در سیل،جیسے ہوا۔ اصل موضوع کا یہ حال کہ چلتے چلتے ،بہتے بہتے بالکل غائب اور پھر غیر محسوس طریقے سے دوسری باتوں کے درمیان ایک بار پھر نمودار۔۔ خیال، فکر، احساس،ادراک،اپنے طور پر ہر قسم کی قیدوبند سے آزادجیسے سب اپنے طور پر اپنے اپنے کاموں میں مصروف،باہم آمیز ہو کر بھی اور جدا جدا بھی ایک غیر محسوس اسلوب کے بنتوّں(ٹکسچر)میں بندھے ہوئے ۔ بظاہر دھاگے الجھے الجھے اِدھراُدھر نکلتے ہوئے اور پھر خودبخودجُڑتے ہوئے، جیسے کبھی اُدھڑے ہی نہ تھے۔عرفانِ روح کے مذہب کے راستے کے علاوہ دوسرے راستوں کی نشاندہی نے مضمون کے دامن کو زیادہ معنی خیز بنا دیا لیکن موضوع کو تشنہ رہنا تھا،سو رہا۔اصل لطف تو طفلانہ معصومیت،حیرانی اور تجسس کی تحت موجی نے دیا جو مجھ سے کم مایہ قاری سے بھی چھپی نہ رہ سکی۔باتوں کا سلسلہ اس دوران آپ کی تحریر’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘ کی سرحد میں داخل ہو چکا ہے۔جسم اور روح سے بھی زیادہ گھمبیر اور گہرے معاملے سے ہم اور آپ دوچار ہیں لیکن لفظیات کا تانا بانا قطعی مختلف ہے۔حیران کن۔۔عجیب طرح کا ہلکا پھلکا پن،ایک مکمل سپردگی،ایک کامل تسلیم ورضا بلکہ راضی بہ رضا والی کیفیت کی فضا میں ایقان کو چھونے والا یہ احساس کہ انسان کی مساعی ہی قدرت کی پراسرار قوتوں کو مشکل کشائی،تعاون اور سرپرستی کی جانب راغب کرتی ہے۔ لاٹری۔۔نوجوان ،رقم سے معمور سوٹ کیس،پولیس۔ ۔درمیان میں آپ پولیس کے نرغے میں۔۔ٹرین سے چھوٹے بیٹے کا اترنا۔۔تبدیلیٔ شخصیت و شناخت۔۔پراسرار معاملات ۔ کشف کے، وجدان کے،جذب کے، ماہیت قلبی کے،جیسے کوئی شمسؔ تبریزکسی جلال الدین رومی کو قیل و قال کی پستی سے مرتبۂ حال کی بلندیوں پر لے جا رہا ہو۔
(مکتوب مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۱۔جولائی تا دسمبر۲۰۰۸ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلطان جمیل نسیم(کینیڈا)
اِن ذائقوں کی وجہ سے یہ خوبی بھی پیدا ہوگئی ہے کہ ہر پیمانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کو اپنی یادوں کے میخانے بھی یاد آجاتے ہیں اور وہ حیدر قریشی کی کھٹی میٹھی یادیں پڑھتے پڑھتے اپنی تلخ و ترش یادوں کا ذائقہ بھی چکھنے لگتا ہے۔۔۔۔جیسے میں۔۔۔۔میرے ساتھ تو یہ ہوا کہ تقریباََہر پیرا گراف پڑھنے کے بعدذہن کے اندھیرے میں پڑی ہوئی اپنی کوئی بھولی بسری یاد،یکایک جگمگ کرتی ہوئی سامنے آتی رہی ہے۔۔۔۔ کھٹی میٹھی یادیں۔ کے بارے میں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ ان سوانحی یادوں میں اپنے بزرگوں کے لئے احترام،ہم عمروں کے محبت اور چھوٹوں کے لئے شفقت و پیار کا اظہار نہایت خلوص کے ساتھ ملتا ہے۔ اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قریشی صاحب کو روحانیت سے بھی لگائو ہے۔اپنی اس بات کے ثبوت میں’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ میں سے وہ پہلا جام اٹھا لیں جس پر’’بزمِ جاں‘‘ کا لیبل لگا ہوا ہے۔آخری بات کے طور پر یہی کہوں گا کہ رواں دواں اندازِ تحریر نے بھی ان یادوں کو پڑھنے کے قابل ایسا بنا دیا ہے کہ بقول حضرتِ صبا اکبرآبادی ؎ سارے میخانے کو اک سانس میں کیسے پی لوں
۔۔۔حیدر قریشی نے بھی اپنی یادوں کو کھٹا اور میٹھا کرنے کے لئے الفاظ کی مٹھاس اور کھٹاس استعمال کی ہے لیکن مجھے اِن کے الفاظ میں غیروں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے بھی خاص طور سے جنھوں اِن کے ساتھ مناسب اور اچھا سلوک نہیں کیاتلخی اور ترشی کم ہی محسوس ہوئی ہے۔۔۔۔ شاید لفظوںکا احترام کرنے والوں کا یہی شیوہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفیہ صدیقی(انگلینڈ)
آپ کی ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘بہت پُرلطف ہیں اور میں تو ادبی دیانت داری کو بہت اہم سمجھتی ہوں۔آپ نے جس طرح صاف صاف سب کچھ جو آپ نے محسوس کیا وہ لکھ دیا یہ آپ کی خوبی ہے۔اسی طرح ’’میری محبتیں‘‘بھی آپ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔’’محبت کی نمناک خوشبو‘‘میں آپ نے اپنی آپی کا جس طرح تذکرہ کیا ہے اسے پڑھ کر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش میری بھی کوئی ایسی محبت کرنے والی بڑی بہن ہوتی۔’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘میں آپ نے اپنی شریکِ حیات کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اس سے بے انتہا مسرت ہوئی۔ورنہ عموماََ ہمارے معاشرے میں والدین کے انتخاب کردہ شوہر بیوی میں زیادہ تر ساری عمر ’’سرد جنگ‘‘سی جاری رہتی ہے۔وہ شریک سفر تو ہوتے ہیں‘شریکِ زندگی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شفیق احمد(بھاولپور)
انہوں نے اپنی بعض تحریروں کے لیے یادنگاری کی اصطلاح وضع کی ہے اور اس میں جن موضوعات پر لکھا ہے وہ اس سے پہلے اُردو ادب میں کہیں نہیں ملتے ۔ ہمارے ہاں ایک مشکل یہ بھی آپڑی ہے کہ لوگ تخلیقی فکر کے چکر میں سچ سے دور چلے جاتے ہیں یا پھر ان کے سچ میںسے تخلیقی عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ حیدر قریشی کے ہاں یہ دونوں مشکل صورتیں پیدا نہیں ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین(بھاولپور)
حیدر قریشی کی یہ خود نوشت جب کتابی شکل میں سامنے آئے گی تو ممکن ہے ترمیم و اضافہ سے یہ آج سے قدرے مختلف ہو مگر یہ بات طے ہے کہ اپنے سادہ و پرکار انداز اور گذری زندگی کی سچی کھری اور کھٹی میٹھی یادیں پڑھنے والے پرایک بھرپور تاثر ضرور چھوڑیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر لئیق صلاح(حیدرآباد دکن)
ان کے خودنوشت سوانح سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں دعامانگتے ہیں قبولیت کا یقین بھی ہے۔ اور مایوسی و ناامیدی کو کفر سمجھتے ہیں۔ تصوف سے بھی واقفیت ہے۔ مسئلہ جبروقدر کے بارے میں جو تجزیہ انہوں نے کیا ہے وہ بالکل منفرد انداز کا ہے۔ حیدرقریشی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ انھوں نے جرمنی پہنچنے پر اپنے جن تاثرات اظہار کیا ہے۔ ا ن سے بیوی کی برتری ثابت ہوتی ہے، اور یہ ان کی روشن خیالی و وسیع النظری ہے۔۔۔ اس سوانح کا سب سے خاص وصف حید ر قریشی کا اسلوب ہے۔ مختلف موضوعات پرمبنی یہ سوانح ہے۔ لیکن کہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ قلم کی روانی میں فرق آیاہے۔ خواہ وہ مل کا حال ہو یا تعلیم و تدریس کا موضوع یاپھرکھیل کا بیان یادیگر تذکرے۔ موضوع کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب، طرز ادائے بیان، جن میں اضافہ کردیتاہے۔ ان کی تحریر میں بے ساختگی کے علاوہ شگفتگی بھی موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر حامد اشرف(اودگیر)
حیدر صا حب نے بعنوان کھٹی میٹھی یا دیں ٗ تصنیف کے ذریعے ایک نئی صنف ” یاد نگا ری” کی اردو میںبنا ڈا لی ہے ۔۔۔۔ (مضامین)یہ ثا بت کرتے ہیں کہ ادب مسرت زا ئی کا سر چشمہ ہے۔ان مضا مین میں وا قعات کی پیش کشی اور اسلوب ِ نگارش کی شان پو شیدہ ہے ٗجس سے حیدر صا حب کے دل کی مخفی دھڑکنوں کا اظہار ہو تا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار احمد اعجاز(گوجرانوالہ)
عکاس 15کے شمارے میں زندگی کا یاد گار سفر کے عنوان سے آپکی کھٹی میٹھی یادیں پڑھنے کانہ صرف موقع ملا۔بلکہ آپ کی رفاقت اور ہمسفری کا لطف بھی ملا۔تھوڑے سے دنوں پرمحیط یہ سفر اتنی بے پناہ یادیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔آپ نے ان سب کو بڑی خوبصوررتی سے اردو کے دامن میں سمو کر ایک یادگار ادبی خدمت سرانجام دی ۔خدا آپ کو خوش رکھے ۔۔۔۔۔ٹیگور کے مجسمے والے واقعے کو پڑھ کر ان کی اپنی ناقدردانی کے احساس کوجاننے کا موقع ملا کہ کیسے اتنے بڑے بڑے لکھاری بھی اپنوں کی بے اعتنائی کو جھیلتے رہے۔بہرحال آپ نے اپنی لمحہ بہ لمحہ یادوں کو جس طرح سے محفوظ کیا اور اپنے چاہنے والوں کو جس طرح سے مربوط صورت میں پیش کیا اس پہ آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرشن مہیشوری(راج کوٹ)
جب کبھی ہم اپنی بیتی یادوں کو اپنے ذہن میں دہراتے ہیں تو ایک عجیب احساس ذہن کو معطر کرتا ہے۔یہی یادیں جب صفحہ قرطاس پر منتقل ہو جائیں تو کبھی اسے سوانح نگاری ،تو کبھی خاکہ نگاری کا نام دیا جاتا ہے۔حیدر قریشی نے اپنی ایسی یادوں کو’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کا نام دیا ہے اور اسے یاد نگاری کے زمرے میں رکھا ہے۔
حیدر کی یہ یادیں پڑھ کر حیدر کے حافظہ اور اندازِ بیان پر حیرت ہوتی ہے اور داد دینے کو جی چاہتا ہے۔اکثر روزمرہ کی باتیں ہمیں یاد نہیں رہتیں۔اکثر یادیں وقت کے ساتھ مدھم نقوش بن کر رہ جاتی ہیں۔دھندلی دھندلی۔۔۔مدھم مدھم۔۔۔اور اگر واضح ہوں بھی تو انہیں حیدر کے انداز میں تحریر کرنا ؟۔۔یہ بھی ایک کمال ہے۔حیدر کی کھٹی میٹھی یادیں پڑھ کر ایسا تاثر قاری کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے ہمیشہ جڑے رہنا چاہتے ہیں۔وہ اپنی یادوں کے ساتھ خوش رہنا چاہتے ہیں۔ایک طرف انہیںانسانی ترقی پر خوشی ہوتی ہے تو دوسری طرف انسانی دلوں میں وقتاََ فوقتاََ گھٹتی محبت کا گلہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی کی ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘حکایتِ دراز اور لذیذ تر ہیں۔ایسی دلکش اور فرحت بخش یادیں جو قاری کو مکمل طور پر جکڑنے کے بعد ایک بار پھر مطالعہ کے لئے اکساتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Doris Weber (چیف ایڈیٹر پبلک فورم۔ فرینکفرٹ)
حیدر قریشی کی داستانِ حیات،ایک سچ ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے کوئی افسانہ پڑھ رہے ہوں ۔ (جرمن سے اردو ترجمہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سوئے حجاز‘‘کے حوالے سے تاثرات
یعقوب نظامی(بریڈ فورڈ۔برطانیہ)
جرمنی میں مقیم ممتاز ادیب شاعر اور افسانہ نویس حیدر قریشی کا سفر نامہ ’’ سوئے حجاز‘‘ میرے زیر مطالعہ ہے۔ غالباً یہ اُن چند دلچسپ ترین کتابوں میں سے ایک ہے جسے میں نے ایک نشست میں پڑھا ۔ اس دلچسپی میں ایک تو مصنف کاا نداز بیاں ہے دوسرا مقدس سرزمین کا سفرجس کا سن کر ہر باعمل مسلمان کے دل میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے۔
سفرحجاز میںحیدر قریشی اپنی بیگم مبارکہ کے ساتھ سفر کرتے ہیں ۔لیکن اس سفر میں وہ موقع ملتے ہی اپنے قارئین کو بھی شریک سفر کرلیتے ہیں اور پھر انھیں قدم قدم پر مقدس مقامات کی زیارات اور ان کے تاریخی پس منظرسے آگاہ کرتے آگے بڑھتے ہیں۔ مقدس سرزمین پر گھومتے پھرتے ، زیارتیں کرتے اوربیت اللہ میں عبادات سے ان کے اندر جو روحانی تبدیلی آتی ہے اُسے بھی بیان کرتے ہیں۔ مجھے یہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے ان میاں بیوی کے اندر دین سے محبت اور حب رسول کی جو تڑپ محسوس ہوئی وہ بہت کم سفرناموں میں دیکھی ہے۔ یورپ میں آباد مسلمان اب آسودہ حال ہونے کی وجہ سے ہرسال ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں یہ مقدس سفر کرتے ہیں لیکن میرے تجربے کے مطابق اکثریت حج اور عمرہ کی بجائے صرف وہاں ’’ پھیرہ ‘‘ لگانے جاتی ہے تاکہ دوست و احباب اور رشتہ داروں کو معلوم ہوجائے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ یعنی سب کچھ دکھاوا۔ لیکن حیدر قریشی کا یہ سفر دوسروں سے بالکل منفرد ہے۔ اس میں سفری روئیداد کے ساتھ مذہبی فریضہ ادا کرنے کی باتیں اور پھر ایک حساس اور صاحب مطالعہ مسلمان ہونے کے ناطے انھوں نے جو دیکھا محسوس کیا اُسے مرچ مصالے لگائے بغیر بیان کردیا۔ یوں یہ سفرنامہ جہاں حج اور عمرہ کے مراحل ، تکالیف ، سعودی حکومت کاحجاج کے ساتھ برتاؤ میں انھیں جن تجربات سے گزرنا پڑا کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی اور جذباتی سفر کا ذکر بھی کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار امام صدیقی مد
’’سوئے حجاز میرے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔یوں لگاگویا میں آپ دونوں کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سارے متبرک مناظر اور شب و روز مجھے یاد آئے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نذر خلیق(اسلام آباد)
سوئے حجاز کی فکری اور ادبی سطح کے علاوہ بھی اورکئی سطحیں ہیںجن کا اس مختصر مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حیدر قریشی کا یہ سفرنامہ عصر حاضر کے بیشتر سفرناموںمیں منفرد مقام رکھتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد یونس خان(سرگودھا)
پارسل کی ڈوری کیا کھولی کہ محبت کی ڈوری سے بندھ گیا۔سوئے حجاز فوراََ پڑھنا شروع کی۔دو نشستوں میں عمرے کا سفر نامہ ختم کیا ایک افطاری سے پہلے اور دوسری افطاری کے بعد۔آج حج کا سفر نامہ پڑھ کے ختم کیا ہے اور نیٹ پر آگیا ہوں۔سارا سفر نامہ دردمندی اور عقیدت سے لکھا گیا ہے۔بلا وجہ کسی کو جذباتی نہیں کیا۔بات سادگی سے کہہ دی ہے۔سفر نامے کو انتہائی مختصر رکھا گیا ہے،شاید یہی اس کی خوبصورتی بھی ہے کہ بات کو زیادہ پھیلایا نہیں گیا۔ایک بات زیادہ خوبصورت لگی کہ سفر نامہ ہَیٹرس ہائم سے شروع ہوتا ہے،پاکستان سے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین (بھاول پور)
سفرنامہ ’’سوئے حجاز‘‘ جہاںحیدر قریشی کے احساسات اور خیالات کی بہترین ترجمانی کرتاہے ، وہاں اپنے قارئین کے لیے نہایت اہم تاریخی اور مذہبی معلومات کا خزینہ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشائیوں کے حوالے سے تاثرات
ڈاکٹر عبدالرب استاد(گلبرگہ)
حیدرقریشی کی ایک کتاب جوان کے دس انشائیوں پر مشتمل ہے۔ ’’فاصلے قربتیں‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ اس میں انہوں نے جن عنوانات کے تحت انشائیہ لکھے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں، خاموشی، نقاب، وگ، فاصلے قربتیں، بڑھاپے کی حمایت میں ، اطاعت گزاری، یہ خیروشر کے سلسلے، چشم تصور، اپنا اپنا سچ، اور تجربہ کاری ہیں۔ ان تمام دس انشائیوں میں انہوں نے مختلف کیفیات، زمانے کے نشیب و فراز، سیاسی حالات اور سماجی نیرنگیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان انشائیوںمیں تحریر چست اور برجستہ ہے اور ساتھ ہی فقروں کی چستگی نے ایک شگفتگی کو عیاں کردیا ہے۔ عموما انشائیوں میں اقوال زرین کی تلاش ہوتی ہے۔ تاہم میری نظر میں انہیں اقوال زرین کی بجائے فقرہ ہائے بذلہ سنجی سے تعبیر کرنا چاہئے۔ جو انگریزی کے Wit & Wisdom کی طرز پر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی کے بعض فقرے یا چست اقوال جنھیں میں اقوال زرین کی بجائے فقرہ ہائے بذلہ سنجی سے تعبیر کروں گا، جو نہ صرف بڑے چست ہیں بلکہ معنی کا ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض حیدرقریشی کے انشائیہ جہاں ہمارے ذہن کو تازگی، فرحت اور شگفتگی عطا کرتے ہیں وہیں دعوت غوروفکر بھی دیتے ہیں اور ہمارے ذوق و وجدان کو مہمیز بھی کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عامر سہیل(ایبٹ آباد)
۱۔ انشائیے کا ابتدائی شعر:
حیدر قریشی نے اپنے ہر افسانے اور انشائیہ کا آغاز ایک شعر سے کیا ہے۔ اس شعر کا منطقی جواز یہی ہے کہ ہر شعر مرکزی موضوع پر مبنی ہے۔اور ہر موضوع میں زیرِ بحث اَن کہی باتیں شعر کی زبانی بیان ہو جاتی ہیں۔ یہ تمام اشعار طبع زاد ہیںاور موضوع کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ’’ نقاب‘‘ کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
حیدرؔ بھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک نقاب اگر الٹیں تو آگے اور نقاب
۲۔ تفکر کے عناصر:
حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکریات کا ایک پورا نظام فعال ہے۔ اس نظام کا مرکز و محور اخلاقیات پر استوار ہے جس میں ایک طرف تو نام نہاد پاکبازوں کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور دوسری جانب سماجی رویوں میں چھپے کذب و افترا اور منافقت کا پردہ چاک کیا جاتا ہے لیکن تنقید کا یہ عمل صنفِ انشائیہ کے مزاج کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔
۳۔ اصول اخذ کرنے کی صلاحیت:
حیدر قریشی کے انشائیوں میں سچی ، کھری اور جرآت مندانہ باتوں کا سلسلہ در سلسلہ بیان ملتا ہے۔ یہ بیان قاری کے تجربات میں خوشگوار اضافہ کرتا ہے اور اسے کئی مقامات پر چونکاتا بھی ہے۔ ’’ فاصلے، قربتیں ‘‘ میں شامل تمام انشائیوں کا ایک نمایاں وصف یہ سامنے آتا ہے کہ حیدر قریشی نے جن حالات و واقعات کو موضوع بنایا اُن پر بات کرتے ہوئے مخصوص نتائج اور اصول اخذ کرتے ہیں۔یہ اصول وہ ثمرات ہیں جو قاری کی فکری اور جمالیاتی ترتیب کرتے ہیں۔
۴۔ تجربات اور مشاہدات اور تجزیات
حیدر قریشی نے اپنے تقریباً تمام انشائیوں میں زندگی سے حاصل ہونے والے تجربات اور مشاہدات کو بہ اندازِ دگر پیش کیا ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات اگرچہ انفرادی سطح سے اُٹھتے ہیں لیکن فنی چابکدستی اور انشائی تخلیقی عمل کی بدولت اجتماعی رنگوں سے مالا مال ہیں ۔
(۵) سائنسی عناصر:
حیدر قریشی کو سائنسی علوم خصوصاً طبیعیات میں خاص دل چسپی ہے اور اس کی وجہ ڈاکٹر وزیر آغا کی دوستی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ آغا صاحب کے اکثر قریبی دوست اس مشترک شوق کے اسیر ہیں۔ حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں کئی مقامات پر اپنے اس شوق کا اظہار کیا
۶۔ ادبی مشاہدات اور تجربات
حیدر قریشی کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی مصروفیات کے تابع ہے۔ لہٰذا ادبی باتوں کا انشائیے یا دوسری نثری اصناف میں در آنا خلافِ توقع نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے انشائیوں میں تلخ ادبی تجربات کا تذکرہ کومل سروں میں کیا ہے،
۷۔ نفسیات، مشاہدۂ باطن اور اخلاقیات:
انسانی نفسیات اور مشاہدۂ باطن سے حیدر قریشی کو جو غیر معمولی دل چسپی ہے اس کا اندازہ اُن کی یا دنگاری، خاکہ نگاری اور افسانہ نگاری،سے بآسانی ہو جاتا ہے، لیکن ا نشائیہ نگاری میں بھی یہ عناصر جگہ جگہ مشا ہدہ کیئے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرمحمد وسیم انجم (راولپنڈی)
حیدر قریشی اردو ادب کا سرمایہ ہیں،جنہوں نے بیشتر اصناف میں اپنی قلمی برتری کا لوہا منوالیاہے۔انہوں نے بحیثیت انشائیہ نگار ایسے انشائیے تخلیق کیے ہیں جن میں اختصار،شگفتگی،اسلوب اورانکشاف ذات کے داخلی ،خارجی ہئیتی عوامل شامل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
انشائیہ نگار اپنے جذبات و احساسات کا اظہار انشائیے کے مزاج کے مطابق بڑے تجربے سے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں ذاتی مشاہدات اور تاثرات نمایاں ہیں اور ان کے اسلوب میںشعریت کا عنصر غالب ہے جس کی لطافت اور تہذیب الفاظ کا معیار فنی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ آپ شعور اور تحت الشعورکی ایسی سرحدپرتہذیب و ثقافت کی زبان استعمال کرتے ہیں جو تمام بنی نوع انسان کا مشترکہ ورثہ ہے۔حیدر قریشی کے بکھرے ہوئے مطبوعہ انشائیوں کا ورثہ اب کتابی صورت میں ’’فاصلے،قربتیں‘‘کے نام سے منظرِ عام پر ہے ۔ جنہیں انشائیہ نگاری کے سلسلے میں بہ نظرِ استحسان دیکھا جائے گا۔انشاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل عظیم(امریکہ)
حیدر قریشی صاحب کی نثر کے کئی پہلو ہیں ٗ مجھے ذاتی طور پر ان کے کالم بہت پسند ہیں کیونکہ حالاتِ حاضرہ ٗ معاشرے اور خود اپنی شکست و ریخت اور اس پر پوری توانائی سے گفتگو اور سوچ بچار ان کی طرح میرا بھی موضوع ہے جبکہ وہ قدروں کے پیغمبر بھی ہیں اور عامل بھی۔ ان کے انشائیے محض لایعنی اشیا کو ادب میں خوبصورتی سے جگہ دینے اور یوں اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو منوانے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ ان سے متعلق معاشرے کے اصل مسائل اور موضوعات انشائیوں میں حلول کیے ہوتے ہیں جن پر مضمون یا مزاح لکھنا آسان ہوتا ہے مگر انشائیہ لکھنا اور اس ’’غیر ہضم شدہ‘‘ صنف میں اپنا پیغام پہنچا دینا آسان نہیں ہوتا۔ ان کے انشائیوں کی یہ خوبی قابلِ ستائش ہے اور ان میں چھپا خفیف تبسم انشائیے کا تحفۂ خاص۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسیم انجم(کراچی)
میں ادبی سفر کے دوران بہت اچھی اور اعلیٰ شخصیات سے متعارف ہوئی۔ اس طرح چاند ستاروں کا ایک قافلہ بنتا چلا گیا۔ میں اپنے مضامین اور گفتگو کے دوران اکثر ان پر خلوص حضرات کا ذکر کرتی ہوں، جنہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور تحریروں کی قدر دانی کی، تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب بذریعۂ تحریر میری ملاقات جناب حیدر قریشی سے ہوئی، یہ حضرت جرمنی میں مقیم ہیں اور اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں اور اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار کے باعث ادبی دنیا میںا یک اہم مقام حاصل کر چکے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ ہوتے ہی ہیں سایۂ شجر دار، لوگ ان کی چھائوں میں بیٹھ کر تسکینِ قلب اور ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں اور ایسے حضرات اپنی ذات میں اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ادب کے طالب علموں کا ان کے گرد جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ یہ طلبہ ہر دم اور ہر لمحہ کچھ سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں اور حق کی بات یہ ہے کہ جناب حیدر قریشی بھی گلستانِ ادب میں ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکے ہیں، پچیس، چھبیس کتابیں لکھ چکے ہیں اور آٹھ کتابیں ان کے فن پر لکھی جا چکی ہیں اور لکھنے والے عام لوگ نہیں بلکہ معتبر ناقدین و محققین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جناب حیدر قریشی اپنی اعلیٰ ظرفی اور بے لوث خلوص کے باعث ہر دن، ہر روز ادبی شخصیات کو ایک دوسرے سے بذریعہ نیٹ نہ کہ متعارف کراتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو جنہوں نے قابل ذکر کام کیا ہے، ان کے گوشے اور انٹرویو کی اشاعت میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ اس وقت مجھے بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے میری کتاب پڑھنے کے بعد نہ کہ مضامین لکھے بلکہ مزید یہ کام کیا کہ روزنامہ پیغام (دہلی) اور عکاس انٹرنیشنل (اسلام آباد) سے چھپنے والے گوشوں کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا، وہ بھی بے لوث خلوص کے ساتھ ، ورنہ آج کا دور تو بڑا ہی افراتفری اور خود غرضی کا ہے۔
(نسیم انجم کے ناول پتوار کے پیش لفظ صدائے دل سے اقتباس۔مطبوعہ ۲۰۱۴ء۔کراچی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)
ہمارے برخوردارحیدر قریشی۔۔۔میں انہیںمغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوںاور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں ۔حیدر ،ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔پورا رسالہ کمپیوٹر پرہی بیٹھ کر مرتب کرتے ہیں ۔ ۔میرے برخوردار ہیں۔مجھ سے عمر میں دس برس کم،لیکن کام وصلاحیت میں سو سال بڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصر ملک(ڈنمارک)
جرمنی میں مقیم اردو ادب کی منفرد و بے مثال شخصیت،حیدر قریشی ہمارے عہد کے وہ ادیب و شاعراور نقادو محقق ہیں کہ جنہیں مشرق و مغرب میں اردوادب کا ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ کہا جانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت نواز(رحیم یار خاں)
اگر مغربی ممالک میں قیام پذیر اردو کے سارے شاعروں،ادیبوں کا جائزہ لیا جائے تو اپنے اپنے اصنافی دائرے میں سب اچھا کام کر رہے ہیں۔کوئی شاعر ہے،تو کوئی افسانہ نگار۔۔کوئی نقاد اور محقق ہے تو کوئی خاکہ نگار۔۔۔کوئی انشائیہ نگار ہے تو کوئی سفر نامہ نگار۔۔۔کوئی سوانح نگار ہے تو کوئی یاد نگار۔۔۔بعض ادباء نے ایک سے زیادہ اصناف میں بھی کام کیا ہے لیکن حیدر قریشی نے جتنا کثیرالجہت کام کیا ہے اور اس میں جس طرح اپنا عمومی معیار بھی برقرار رکھا ہے اس کے باعث مغربی ممالک کے شاعروں اور ادیبوں میں تو حیدر قریشی کا بالکل الگ ایک مقام بن چکا ہے جس میں وہاں کوئی بھی ان کا مد مقابل دکھائی نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔