جب میں ماضی میں جھانک کر دیکھتا ہوں مجھے دو شخصیات ایسی نظرآتی ہیں جن میں ایک قدر مشترک تھی۔ جب میں لائل پور ( جس کا موجودہ نام فیصل آبادہے)میں بی کام کا سٹوڈنٹ تھا۔ اس وقت ہمارے ایک پروفیسر نقوی صاحب ہوتے تھے۔ان کی خوبی یہ تھی وہ بہت تیز چلتے تھے۔ابھی دیکھا کہ وہ ایک کلاس روم سے نکل رہے ہوتے دوسرے ہی لمحے وہ آپ کے پاس سے گزر کر دوسری طرف کلاس روم میں داخل ہو رہے ہوتے تھے۔ اتنی تیز رفتاری سے وہ چلتے کہ میں حیران رہ جاتا۔ ایک بار میں نے ان کے ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے چلنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھ سے آگے نکل گئے اور مجھے بھاگ کر ان تک پہنچنا پڑا۔ مجھے یوں دیکھ کر کہنے لگے ’’ بیٹا آرام سے چلا کرو ۔ ‘‘میں نے بھی آرام آرام سے چلتے ہوئے تیز چلنا سیکھا ہے۔ دوسری تیز رفتار شخصیت کا نام حیدر قریشی ہے۔
جب میں ۱۹۷۸ء میں خانپور ماڈل ٹاؤن میں بحیثیت بنک منیجر تعینات ہوا تو وہاں میری ملاقات حیدر قریشی سے ہوئی۔وہ ایک پھرتیلے ،نہایت ہشاش بشاش اور متحرک نوجوان تھے۔ حیدر قریشی بھی تیز چلتے تھے، ان کا تیز چلنا اور پروفیسر نقوی صاحب کا تیز چلنا ایک جیسا تھا،۔ مجھے نہیں معلوم پروفیسر نقوی صاحب تیز چلتے چلتے کہاں تک پہنچے۔ لگتا ہے ان کی تیز رفتاری ان کو یقینا خالق حقیقی تک لے گئی ہو گی، (اللہ پاک ان کوغریق رحمت کرے)۔ لیکن حیدر قریشی کاتیز چلنا اسے بہت جلد اپنی منزل مقصود تک لے گیا۔ حیدر قریشی کے ہم عصر دوست اور ادیب ان کے ساتھ چلتے ہوئے بہت پیچھے رہ گئے۔ وہ خان پور کے کچہری چوک پر اوراس کے آس پاس اپنی ادبی شناخت ڈھونڈ رہے ہونگے جب کہ حیدر قریشی صاحب اپنی ادبی شناخت بناتے ہوئے عالمی ادبی منظرنامے پرپہنچ گئے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی ادبی شناخت بناچکے ہیں۔ حیدر قریشی ایک شاعر ، افسانہ نگار،خاکہ نگار اور یاد نگار،سفر نامہ نگار،انشائیہ نگار،نقاد اور محقق کی حیثیتوں سے اپنی شناخت بنا چکے ہیں اور ان حیثیتوں کو مزید مستحکم کر رہے ہیں۔ مستحکم ہونے کا ہنر بہترطور پر جانتے ہیں ان کے علاوہ شاعری میں اُردو ماہیا کی شناخت اور خدو خال کے بارے میں جو تحقیقی کام حیدرؔنے کیا وہ اُردو ادب کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ کام اپنی جگہ مستند اورجامع ہے۔حیدر نے ادبی معرکہ آرائیوں میں بھی اپنا بھرپور کردار اداکیا۔بڑی بڑی ادبی شخصیات کے سرقات بے نقاب کئے اور مخالفین کا ڈٹ کر مدلل طریقے سے مقابلہ کیا ۔یہ کام تاریخی نوعیت کا ہے۔
حیدر قریشی حئی سنز شوگر ملز میں ملازمت کرتے تھے۔ان کی ڈیوٹی کا ٹائم بدلتا رہتا تھا۔ جب رات کی ڈیوٹی ہوتی تو اگلی دوپہر کو میرے پاس بنک میں ہوتے، ادبی گپ شپ ہوتی تھی ۔ یہی گپ شپ وقت کے ساتھ دوستی میںڈھلتی چلی گئی۔|حیدرقریشی نے جب جدید ادب کا اجراء کیا تو ان کی ترغیب پر میں نے عکاس کا ادبی سلسلہ شروع کیا۔عکاس کے پہلے شمارے میں حیدر کی غزلوں کا ایک گوشہ ترتیب دیا تو اُردو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ عکاسی کی ابتدائی تین اشاعتوں میں سرائیکی ادبی صورت حال پر بحث ہوئی تو سرائیکی ادب کے معتبر لکھنے والوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس بحث میں حصہ لیا۔ اس بحث میں بھی حیدر قریشی نے سرائیکی میں تخلیق ہونے والے ادب پر بھرپور اظہارِخیال کیااور بحث کو آگے بڑھایا۔
خان پور سے جاری ہونے والا عکاس کا ادبی سفر بعد میں اسلام آباد پہنچ کر عکاس انٹر نیشنل میں بدل گیا۔عالمی سطح پر متعارف ہوا اس ساری جدو جہد میں حیدر قریشی کی رہنمائی میرے لئے حوصلہ کا سبب بنی ۔ میں اس بات کا بر ملا اظہار کرتا ہوں کہ اگر حیدر قریشی کی راہنمائی نہ ہوتی تو شاید میں کبھی بھی عکاس کو عالمی سطح پر متعارف نہ کروا پاتا۔
حیدر قریشی ہمہ جہت ادبی شخصیت کے مالک ہیں، وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کو ان کے گھر تک پہنچا کر آنے والے ہیں۔
میری نظر میں ان میں ایک خامی بھی ہے۔ وہ ہے جلد بازی۔ اس جلد بازی کا ہو سکتا ہے زندگی میں کچھ نقصان بھی اُٹھایا ہو۔ لیکن کام کو فوری طور پر نمٹانا ان کی ایک خوبی ہے۔ جس تیز رفتاری سے وہ چلتے تھے اب پتہ نہیں ان کی رفتار وہی ہے یا بیماری نے اس میں کچھ کمی کر دی ہے۔ میری دُعا ہے اللہ پاک حیدر بھائی کو صحت کاملہ عطا فرمائے اوروہ ادبی دنیا میں مسلسل متحرک رہیں۔ آ مین
٭٭٭