حلقۂ اربابِ ذوق جرمنی کی خاص تقریب
حلقۂ اربابِ ذوق جرمنی کے زیرِ اہتمام حیدرقریشی کی علمی و ادبی خدمات کے پچاس سال مکمل ہونے پراوفن باخ کے ایک ہال میں خاص تقریب کا اہتمام کیا گیا۔تقریب کی مرکزی شخصیت حیدر قریشی تھے۔نظامت کے فرائض طاہر عدیم نے انجام دئیے۔حبیب اللہ طاہر کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔بون میں مقیم اردو افسانہ نگار اور ادیبہ بشریٰ ملک کسی گھریلو مصروفیت کے باعث خود نہیں آسکی تھیں لیکن انہوں نے حیدرقریشی کی نثرنگاری پر ایک تفصیلی مضمون لکھ کر بھیج دیا تھا۔یہ مضمون محمد احمد نے پڑھ کر سنایا۔انہوں نے بتایا کہ2003 میں جب وہ انڈیا گئیں تو مختلف حلقوں میں حیدرقریشی کا نام سننے میں آتا رہا۔ایک محفل میں جوگندر پال کی اہلیہ کرشنا پال نے کہا کہ آپ جرمنی سے آئی ہیں وہاں حیدرقریشی سے تو ملاقاتیں رہتی ہوں گی۔میں نے لاعلمی کا اظہارکیا ۔پھر انہوں نے پوچھا ویسے ان کی کتابیں تو پڑھی ہوں گی۔تب شرمندگی ہوئی۔اس طرح حیدرقریشی کا علم ہوا۔بشریٰ ملک نے حیدرقریشی کی مختلف نثری اصناف میں علمی و تخلیقی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ان کے بعد راجہ محمد یوسف خان نے حیدرقریشی کے ساتھ اپنے تیس برسوں پر پھیلے ہوئے ذاتی مراسم کا ذکر کیااوران کے بعض امتیازی اوصاف کو بیان کیا۔ان کے نزدیک حیدرقریشی امن پسند اور صلح جو انسان ہیں۔جھگڑوں سے حتی المقدور دور رہتے ہیں لیکن اگر انہیں لڑنے پر مجبور کر دیا جائے تو پھر وہ ان ادبی مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچا کر رہتے ہیں۔انہوں نے اس سلسلہ میں اس سلسلے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقات کا ذکر کرتے ہوئے حیدرقریشی کی معرکتہ الآرائیوں کوبیان کیا۔ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی کا بھی چرچا ہوا۔ان کے بعد ظفراللہ رابن شٹائن نے حیدر قریشی کی شاعری پر تفصیلی مضمون پڑھا اور حیدر قریشی کی شاعری میں سے اپنی پسند کے حصے سناتے ہوئے اظہارِ خیال کیا۔
ان سب کے بعد حیدرقریشی نے اپنی خصوصی تحریر ’’تین طوفانی محبتیں‘‘پڑھ کر سنائی۔اسے خواتین و حضرات نے بے حد پسند کیا۔پھر حاضرین نے کچھ سوالات کئے۔حیدرقریشی نے اپنے موقف کو مزید واضح کیا۔انہوں نے بتایا کہ سب سے اہم کردار سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ کی طرح کوئی ’’بلاٹکٹ‘‘ قسم کی کتاب لکھوں گا لیکن اس نے شور مچا دیا تب میں نے اسے تسلی دی کہ تمہارا نام ظاہر نہیں ہونے دوں گا۔لیکن اس نے پھر بھی اصرار کیا کہ کتاب لکھنی ہی نہیں۔سو ابھی کشمکش میں ہوں۔کتاب لکھی گئی یا نہیں لکھی گئی دونوں صورتوں میں وہی ذمہ دار ہو گی۔
اس پروگرام کے دوران حلقہ اربابِ ذوق جرمنی کی جانب سے محمد احمد،امجد عارفی اور ظفراللہ رابن شٹائن کو اعترافی سنہری اسناد دی گئیں۔
تقریب کے دوسرے سیشن میں مشاعرہ تھا۔حیدرقریشی کی زیرِ صدارت اس میں طاہر عدیم،راجہ محمد یوسف خان،امجد عارفی،مبشر محیط،طاہر مجیدرانا،ناصر،فہمیدہ مسرت،کرم الہٰی،عثمان کاہلوں،عشرت مٹو،راشد ملک رامش و دیگر نے اپنا کلام سنایا اور حاضرین سے بھرپور داد پائی۔آخر میں صدرِ مشاعرہ حیدرقریشی نے اپنی اہلیہ پر اسی سال لکھے گئے مضمون’’مبارکہ کی تیسری برسی‘‘کو پڑھ کر سنایا۔اسے بھی حاضرین نے پہلے مضمون کی طرح بہت سراہا۔۔۔۔آخر میں حاضرین کے لئے کھانے کا پُر تکلف اہتمام کیا گیا اور یوں رات گئے یہ یادگار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
رپورٹ:حلقۂ اربابِ ذوق جرمنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...