حیدرقریشی کا ’’تصوّرِ محبوب‘‘۔ایک مکالمہ
شاعری میں انسانی احساسات،جذبات،زندگی کے تجربات و مشاہدات کے بے شمار رنگ ملتے ہیں۔شاعری میں موضوعات کی کوئی قید نہیں لیکن شاعری کا سب سے اہم موضوع ہمیشہ سے محبت ہی رہا ہے اور شاعر کا محبوب اس محبت کا مرکز رہا ہے۔اردو شاعری میں محبوب کا ذکر بہت خاص انداز میں کیا جاتا رہا ہے۔کہیں محبوب حسن و ناز کا مرقع نظر آتا ہے تو کہیں اداؤں اور نزاکت سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ کہیں ظالم اور بے رحم ہے تووہیں وفا سے بھی عاری ہے۔محبوب کی یہ تمام صورتیں بہت سے سوالات کا موجب بنتی رہی ہیں۔میں نے ’’نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس،بہاول پور‘‘کے سب کیمپس رحیم یار خان سے ایم فل کرنا چاہا تو مجھے ’’رحیم یار خان کے جدید شعراء کا تصورِ محبوب‘‘کا موضوع ملا۔یہ ایک انوکھاموضوع تھا اور مجھے لگا کہ شعراء کی طرف سے ان کے محبوب کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب مل جائیں گے۔اپنے سوالوں کے جواب کی تلاش میں رحیم یار خان کے اہم شعراء سے بھی رابطہ کیا اور رحیم یارخان؍خان پور سے نہایت جذباتی تعلق رکھنے والے جرمنی میں مقیم اردو کے شاعر اور ادیب حیدرقریشی سے بھی رابطہ کیا۔حیدرقریشی رحیم یارخان؍خان پور سے اپنے جذباتی تعلق کے باعث جرمنی میں بیٹھ کر اپنے شہروں کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔ان کی شاعری کے تصورِ محبوب کے حوالے سے میرے سوالات کے جواب میں انہوں نے کھل کر بات کی۔اتنے آسان الفاظ میں جواب دئیے کہ میرے لیے کوئی ابہام نہیں رہا۔یہاں ہمارے مکالمہ کے سارے سوال اور جواب پیش ہیں۔
سوال:کیا شاعری کرنے کے لیے شاعر کا کسی سے محبت کرنا اور اس وجہ سے اس کے کسی محبوب کا ہونا لازمی ہے؟
جواب:محبت کرنا،کسی کو چاہنا اور چاہے جانا ایک مشترکہ انسانی جذبہ ہے۔اس کے لیے شاعر ہونا لازم نہیں ہے۔محبت کا انسانی جذبہ گھر میں ماں ،باپ،دادا،دادی،نانا،نانی،بہن بھائی،بیوی بچے،قریبی عزیزو اقارب کی محبت سے ہوتا ہواچلتا ہے۔اس میں کہیں کوئی خاص محبوب بھی آجاتا ہے۔تو یہ عام انسانی زندگی میں ہوتا ہے۔شاعر بھی اسی انسانی زندگی کا حصہ ہے سو وہ بھی اپنے نصیب کے مطابق اپنا حصہ پاتا ہے ۔ میں پہلے بھی ایک جگہ وضاحت کر چکا ہوں کہ اگر محض عشق و محبت کی وجہ سے شاعر بنتے تو پھر مجنوں، فرہاد،رانجھا، مہینوال، پُنوں،وغیرہ بڑے شعراء میں شمار ہوتے۔سو ایسا کچھ بھی لازم نہیں ۔یہ سب انسانی جذبات و نفسیات کا حصہ ہے،اور شاعر بھی اسی انسانی ہجوم کا حصہ ہے۔
سوال:آپ کی پوئٹری میں جو محبوب ہے آپ اسے کیسے ڈس کرائب کریں گے؟میرا مطلب ہے آپ کا محبوب کا تصور کیا ہے؟
جواب:اردو غزل میں محبوب کا جو روایتی تصور چلا آرہا ہے،ابتدا میں تو وہی تصورتھا۔خیالی محبوب جو بے حد خوبصورت ہے،جتنا خوبصورت ہے اس سے زیادہ سنگ دل ہے،پھر اس سے کبھی کبھی لگاؤ بھی سرزد ہو جاتا ہے۔محبوب میںکچھ قدیم معاشرتی کلچر کے مطابق کوٹھے والا انداز بھی ہے۔جب اس حصار سے کچھ نکلنے لگے تو آگے پھر ترقی پسندوں کا اشتراکی محبوب سامنے کھڑا تھا۔(فیض صاحب کی نظم’’رقیب سے ‘‘ اس اشتراکی محبوب کی نمائندہ نظم ہے۔)۔بہر حال ان دونوں روایتوں کے اثرات سے گزرتے ہوئے گوشت پوست کے جیتے جاگتے محبوب پر بھی نظر پڑ گئی۔چنانچہ اسے اپنی شاعری کا مرکز بنانے لگے ۔اس کی اپنی شخصیت،اس کا سراپا،اس کے رویے دھیرے دھیرے شاعری میں آنے لگے۔پھر یوں ہوا کہ (یک طرفہ طور پر) محبوب بنانے کی تعداد بڑھنے لگی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُسی ابتدائی دور میں یہ کہنا پڑا۔
جتنی اچھی صورتیں ہم کو ملیں
اتنے ہی خانوں میں حیدرؔ بٹ گئے
متعدد دوسرے محبوب کرداروں کے باوجود پہلے کردارکی اہمیت ہمیشہ قائم رہی۔پہلے کے بعد جو دوسرا تھاوہ بھی ابھی تک میری شاعری میں سے جھانکتا رہتا ہے۔پہلے دونوں کی اہمیت اس لیے ہے کہ ان سے ربط یک طرفہ نہیں تھا،دو طرفہ تھااور ہے۔
سوال: آپ کو اپنی شاعری کے محبوب میں کسی اور معروف شاعرکی جھلک نظر آئی ہے؟یا کسی شاعر میں آپ کو اپنی جھلک نظرآئی کہ آپ کے اور اس کے تصورات ملتے جلتے ہیں یا دونوں کے محبوب میں مشابہت ہے ؟
جواب:میں نے اس زاویے سے کبھی غور نہیں کیا۔میرا خیال ہے کہ یہ کام محققین اور ناقدین بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔چونکہ سب شعراء نے ہی قدیم اساتذہ سے شعری فیض حاصل کیا ہے اس لیے روایتی محبوب کے تصور میں تو سب ہی ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے ہیں۔لیکن جو شعراء روایت کے خیالی محبوب سے آگے بڑھ سکے ان کے محبوبوں میں بھی بہت ساری محبوبانہ باتیں قدرِ مشترک ہو سکتی ہیں۔تاہم اس کا حساب کتاب ناقدین اور محققین ہی کر سکتے ہیں۔شعوری طور پر مجھ سے نہ تو ایسا کچھ سرزد ہوا ہے اور نہ ہی مجھے کبھی اس کا احساس ہوا ہے۔
سوال: میں یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ کسی دوسرے شاعر کا محبوب آپ کو اپنے محبوب جیسا لگا؟یعنی ایسا لگا کہ آپ اور دوسرے معروف شاعر، دونوں کے محبوب میں مشابہت ہے؟
جواب:کبھی کبھی ایسا لگا کہ میرے محبوب نے کچھ اچھا یا برا کیا اور اسے میں اپنے کسی شعر میں کچھ نہ کہہ سکا بلکہ کسی اور اچھے شاعر کا شعر بر محل یاد آگیا اور وہی اس کی نذر کر دیا۔لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوا ہے۔عموماََ میں نے محبوب کے رویوں کو اسی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔یہاں ایک بہت پرانی پوری غزل دیکھیں جس میں اردو شاعری کی مشترکہ روایت کے باوجود محبوب کے طرزِ عمل کی انفرادیت ظاہر و باہر ہے۔
کسی بھی لفظ کا جادو اَثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلق بھی
جو مجھ کو سوچے بِنا دن بسر نہیں کرتا
ٹھہرنے بھی نہیں دیتا ہے اپنے دل میں مجھے
محبّتیں بھی مِری دل بدر نہیں کرتا
لبوں میں جس کے محبت کا اسمِ اعظم ہے
نجانے پیار کو وہ کیوں اَمر نہیں کرتا
نہیں بساتا جو آکر بھی شہرِ دل میرا
یہاں سے جاکے بھی اِس کو کھنڈر نہیں کرتا
اُدھر کی مجھ سے چھپاتا نہیں ہے بات کوئی
وہ میری باتیں کبھی بھی اُدھر نہیں کرتا
عجیب طور طریقے ہیں اُس کے بھی حیدرؔ
وہ مجھ سے پیار تو کرتا ہے، پر نہیں کرتا
ہاں محبوب کی بے لحاظی پر ایک بار غالبؔ کا بے لحاظ محبوب یاد آیا تھا اور میں نے اپنی ایک آزاد غزل میں اس کا اظہار بھی کر دیا تھا۔لیکن تجربہ سو فی صد میرا اپنا تھا۔
کوئی تو حد ہوا کرتی ہے آخر بے لحاظی کی
نرے غالبؔ کی غزلوں والے ہی محبوب ہوتے جا رہے ہو
سوال:اپنے محبوب سے بات کرنے،اسے مخاطب کرنے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں سب سے زیادہ معاون کیا رہا؟ غزل، نظم اور ماہیا؟ اور کیوں؟
جواب: ویسے تو تینوں اصناف میں ہی محبوب کے حوالے سے اپنے جذبات کے اظہار کا موقعہ ملا ہے۔طمانیت کا احساس غزل اور ماہیے میں کسی حد تک زیادہ ہوتا رہا ہے لیکن اس کے باوجودعام طور پر غزل اور ماہیے میں محبوب کا ذکر ان اصناف میں محبوب کے عمومی کردار کی طرح آتا ہے۔یعنی ایسا محبوب جو سارے شاعروں کی شاعری میں ملتے جلتے انداز سے جلوہ فرما ہے۔اس عمومیت کی وجہ سے محبوب کی انفرادی پہچان پر ایک پردہ سا پڑ جاتا ہے۔اس لحاظ سے میری نظموں میں شاید نسبتاََ کھلا اظہار ہوا ہے کہ جس میں سے محبوب کا چہرہ بلکہ سراپا بھی جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔یہ اپنے تجربے اور اپنی شاعری کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔
سوال: کوئی ایسا شعر،غزل،نظم یا ماہیا جس میں آپ کو یہ لگا ہو کہ محبوب کا کردار ،اس کا احساس بہت کھل کر سامنے آیا ہو؟
جواب: میرا ایک شعر ہے۔
اگرچہ رشتہ بھی اس سے کوئی نہیں لیکن
وہ کچھ نہ کچھ تو ہمارا ضرور لگتا ہے
بظاہر اس سے کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس شعر سے محبوب کا کرداراور اس کی نسبت میرا احساس دونوں بہت کھل کر سامنے آئے ہیں۔اسے بھی اس کا علم ہے اور مجھے بھی۔۔۔تو بس اتنا ہی کافی ہے۔
سوال:کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا کہ کوئی چہرہ دیکھ کر شاعری کرنے کو جی چاہا ہو؟
جواب: جی کئی بار ایسا ہوا ہے بلکہ میں آپ کے شروع کے ایک سوال کے جواب میں بتا چکا ہوں کہ کئی خوبصورت چہروں کو دیکھ کر اچھا لگااور شعر کہے۔لیکن یہ سب یک طرفہ محبت ہی سمجھیں۔
جتنی اچھی صورتیں ہم کو ملیں
اتنے ہی خانوں میں حیدر ؔ بٹ گئے
سوال:آپ نے اپنی شاعری کے حوالے سے محبوب کا تصور تو بتا دیا۔۔۔ سادہ اور عام فہم الفاظ میں بتائیے آپ کے خیال میں محبوب کیا ہے؟بالکل سادہ پیرائے میں اسے کیسے بیان کریں گے؟
جواب: ایک مشکل بات کے لیے آپ نے آسان پیرائے میں بات کرنے کی پابندی لگا دی ہے۔محبوب اور محب کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے محبت کے بارے کچھ عرض کردوں۔اور یہ بات اپنے ایک افسانے ’’روشن نقطہ‘‘میں مذکوراقتباس سے ہی پیش کردیتا ہوں۔
’’المحبۃ حجاب بین المحب والمحبوب۔محبت خود محبوب اور محب کے درمیان پردے کانام ہے‘‘
اب دیکھتے ہیں کہ محب اور محبوب کیا ہیں۔اس کے لیے بھی ’’روشن نقطہ‘‘میں درج ایک فرمان پیش ہے۔
’’محبت کے چار سفر ہیں۔کامیابی کے لئے یہ سفر ضروری ہیں۔
محب سے محبوب کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔محبوب سے محب کی طرف
محب سے محب کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب سے محبوب کی طرف‘‘
اس بات کو اب آسان ترین الفاظ میں ایسے ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ’’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کا مقام ہے۔لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے مجاز کے سارے مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔معاشرتی سطح پر ہمارے ہاں انہیں مجازی مراحل میں ہی ساری دلچسپی رہتی ہے۔آگے کی طرف ہم دیکھتے ہی نہیں۔شاید اس لئے کہ آگے چوتھے کھونٹ کا سفر ہوتا ہے۔
سوال:کہتے ہیں محبت ایک بار ہوتی ہے۔مطلب یہ کہ محبوب بھی ایک ہی ہوتا ہے۔کیا آپ کی شاعری میں ایک ہی محبوب آپ کی شاعری کا مرکز رہا ہے؟
جواب: میں محبت ایک بار کا قائل نہیں ہوں۔ویسے کوئی ایک بار محبت پر قانع ہے تو اس کی اپنی خوبی ہو سکتی ہے۔مجازی سطح پر تو اس میں جتنا تنوع ہومیرے لیے خوشی کا موجب ہی رہا ہے۔عمر کے ایک حصے میں آکر یہ احساس ہوا تھا۔
ہماری عمر کی یہ آخری محبت ہے
سو اب کے بار محبت کی کوئی حد نہ رہے
لیکن پھر ایک اور تجربے سے گزرے تو کہنا پڑا۔
ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر
نہیں جانا تھا،پر جانا ضروری ہو گیا ہے
عمر کے ایسے حصے میں بھی یہ احساس ستانے لگتا ہے۔
عشق کی دنیا کے اَن دیکھے نگر رہتے ہیں
عمر تھوڑی سی ہے اور کتنے سفر رہتے ہیں
سو میں تو ابھی تک حالتِ سفر میں ہوں!
فرزانہ یاسمین: حیدرقریشی صاحب! آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس مکالمہ کے لیے وقت دیا اور بھر پور تعاون کیا۔آپ کا بہت بہت بہت شکریہ۔
حیدرقریشی: بچے! آپ کا بھی شکریہ کہ ایسے حساس موضوع پر آپ نے اتنے اطمینان کے ساتھ مکالمہ کیا۔اللہ آپ کو خوش رکھے اور ایم فل سمیت زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب کرے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“