یہ 1981-82ء کی بات ہے جب میں کراچی سے لاہور ٹرانسفر ہوا۔ لاہور پیروں اور ولیوں کا شہر تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ ادیبوں اور شاعروں اورفن کاروں کاشہر بھی ہے ۔ بڑے سے بڑے ادیب،شاعر،پینٹر،صحافی،پروفیسر،نقاد،موسیقار، مجسمہ ساز،گیت کار، گلوکار،فلم ساز،ہدایت کار، اداکار،سیکڑوں نام ہیں جن کی خوشبولاہور کے گلی کوچوں میں آج بھی مہک رہی ہے۔ جب میں لاہورآیا تو میں بہت مسحورتھا،ٹی ہاؤس ،گورنمنٹ کالج ،اورئنٹل کالج، نیشنل کالج آف دی آرٹس، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ٹیلی وژن سینٹریہ وہ جگہیں تھیں جہاں ایسی ہی نابغہ ہائے روزگار شخصیات سے ملاقات کے نتیجے میں مجھے ایک ادبی ماہ نامے کا خیال آیا اور اپنے جنرل منیجر کو بصری ادبی جریدے کا آئیڈیا پیش کردیا۔
اس ادبی ماہ نامے میں مختلف فنون کے تخلیق کار تو ہوتے ہی تھے لیکن وہ نوجوان تخلیق کار جو اُس وقت اپنے سینئرز کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے، اُنھیں بھی میں اس پروگرام کے ذریعے میں ٹیلی وژن دیکھنے والوں سے متعارف کروا رہا تھا۔ چناں چہ کئی نوجوان شعرا کے ساتھ ساتھ حیدرقریشی سے میری ملاقات اس ادبی ماہ نامے ہی کے پلیٹ فارم پر ہوئی۔ حیدرقریشی سے میرا تعارف دراصل محترم ومکرم ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے موقر جریدے’’اوراق‘‘ کے صفحات میں چھپنے والی اس کی غزلوں اور نظموں نے کروایا تھا اور میں نے اُسے خان پور سے بلالیا…… حیدرقریشی کی شخصیت نے میرا دل موہ لیا۔ سو ٹیلی وژن پر ایک نئے شاعر اور ایک نئے پروڈیوسر ڈائریکٹر کا یہ عارضی رشتہ پرخلوص دوستی میں ایسے ڈھلا کے جیسے جیسے وقت گزرتا گیایہ اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ حیدر قریشی کا ’جدید اَدب‘ اِسی دہائی کی زندہ نشانی ہے جسے حیدر نے خان پور کی آب و ہَوا میں جیسے تیسے زندہ رکھا اور پھر وہ کب جرمنی چلا گیا مجھے معلوم نہ ہوپایا۔
ابھی ایک سال پہلے حیدر کے ٹیلی فون نے مجھے چونکا دیا۔ آواز میں وہی تازگی، پہچان، دوستانہ اور تعلقِ خاطر…… حیدر نے اپنا نام لیا تو میں ششدر رہ گیا۔اور ہمارے بیچ میں سے ستائیس اٹھائیس سال چپکے سے سرک کر ایک طرف کوہوگئے۔ میں سمجھا کہ حیدرخان پور ہی سے بول رہا ہے اور جدید اَدب کے لیے کسی تازہ نظم کی فرمایش کرنے والا ہے…… مگر وہ تو جرمنی سے فون کررہا تھا مجھے…… وہی ستائیس اٹھائیس سال جو ہمارے بیچ میں سے روئی کے گالے کی طرح اُڑ کرایک طرف کو ہوگئے تھے، چند منٹ میں 13انچ موٹے شیشے کی دیوار کی طرح دھڑام سے ہمارے درمیان دوبارہ کھڑے ہوگئے ،فاصلے کا احساس بھی کتنا خوف ناک ہوتا ہے۔
حیدر اور اس کا ’جدید اَدب‘ ذہن سے محوتو ہرگز نہ ہوا تھا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن کا ایک مصروف ترین اور مقبول ترین پروڈیوسر ڈائریکٹر بننے کے لیے جس طرح میں نے زندگی کے شب و روز کو اتھل پتھل کیا ۔ اُس اتھل پتھل کے گردوغبار نے شیشے کی اُس دیوار کو جس کے آرپار ہم بہت آسانی سے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ اتنا میلا ضرور کردیا تھا کہ حیدر کے ساتھ ساتھ اسکول ،کالج،یونی ورسٹی کے کچھ اوردوست بھی تھے جن کے چہرے دھندلے ہوگئے تھے۔زندگی ہے ہی کچھ ایسی کمینی چیزکہ انسان کو اپنے گھیرے میں یوں جکڑ لیتی ہے کہ سانس کا ردھم بھی بعض اوقات ٹوٹنے لگتا ہے اور اب تو زندگی خود ایک ناگہانی کے گھیرے میں ہے۔ بہت ڈر گئی ہے، سہم گئی ہے۔خودکش حملہ آوروں، دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے محاصرے میں اس ڈری ہوئی زندگی کو اوڑھے ہوئے لوگوں کے کانوں میں اگر کوئی شناسا آواز پڑ جائے تو غنیمت ہے۔لیکن حیدر کی آواز غنیمت نہیں بیش قیمت تھی۔ وہی خان پوریہ سا لہجہ…… وہی خلوص،وہی شعر وادب کا چسکا،وہی ’جدیدادب‘۔
’جدید اَدب‘ جو خان پورسے ایک چھوٹے سے چھاپہ خانے کی سیاہی سے روشن ہوتا تھا اب انٹرنیشنل ہوچکا ہے…… جن بڑی شخصیات سے بات کرنے کا ہم خواب دیکھتے تھے وہ ادبی شخصیات اس جدید اَدب میں اپنی تخلیقات کے ساتھ جلوہ انداز ہوتے ہیں۔ حیدر کا رابطہ دنیا بھر کے اردو دان طبقے سے استوار ہے اور وہ خود نہ صرف یہ کہ غزل گو اور نظم گو ہے بلکہ افسانہ نگار ہے، انشائیہ نگار ہے۔ گمبھیر ادبی معاملات پر ایک ثقہ قسم کے نقاد کی طرح اس کی گہری نظرہے ، یا دداشتیں، سوانحی خاکے، اپنی زندگی، اپنے پورے خاندان کے افراد کے ساتھ اپنے میل جول اور رشتوں کی تفسیرات ،سفرنامے، حج بیت اللہ کی روداد، اپنے ذاتی روز و شب، اپنے قریب ترین شے یعنی بیوی بچوں کے بارے میں اپنے قاری کو اتنا کچھ اتنی آسانی سے بتا چکا ہے جیسے کھانے کی میز پر بیٹھے اپنے ذاتی دوستوں کو اپنے گھر کے درودیوار میں لگی ایک ایک اینٹ کے بارے میں بتا رہا ہو۔اس کی سینتیس سالہ ادبی زندگی گیارہ مختلف النوع تخلیقی کتابوں میں سجی ہوئی ہے۔اُس نے بہت اہتمام سے زندگی کو، زندگی کے معاملات کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو، رشتے ناتوں کو، کہانی ،شعر،نظم اور تنقید کو آپ بیتی اور جگ بیتی کو ہمارے ادبی منظر نامے کا حصہ بنایا ہے۔
قریباً ایک سال پہلے حیدرقریشی سے میرا رابطہ بحال ہوا۔ تب سے میری حیرانیوں کو سانس لینے کاموقع نہیں ملا۔ ایک تو اُس نے مجھے چھپنے چھپانے کے معاملے میں بہت Activeکردیا ہے…… Activeتومیں پہلے بھی تھا لیکن اپنے آپ میں گم ،ڈراما،میوزک، ادب، سب کو نئے رخ سے دیکھنے کی لگن اور دو نمبرمنافقینِ ادب سے کوسوں دور اپنی کٹیا تک محدود رہنا میرا شیوہ تھا۔ اس شخص نے میرے دل وجان میں بجلی بھر دی ۔یہ شخص جب تک دو نمبر کو دو نمبر ثابت نہ کردے چین کا سانس نہیں لیتا، یقین نہ آئے تو اپنے وقت کی معروف ترین شخصیت نارنگ صاحب سے پوچھیے۔دوسری طرف ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ حیدر نے تب تک اپنے حلق سے نوالہ نہیں اتارا جب تک کسی جینوین ادیب یا شاعر کو اس کے حصّے کی داد نہ پہنچا دی۔ اور ان کاموں کو اس نے اپنا بہت سارا وقت دیا ہے۔سوچتا ہوں اگر حیدرجرمنی نہ گیا ہوتا تو اتنے ڈھیر سارے کام کیسے کرلیتا…… اس کی تحریریں پڑھتے ہوئے بار بار میرے اندر یہ سوال اٹھا کہ میں حیدر کو ادب کے کس خانے میں فِٹ کروں مگرشاعری میں، افسانہ نگاری میں،خاکہ نگاری ،انشائیہ، تنقید ،سبھی خانوں میں یہ فٹ ہے اور قابلِ تحسین ہے۔تحقیق کے میدان کو بھی نہ چھوڑا اور اپنی سرزمین کی مٹی سے، اس کی آب و ہوا سے، اُس کے روز وشب سے، اس کی گرمیوں ،سردیوں، کھیتوں کھلیانوں کی خوشبو سے صورت پذیر ہونے والی ایک شعری صنف ’ماہیا‘‘ کی ہیئت، اس کے اوزان اور اس کے موضوعات کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان ہی کے نہیں یورپ وامریکا تک کے ادبی حلقوں کوبھی سرگرم کردیا۔ اب حیدرقریشی کا نام ’’ماہیا‘‘ لکھنے اور پڑھنے والوں میں اتنا ہی مقبول ہے جتنا خود حیدرقریشی۔بلکہ جدید ادب کے ہرشمارے کے ٹائٹل پیج پر اس کا کوئی ’ماہیا‘ ضرور درج ہوتا ہے۔
حیدرکی کلیات ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘کو پڑھتے ہوئے مجھ پر کھلا کہ میری زندگی کا ابتدائی زمانہ اور حیدرقریشی کی زندگی کا ابتدائی زمانہ کس حد تک ایک دوسرے سے مشابہہ ہے۔ حیدر نے مختلف جگہوں پر اپنی زندگی کے ابتدائی دور کی تفصیل بیان کی ہے۔ میں نے بھی بارہا اپنے انٹرویوز میں بلکہ اپنی پہلی کتاب گلِ موسمِ خزاں کے Prefaceمیں بھی لکھا ہے کہ میں پرائمری اسکول میں پڑھتے وقت ہر اتوار کو چکوال شہرمیں مزدوری کیا کرتا تھا۔میں نے اپنے ٹیچرز کے بچوں کو پڑھا کر اپنے اسکول کی فیس ادا کی ہے۔ میٹرک کے بعد میں نے بھی پرائمری اسکول میں مبلغ ساٹھ روپے ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر ملازمت کی ہے۔حیدر کی ابتدائی زندگی بھی مزدوری کرنے میں گزری ،فرق یہ کہ حیدر ایک فیکٹر ی میں مزدوری کیا کرتا تھا اور میں اپنے گاؤں کے پروفیشنل مزدوروں کے ساتھ اینٹ گارا ڈھویا کرتا تھا۔ٹیچنگ اِس نے بھی کی، میں نے بھی کی۔ ابتدائی زندگی کی اس مماثلت نے بھی ہمارے درمیان دوستی کا یہ گل زار کھلائے رکھا ہے۔اور یہ جو بہت طویل عرصے تک ہم ایک دوسرے سے نہ مل پائے تو یوں سمجھیے کہ زندگی کی تیز دھوپ سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی اپنی دوستی کے اس گل زارکو اُن سبز چادروں سے ڈھانپ رکھا تھا جو عموماً گھریلو پودوں کو مرجھانے سے بچانے کے کام آتی ہیں اورہم خود اپنی اپنی جگہ ایک نئی زمین کی گوڈی کرنے اور اس پر اپنی اپنی زندگی کا ایک نیا باغ تعمیر کرنے میں لگے رہے۔اب جو اس دوستی کے گل زار پر سے وقت کی یہ سبزچادر ہٹی تو دیکھا کہ سارے کے سارے گملوں میں، سارے کے سارے پھول ویسے کے ویسے ہی تازہ ہیں۔
حیدرقریشی کل بھی راضی بہ رضائے الٰہی تھا اور آج بھی۔ اس کے بہت سارے دوست ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ حیدر نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس کی موت واقع ہونے والی ہے۔ اس نے ہماری بھابی مبارکہ کو ، بچوں کو اور سبھی دوستوں کو نہ صرف بتایا بلکہ اس خواب کے مطابق اپنی زندگی کے بہت سے معاملات کو عملی طور پر سمیٹنا بھی شروع کردیا۔ اس عمل میں حیدرکی طرف سے خواب پرستی کااشارہ کہیں نہیں ہے۔ حیدرکی یاداشتوں کاتازہ Chapterثابت کرتا ہے کہ زندگی کی بے ثباتی اور موت کے برحق ہونے پر حیدر کا یقینِ کامل کس درجے کا ہے۔ اس کی زندگی مسلسل محنت سے عبارت ہے اور اس خوف سے عاری ہے کہ نہ جانے کل کیا ہوگا۔ اسی درویشانہ سوچ کی برکت ہے کہ اس بے ثبات زندگی میں قدرت نے اس کو آلایشوں سے پاک اوربنیادی آسایشوں والی زندگی میں علم و اَدب کی خدمت اور دوستوں سے محبت کرنے کا موقع دے رکھا ہے۔ اللہ اِسے خوش رکھے۔
میں اس کی ساری کتابیں تفصیل سے تو ابھی نہیں پڑھ سکا لیکن سب کتابوں کو دیکھا ضرور ہے……مثلاً اس کی جو کہانیاں میں اب تک پڑھ سکاہوں اُن میں ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘ایک ایسی علامتی کہانی ہے جس میں ایک فردِ واحد کے ساتھ انسانی معاشرے کے عمومی رویّے کو انسانی تاریخ کے Perspectiveمیں دیکھا گیا ہے۔
ماں باپ کی آپس کی Relationshipاوربچے۔اس مجموعی تعلق کو ایک ایسی تکون میں دیکھا گیا ہے جس کے تینوں زاویے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں بدلتے رہتے ہیں جیسے تینوں لائینیں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے جڑی ہیں بلکہ ایک دوسرے کا پرتوبھی ہیں۔
’’کاکروچ‘‘ حیدرکی ان کہانیوں میں سے ہے جوکہانی کے لیے نئے کرداروں کی تخلیق کی ایک ممکنہ جستجو ہے ،اس کہانی کو پڑھ کر پتا چلا کہ اگرایٹمی طاقتیں اس بیچاری دنیا کی انسانی آبادی کو قیامت سے پہلے ہی ختم کردیں ،کوئی انسان باقی نہ بچے تو مکھی کا ایک جوڑا یاکاکروچ کاجوڑا اس کرۂ ارض پر ایک نئی دنیا آباد کرے گا اگر ایسا ہوا توقیامت کے دن کا کروچ…… حیدر کی کہانی کے آخر میں دو جملے پڑھ کر مزید یہ بھی کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ اگر کسی ابتدائی زمانے میں انسان چوپایا ہوسکتا ہے تو کاکروچ اپنے ترقی یافتہ زمانے میں دوپایہ کیوں نہیں ہوسکتا۔’’انکل انیس‘‘ اور’’بابا جمال شاہ کا جلال ‘‘ بھی اپنی سادگی اور معنی خیزی کے حوالے سے بہت اچھی کہانیاں ہیں۔
حیدر نے بے شمار دوستوں اور رشتے داروں اور ادیبوں کے خاکے لکھے ہیں لیکن جن دوخاکوں نے مجھے صحیح معنوں میں اسیر کرلیا وہ’’ برگد کا پیٹر‘‘ اور ’’مائے نی میں کہنوں آکھاں‘‘دوایسے خاکے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی پہلو ہر انسان کی زندگی میں موجود ہے۔
حیدر کے شعری مجموعوں میں جو نظمیں مجھے پسند آئیں اُن میں ’’درد‘‘،’’پھاگن کی سفاک ہوا‘‘،’’ ایبٹ آباد‘‘،’’منی پلانٹ‘‘، ’’ایک دراوڑکا پیغام آریانوں کے نام ‘‘،’’تیامت ‘‘،’’چلو اک نظم لکھتے ہیں ‘‘ اور بہت سے ’ماہیے‘ ……نظمیں ساری کی ساری تو یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ حیدر کی غزلوں کے کچھ اشعار آپ سے ضرور شیئرکروں گا۔
روشنی روشنی سی ہر سُو ہے
یہ ترا دھیان ہے کہ خود توُ ہے
خود اپنے ہونٹوں پہ صدیوں کی پیاس رکھتا ہے
وہ ایک شخص جو مجھ کو اداس رکھتا ہے
دلوں کا خون کرنے لگ گئے ہو
بڑے سفاک ہوتے جارہے ہو
اُس نے آنا ہی نہیں تھا اس محلے کی طرف
ہم سجاتے ہی رہے بے سُود گھر کے راستی
ابرِ رحمت اب کے حیدر، بن گیا جیسے عذاب
کر دیے برسات نے مسدود گھر کے راستے
وہ بھی اپنے آئینے میں دیکھتا ہوگا مجھے
جس کو اپنے آئینے میں دیکھتا رہتا ہوں میں
دل کے دروازے پہ دستک دے کے چھپ جاتا ہے وہ
اور اپنے سامنے حیدر کھڑا رہتا ہوں میں
ہوا شہکار جب اس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا
شبِ تنہائی میں اک شخص دل پہ
اُجالے کی طرح پھیلا ہوا تھا
میرے، اُس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا
اس کے طے کرنے کو بھی اک راستہ رکھا گیا
بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اس کی یاد کے
مجھ کو سوتے میں بھی حیدر جاگتا رکھا گیا
وہ موم ہے اگر تو اُسے دھوپ سے بچا
پتھر ہے اس کا دل تو اُسے پاش پاش کر
اُس میں مل جائے گا جا کر میرے اندر کا خلا
اور بڑھ جائے گا باہر کا خلا میرے بعد
کعبۂ دل کو کہاں چھوڑ چلے ہو حیدر
تم تو کہتے تھے یہ ہجرت نہیں ہوئے والی
اے خدا ڈر ہے مجھے طے ہی نہ ہو جائے کہیں
منزلِ عشق کو دوچار قدم رہنے دے
نہیں تو صرف مرے حال سے نہیں واقف
وہ بے خبر جو جہاں بھر کے راز رکھتا ہے
جب اس نے خاک اڑانے کا ارادہ کرلیا ہے
تو ہم نے دل کے صحرا کو کشادہ کرلیا ہے
اگلی نسلوں میں چلی جائے روانی اپنی
زندگی! ختم نہیں ہوگی کہانی اپنی
آج اولاد کے آئینے میں حیدر ہم نے
تازہ کرلی ہے ہر اک یاد پرانی اپنی
اب کے اُس نے کمال کر ڈالا
اک خوشی سے نڈھال کر ڈالا
اک حقیقت کے روپ میں آکر
مجھ کو خواب و خیال کر ڈالا
“