علم عروض میں بھی کس قدر جستجو ہے
طنز ومزاح میں بھی کیا خوب گفتگو ہے
سلجھی ہوئی ذہانت روشن خیال کتنا
انکا مقام کیا ہے کہنا محال کتنا
بادہ شاعری سے سرشار ،سخن سنج و سخن شناس، ادب نواز، تکلم کی سحر آفرینی ، شگفتہ وشیرین زبان کی چاشنی، تبسم کی حلاوت،مزاج کی بے مثل شرافت،چہرے پر وجاہت،حوصلوں کا پہاڑ،اخلاق کا مینار،شاہین صفت پرواز فکر وخیال ،اردو سے محبت بے مثال ،ان اوصاف کے خمیر سے جو جوہر انسان ترتیب پایا ہے۔ جو آسمان اردوادب پر آفتاب و ماہتاب بن کر دنیائے ادب کی ضوفشانی کر رہا ہے۔ پورا اردو طبقہ اس باوقار شخصیت کو حیدر قریشی کے نام سے جانتی ہے۔
یا وہ جوہر الگ تھا جوہر انسان سے
یا نکلتے نہیں اب ایسے جواہر کان سے
اگر انکی گوناگوں مصروفیات اور حصولیابیوں کے علاوہ انکی ادبی خدمات پر نگاہ ڈالیں تو انکا قد معاصرین کے درمیان بلند مینار کی طرح نظر آتا ہے ۔
کتنا عالی مقام ہے حیدر
ماہئیے کاامام ہے حیدر
نظم، تنقید ہوکہ افسانہ
مستند ایک نام ہے حیدر
(عاصی کاشمیری برمنگھم عکاس حیدر قریشی نمبرص۱۱۲ ؎۱)
حیدر قریشی کی اردو ادب میں کئی جہتیں ہیں وہ ایک مستند نقاد ، محقق ،بلند پایہ شاعر، منفرد ماہیہ نگار ، ماہر طنز ومزاح نگار اور بیدار مغز تبصرہ نگار ہیں آپکی علمی وادبی خدمات اردوادب میں ایک معتبر فرہنگ ہے ۔حیدر قریشی کی نثر نگاری اور شاعری پر مستند حضرات و خواتین نے کلام کیا۔صرف بر صغیر ہی نہیں پورے عالمی ادب میں آپ اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔آپکے چھ شعری مجموعے :سلگتے خواب‘عمر گریزاں‘محبت کے پھول ‘دعائے دل‘درد سمندراور زندگی ہیں اور یہ شعری مجموعے ایک ہی جلد میں ’’قفس کے اندر‘‘کے عنوان سے دستیاب ہیں۔
۷ نثری مجموعے جنمیں روشنی کی بشارت‘قصے کہانیاں(افسانوی مجموعہ)،میری محبتیں (خاکے)،کھٹی میٹھی یادیں ‘قربتیں ‘فاصلے(انشائیے)‘سوئے حجاز(سفرنامہ)اور یہ تمام مجموعے بھی ایک ہی جلد میں ’’خواب کے اندر خواب‘‘کی شکل میں دستیاب ہیں ۔پانچ شعری مجموعے اور چھ نثری مجموعوں کا مجموعی’’عمر لاحاصل کا حاصل‘‘کی صورت میں ایک انوکھی اور عمدہ مثال ہے ۔اردو ماہیا نگاری اور اردو ماہئیے کی تحریک پر انکی تنقیدی وتحقیقی کتابیں اردو میں ماہیا نگاری‘اردو ماہئیے کی تحریک‘اردو ماہئیے کے بانی ہمت رائے شرما ‘اردو ماہیا اور اردو ماہیئے کے مباحث یہ تمام کتابیں ’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘ کے عنوان سے ایک ہی جلد میں دستیاب ہیں ۔
بحیثیت شاعر:
تخیل ذہن کی وادی میں اسکے جب مچلتے ہیں
تو فن کاری کے جوہر سے حسیں لفظوں میں ڈھلتے ہیں
حیدر قریشی کہنہ مشق بلند مرتبت اور مشہور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں اطراف و اکناف سے باخبری انکے اشعار میں ملتی ہے۔ آپکے اشعار نکھرے نکھرے ہوتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے خیالوں میں ایک کیف وکم کی دنیا آباد ہوجاتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
لفظ اندھے ہوگئے سوچوں کو پتھر کر گیا
ایک ہریالی کا پیکر دل کو بنجر کر گیا
تمہارے دل کی بنجر سر زمیں سیراب کرنے کو
ہماری خشک آنکھوں ہی کو آخر جھیل ہونا ہے
خود اپنے ہونٹوں پہ صدیوں کی پیاس رکھتا ہے
وہ ایک شخص جو مجھ کو اداس رکھتا ہے
وہ پتھر دل سہی لیکن ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے
ہمارے لب جنھیں چھولیں وہ پتھر بول اٹھتے ہیں
اہل دنیا بھلا اس رمز کو کیسے سمجھیں
عشق رسوا نہیں ہوتا کبھی رسوائی سے
جسم بھی اپنی جگہ زندہ حقیقت ہے مگر
دل نہیں ملتے فقط جسموں کی یکجائی سے
نہ پورا سوچ سکوں ،چھو سکوں ،نہ پڑ ھ پاوٗں
کبھی وہ چاند ،کبھی گل ،کبھی کتاب لگے
تم نے وہ منظر ہی کب دیکھے ہیں ،جب
درد سمندر،دل دریا میں گرتے ہیں
کون ہے پھر اب میرے دکھ کا سبب
خواہشوں سے تو کنارا کر لیا
دودھ بدن ہے وہ تو مصری کوزہ ہم
سو اب اس کے عشق میں گھلنے والے ہیں
مندرجہ بالا اشعار میں تخیل کی بلندی اور فکر کی گہرائی دیکھئے جو بلند پروازیٔ خیال کے سخت سے سخت انتخاب میں بھی اپنی جگہ بنا لیں گے ۔حیدر قریشی کی شاعری کے متعلق سید ضمیر جعفری کی خیال افروز سطریں ملاحظہ ہو۔
’’حیدر قریشی اردو غزل کے نئے افق پر ایک سپوتنک کی طرح بلند ہونے الے ہمارے چند نوجوان شعراء میں شامل ہیں ۔حیدر کا شعر درد مند بھی ہوتا ہے اور خوش آہنگ و خوش رنگ بھی ۔وہ اپنی تخلیقی فصل کے کسی خوشے ‘بالی ‘ٹانڈے کو دیمک لگنے نہیں دیتا۔اڑتا ہے تو زمین کو ساتھ لے کر اڑتا ہے ۔ہماری جدید غزل میں ایسی اجلی اور ایسی مٹیالی شاعری کی مثالیں کم کم ملتی ہیں میرے نزدیک حیدر قریشی شعراء کے اس عمدہ گروہ کے سر پنچوں میں سے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو جدید غزل کی وہ ساکھ نہ ہوتی جو ہے۔
(قفس کے اندر۔از:حیدر قریشی ٹائٹل پیج ؎۲)
رومانیت حیدر قریشی کے مزاج کا ایک جزو ہے حیدر قریشی کے کلام میں اجتماعی احساسات کے ساتھ انفرادی جذبات بھی ہوجود ہیں ۔غم عشق کا فسانہ بڑے دل کش انداز میں سناتے ہیں۔انکی شاعری ہجر ووصال،عشق ومحبت کے جذبات،بلندیٔ خیال ، فکر کی گہرائی و گیرائی ،حزن و ملال ، مسرت وشادمانی اور زندگی کے مختلف رنگوںسے سجی ہوئی ہے جہاںہر رنگ اپنی انفرادیت اور جداگانہ خصوصیات رکھتا ہے۔
نثرنگاری:
حیدر قریشی جتنے کامیاب شاعر ہیں ۔اتنے ہی بہترین اور بلند پایہ نثرنگار ہیں۔انکی نثر بھی گویا شاعرانہ نثر ہے انکے بعض نثری نمونوںپر شاعری کاغلبہ ہوتاہے۔خاکہ نگاری،افسانہ نگاری، یادنگاری، سوانح نگاری،، تنقید نگاری، غرض اصناف نثر کے تقریباًصنفوں میں طبع آزمائی کی اور اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔آپکے افسانے انسانی جذبات و احساسات سے بھر پورہیں اور ا انہوں نے اپنے افسانوں کے کردار ہمارے اطراف واکناف سے لئے ہیں۔
عامر سہیل حیدر قریشی کی افسانہ نگاری سے متعلق رقمطراز ہیں ۔
’’حیدر قریشی کے افسانوں کو اگر مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تو انکے فنی و فکری محاسن پڑھنے والوں پر خوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں ان کے افسانوں میں سیاسی و سماجی شعور کی سطح نہایت گہری اور عمیق ہوتی ہے بلکہ اسی عصریت نے انکے افسانوں کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے ۔فنی اور تکنکیی تقاضوں پر انکی نظر اس بات کی شاہد ہے کہ وہ ادب کی اعلیٰ قدروں کو مد نظر رکھتے ہوئے تخلیقی ذمہ داریوں سے عہدہ بر ا ہوتے ہیں ۔سماجی حقیقت نگاری انکا اصل میدان ہے اظہاریت میں تخلیقی رکھ رکھاؤ اور برجستگی انکے اسلوبی وژن کا اصلی جو ہر ہے ۔‘‘
(حیدر قریشی کا ادبی سفر۔از ۔عامر سہیل ص۴۸ ؎۳)
کھٹی میٹھی یادیں حیدر قریشی کی مختصر سوانح ہے جو ۴۰ سالہ یادداشت کا احاطہ کئے ہوئے ہے حیدر قریشی کا میموری پاؤر کمال کا ہے جہاں ہر بات ہر واقعہ ایسے save ہوگیا ہے گویا کل ہی کی بات ہو ۔وہ واقعات کی پیش کشی میں معمولی سے معمولی جزئیات کو بھی فراموش نہیں ہونے دیتے ۔
انکی سوانح نگاری کے متعلق پروفیسر لئیق صلاح کے بصیرت افروز خیالات ملاحظہ کیجئے۔
’’اس سوانح کا سب سے خاص وصف حیدر قریشی کا اسلوب ہے مختلف موضوعات پر مبنی یہ سوانح ہے لیکن کہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ قلم کی روانی میں فرق آیا ہے ۔۔۔۔موضوع کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب ،طرز ادا، حسن بیان میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔۔۔اس سوانح کے کردار ،خاکہ نگاری کی شرائط پر پورے اترتے ہیں ۔مطالعے کے دوران کہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ جس شخص کو متعارف کرایا جا رہا ہے وہ پس پشت ہے اور حیدر قریشی ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں ۔
(معجزۂ فن۔مرتب:محمد انورالدین ص۹۵ ؎۴)
انشائیہ اردو ادب کی ایک اہم صنف ہے انشائیہ کو ذہنی ترنگ کہا گیا ہے اور حیدر قریشی جیسی عہد آفریں شخصیت نے انشائیہ نگاری میں بھی اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا ہے۔ انکی انشائیہ نگاری کی مثال دیکھئے۔
’’گرگٹ بیچارے کو ہر کوئی لعن طعن کرتا ہے جبکہ اسکا گناہ اس سے زیادہ نہیں کہ آئینے اور پانی کی طرح یہ بھی جہاں سے گزرتا ہے اسی رنگ میں رنگین نظر آنے لگتا ہے آئینہ پانی اور گرگٹ تینوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں ۔‘‘
(فاصلے قربتیں۔از۔حیدر قریشی ص۷۱ ؎۵)
خاور اعجاز حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری کے متعلق رقمطراز ہیں ۔
’’حیدر قریشی کے انشائیوں میں حیرت آمیز تجسس کی فضاء ہمیشہ موجود رہتی ہے اور پڑھنے والا ایک چوٹی یا عروض سے گزر کر نئی چوٹی کے نظارے میں گم ہوجاتا ہے۔۔۔‘‘
(عکاس ۔حیدر قریشی نمبر ص۶۴ ؎۶)
ماہیا نگاری اور تحقیق و تنقید:
بات جب ماہئیے کی ہو استادؔ
ذکر حیدر ؔوہاں ضروری ہے
(تاثر اور تنقید۔از۔عبدالرب استاد ص۵۳ ؎۷)
پنجابی شاعری میں ایک مخصوص صنف’ماہیا‘ ہے جو تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے صنف ماہیا کو بام عروج پر پہنچانے والوں میں اہم نام حیدر قریشی ہے ۔حیدر قریشی نے ماہیا نگاری کو ایک تحریک کا روپ دے دیا ہے اور ماہئیے کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ماہئیے کی صنف میں اتنی جاذبیت ہے کہ وہ گائی بھی جا سکتی ہے اور تحریری شکل میں پڑھ کر بھی اس سے حظ اٹھا یا جاسکتا ہے ۔صنف ماہیا کو روشناس کرانے اور اسکو فروغ دینے کا سہرا بھی حیدر قریشی کے سر ہے ۔
حیدر قریشی کی ماہیا نگاری کے متعلق پروفیسر عبدالرب استاد کے ناقدانہ خیالات دیکھئے۔
’’یہ کیفیت انکے ماہیوں سے عیاں ہے جسمیں آمد کی کیفیت در آئی ہے کس قدر رواں اور غیر معمولی انداز اور سبک روی سے وہ ماہئیے کہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ان ماہیوں میں بھی جسطرح کے تشبیبوں کا استعمال انہوں نے کیا ہے وہ قابل تعریف بھی ہے اور آنے والوں کے لئے مشعل راہ بھی کیونکہ موقع اور مناسبت کے لحاظ سے علاقائی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی مناسبت سے تشبیبوں کو برتا اور پیش کیا ہے۔
(مقالہ برائے پی ایچ ڈی ۔از پروفیسر عبالرب استاد ص ۱۱۰ ؎۸ )
آپکے چند ماہئیے دیکھئے ۔
۱۔ پھولوں کی ہے نرمی بھی
اسکی محبت میں
صحراؤں کی گرمی بھی
۲۔ جنموں کی اداسی ہے
جسم ہے آسودہ
پر روح تو پیاسی ہے
۳۔ منظر تیرے گاؤں کے
گرم دوپہروں میں
ہنستی ہوئی چھاؤں کے
۴۔ بے شک ہیں جدا مولا
میرے پیاروں کو
خوش رکھنا صدا مولا
۵۔ کیسی تحریریں ہیں
دشمن اپنے ہی
ہاتھوں کی لکیریں ہیں
۶۔ خوشیوں کی گھڑی آئی
آنکھ کے صحرا میں
یادوں کی جھڑی آئی
حیدر قریشی نے صحیح وزن میں ماہئیے لکھ کر اردو شاعری میں ماہیا نگاری کی بنیاد ڈالی جسمیں انہوں نے منظر نگاری ، تشبیہات و استعارات کے استعمال سے انکو دلکش اور حسین بنا دیا ہے۔
اردو ماہیا نگاری کی تحریک پر بھی انہوں نے تحقیقی و تنقیدی کتابیں لکھیں جواردو زبان وادب میں اسکے مقام کا تعین کرنے میں مددکرتی ہیں ۔آپکی شاعری ہو کہ نثر نگاری دونوں میں آپ کی قابلیت و صلاحیت اور خدمات لائق صد ستائش ہیں۔آپ جہاں ایک کامیاب اور باکمال شاعر ہیں ہیں وہیں آپکی نثر نگاری میں بھی غضب کی سلاست وروانی ہے۔
صحافت نگاری:
اعلیٰ فکر بلند اخلاق
تحریر و تقریر میں طاق
وہ ہیں صحافی اور نقاد
اصل میں ہر فن کے استاد
صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو صحف سے ماخوذ ہے جسکے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں ۔یعنی ایسا مطبوعہ جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے صحافت کہلاتا ہے ۔
حیدر قریشی میدان صحافت میں بھی بے باک صحافت کے علمبردار ہیں اس میدان میں بھی انھوں نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا ہے ’’جدید ادب‘‘ایک ایسا رسالہ ہے جو پہلے تو پر نٹ میڈیا سے شائع ہوتا تھا لیکن حیدر قریشی نے اسے آن لائن بھی دستیاب کروایا اس لحاظ سے یہ اردو ادب کا پہلا رسالہ ہے جو پر نٹ اور آن لائن دونوں صورتوں میں دستیاب ہوا جدید ادب کے کامیابی کے ساتھ پندرہ شمارے نکلتے رہے۔
ادبی خدمات پر مقالے:
انکی تخلیقات اور انکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے صرف مضامین ہی نہیں بلکہ مختلف یونیورسٹیز نے آپکی شخصیت کو موضوع تحقیق بنا کر پی ایچ ڈی ‘ایم فل کی ڈگریاں تفویض کی ہیں ۔
۱۔حیدر قریشی شخصیت اور فن ۔۔۔منزہ یاسمین (ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ)سال ۲۰۰۶
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور پاکستان
۲۔حیدر قریشی شخصیت اور ادبی جہتیں ۔۔۔۔ڈاکٹر عبدالرب استاد(تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ۲۰۱۳)
گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک انڈیا
۳۔حیدر قریشی حیات و خد مات ۔۔۔۔۔۔انجم آراء (مقالہ برائے ایم فل۲۰۱۳)
کلکتہ یونیورسٹی کولکتہ انڈیا
۴۔حیدر قریشی کی ادبی خدمات ۔۔۔۔۔عامر سہیل (تحقیقی مقالہ برائے ایم فل ۲۰۱۴)
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ پاکستان
۵۔حیدر قریشی کی شاعری کا مطالعہ ۔۔۔۔ہردے بھانو پرتاپ (برائے ایم فل ۲۰۱۴)
جواہر لال یونیورسٹی دہلی انڈیا
۶۔حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کا مطالعہ ۔۔۔رضینہ خان (مقالہ برائے ایم فل ۲۰۱۴)
جواہر لال یونیورسٹی دہلی انڈیا
۷۔حیدر قریشی کی شاعری کی روشنی میں بیرونی ممالک کی اردو شاعری۔۔۔تنقیدی مطالعہ اور ترجمہ۔احمد عبدربہ عباس عبدالمنعم (ایم اے اسکالر ۲۰۱۵)
ازہر یونیورسٹی مصر
(عربی میں لکھا گیا مقالہ ۔۔۴ شعری مجموعے کا عربی ترجمہ کیا گیا)
حیدر قریشی کے زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اسکے باوجود اس پہلو دار شخصیت کا ایک پہلو منظر عام پر نہیں آیا وہ پہلوئے خاص آپکی استادانہ صلاحیت ہے۔
بحیثیت استاد :
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فریاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
جہاں حیدر قریشی علم وعروض و شاعری کے سخن شناس ، فن افسانے کے نباض ِ اخلاص شعار ، خوش گفتار شخصیت کے مالک ہیں وہیں وہ تشنگان علم وادب کی پیاس بجھانے والے طالب علموں کو motivateکرنے والے ، اردو زبان کے سچے عاشق اور ایک بہترین رہنما ہیں۔ بے پناہ استادانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور وہ اپنی خوش سلقیگی اور جذبہ ٔ ہمدردی اور بلند اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادب کے ادنیٰ و اعلیٰ طالب علموں کو اپنے علم سے مستفید ہونے کا موقع دیتے ہیں۔حیدر قریشی پیشہ سے کوئی استاد نہیں ہے مگر انمیں استادنہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ہاں انہوں نے اپنی ملازمت کے آغاز میں دو سال پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں سینیئر کلاسز کو دو سال ۹۲۔۱۹۹۱ اردو پڑھائی ہے ۔ پھر وہ جرمنی چلے گئے کسی اسکول یا کالج میں تدریسی خدمات انجام نہیں دے سکے مگر عملی زندگی میں ادب کے باذوق قارئین اور اردو سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے استاد کا فریضہ ابھی تک انجام دے رہے ہیں ۔حیدر قریشی علم کا ایک باغیچہ ہیں اور اس باغیچے میں مختلف اور انواع واقسام کے پھول نمو پارہے ہیںاور ادب کی آبیاری کررہے ہیں ۔ اوراپنے علم کی خوشبو سے سب کے ذہنوں کو معطر کررہے ہیں ۔
حضرت علی کا قول ہے.
’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اسکا غلام ہوں چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کرے۔‘‘
استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن و محبت اور دوست کا پیغام پہنچاتا ہے استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے استاد بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک استاد حقیقی جو ہمیں اسکول اور کالج میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ایک استاد معنوی ، جو کسی کالج یا اسکول کے استاد تو نہیں ہوتے لیکن زندگی کے امتحان میں ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔اور حیدر قریشی کا شمار بھی ان ہی اساتذوں میں ہوتا ہے۔ جو ایک بلند پایہ ادیب اور بلند مرتبہ شاعر ہونے کے باوجود مجھ جیسی ادنیٰ سی طالب علم کو صحیح معنوں میں طالب علم سمجھا ۔حیدر قریشی واقعی ایک استاد معنوی ہیں وہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ طلباء و طالبات کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں اور انکی تخلیقی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کی بھی کوشش کرتے ہیں جہاں تک میری بات ہے جب کبھی مجھے رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے میں سر سر رابطہ کرتی ہوں اور حیدر قریشی اپنی بے انتہا مصروفیت اور کثرت کار کے باوجود بڑی دل جمعی اور خوش اخلاقی کے ساتھ نہ صرف آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں بلکہ جو بھی مشکل درپیش ہو اسکو سہل اور آسان بنانے کے لئے مفید مشوروں سے بھی نوازتے ہیں ۔سر کے مشوروں اور رہنمائی سے جہاں حوصلہ ملتا ہے وہیں آگے بڑھنے اور کچھ کردکھانے کے شوق کو بھی جلا ملتی ہے ۔
مجموعی طور پر یہ کہنا چاہونگی کہ حیدر قریشی کی شخصیت کثیر الاوصاف اور ہمہ جہت پہلو کا منبع ہے آپکے متعلق کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
شاد عظیم آبادی کا یہ شعر آپکی شخصیت پر غالب آتا ہے اسی کے ساتھ اپنی بات ختم کرتی ہوں ۔
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
قمرالنساء
ریسرچ اسکالر گلبرگہ یونیور سٹی کرناٹک
انڈیا585106
07259673569
حوالہ جاتی کتب
۱۔عکاس ۔حیدر قریشی نمبرص۱۱۲
۲۔قفس کے اندر ۔۔از۔حیدرقریشی
۳۔حیدر قریشی کا ادبی سفر ۔از۔عامر سہیل ص۴۸
۴۔معجزۂ فن۔مصنفہ پروفیسر لئیق صلاح۔۔مرتب۔ محمد انورالدین ص۹۵
۵۔فاصلے قربتیں ۔از۔ حیدر قریشی ص۶۴
۶۔عکاس حیدر قریشی نمبر ص۶۴
۷۔تاثر اور تنقید۔از۔پروفیسر عبدالرب استاد ص۵۳
۸۔مقالہ برائے پی ایچ ڈی ۔پروفیسر عبدالرب استاد ص۱۱۰
٭٭٭٭٭٭٭٭